مصر میں قیام کے دوران مجھے قاہرہ اور اس کے قریب واقع اہرام مصر اور دوسرے تاریخی مقامات دیکھنے کے ساتھ ساتھ قدیم شہر LAXOR جسے عربی زبان میں''القصر'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جانے کا موقع ملا۔ ہم نے اسوان ڈیم بھی دیکھا اور دریائے نیل میں تین دن تک کروز(Cruise) کے دوران قدیم قلعے اور تاریخی مقامات بھی دیکھے۔
اس دورے کے دوران ہم نے نہرسویز اور صحرائے سینا کا سفر بھی کیا۔یوں تو پورا مصر ساڑھے چھ ہزار سال کے تاریخی آثار لئے ہوئے ہے، اس لحاظ سے مصر کا ہر پہلو ایک کتاب کا موضوع ہے۔ آج ہم صحرائے سینا اور نہر سویز کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ صحرائے سینا کے ریتلے ٹیلوں کو کاٹ کر انسانی ہاتھوں سے بنائی جانے والی نہر سویز دنیا کا ایک عظیم عجوبہ ہے۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے بھی یہ جگہ سمندر کے پانیوں کی گزرگاہ تھی لیکن صحرائی طوفانوں نے اس گزرگاہ کوریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کی آماجگاہ بنا دیا اور یہ خطہ دو سمندروں یعنی بحیرئہ روم اور بحیرئہ احمر میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔
پانی کی یہ گزرگاہ بند ہونے سے ایشیا سے یورپ کا سفر کرنے والوں کو پورے براعظم افریقہ کا چکر کاٹنا پڑتا تھا اور یہ مسافت طے کرنے میں کم از کم چار ماہ لگتے تھے۔ نہر سویز کی تعمیر کے بعد اب یہ سفر بارہ گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے۔
ایک سو ساٹھ سال قبل بنائی جانے والی نہرِ سویز ١٢٠ میل لمبی ہے۔ اس کی تعمیر دس سال کے عرصے میں ١٨٥٩ میں مکمل ہوئی۔ ٦٠ ہزار سے زائد مزدور تین شفٹوں میں مسلسل کھدائی کرتے رہے۔ تعمیر کے دوران ٢٥ہزار سے زائد افراد لقمۂ اجل بنے۔ ابتدا میں پانی کی یہ گزرگاہ ٢٠٠ فٹ چوڑی اور پچیس فٹ گہری تھی بعدازاں اس میں توسیع کی گئی۔
توسیع کے بعد اب نہر سویز کی چوڑائی ٦٥٠فٹ اور گہرائی ٨٠فٹ ہے۔ محلِ وقوع کے اعتبار سے نہر سویز قدرتی طور پر ایسے زمینی خطے پر ہے جہاں دونوں سمندروں بحیرئہ روم اوربحیرئہ احمرکی سطح ایک جیسی یعنی ہموار ہے اس لئے پانی کے بہائو کو کنٹرول کرنے کے لئے نہرپانامہ کی طرح Locks بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔سویز کینال سے دنیا کے بڑے سے بڑے بحری جہاز جن میں سپر ٹینکر اور ہوائی جہاز کیریئر تک شامل ہیں، بآسانی گزر سکتے ہیں۔نہر سویز کو دنیا بھر کی بحری تجارت میں عظیم شارٹ کٹ کی حیثیت حاصل ہے۔نہرسویز سے گزرنے والے چھوٹے جہازوں کو کم از کم دس ہزار ڈالر اور بڑے جہازوں کو حجم اور وزن کے اعتبار سے لاکھوں ڈالر ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ابتدا میں نہر سویز فرانسیسی کنٹرول میں تھی بعد ازاں برطانوی عملداری میں آ گئی۔
١٩٥٦میں مصر کے حکمران صدر جمال عبدالناصر نے اسے قومیانے کا فیصلہ کیا تو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے اس کی مخالفت کی اور مصر کو جنگ کا سامنا کرنا پڑا تاہم اقوام متحدہ نے نہر سویز کو مصر کا حق قرار دیا۔
جغرافیائی اعتبار سے نہر سویز مصر کی ملکیت ہے لیکن بین الاقوامی کنونشن کے تحت اسے عالمی گزرگاہ قرار دیا گیا ہے۔ جنگ اور امن دونوں ایام میں اسے بند نہیں کیا جاسکتا۔
"In time of war and in time of peace every vessel of commerce or of war without distinction of flag carrier can use the canal.
ابتدا میں نہر سویز سے بحری جہازوں کی یکطرفہ ٹریفک ممکن تھی لیکن٢٠١٥ میں کی جانے والی توسیع کے بعد اب سویز کینال سے بیک وقت تین کانوائے گزر سکتے ہیں۔اس کینال میں پانچ مقامات پر ایسے بائی پاس بنائے گئے ہیں جہاں سے دو طرفہ ٹریفک آسانی سے گزر جاتی ہے۔نہرسویز میں بحری جہازوں کی رفتار کو کنٹرول کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ رفتار ١٥ ناٹیکل میل رکھی گئی ہے۔یہ جہاز گیارہ گھنٹے سے سولہ گھنٹے میں نہر سویز کی مسافت طے کر لیتے ہیں۔جہازوں کے لئے مخصوص رفتار رکھنے کا مقصد پانی کی لہروں سے نہر سویز کے کناروں پر دبائو کو کنٹرول کرنا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق یورپ کے لئے دوتہائی تیل اسی راستے سے گزرتا ہے ایشیا اور یورپ کے درمیان ٩٧ فیصد تجارت بھی نہر سویز کے ذریعہ ہوتی ہے۔٢٠١٥ میں کی جانے والی توسیع سے پہلے نہر سویز سے روزانہ ٤٩بحری جہاز گزر سکتے تھے لیکن توسیع کے بعد اب٩٧ بحری جہاز روزانہ ا س گزرگاہ کو استعمال کر سکتے ہیں۔
مصر میں قیام کے دوران ہم نے صحرائے سینا کا تفصیلی سفر بھی کیا۔ ہماری منزل شرم الشیخ کا تفریحی شہر تھا۔ شرم الشیخ جاتے ہوئے ہم نہر سویزکے نیچے زیر زمین تعمیر کردہ سرنگ سے بھی گزرے۔ قاہرہ سے٨٧کلومیٹر کے فاصلے پر یہ سرنگ سطح زمین سے ١٦٧ فٹ نیچے ہے۔ تین کلومیٹر طویل اس سرنگ کے اوپربحیرہ ٔروم اوربحیرۂ احمرکا پانی دو سمندروں کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے دو براعظموں کو ملاتا ہے۔ جب اس سرنگ میں داخل ہوتے ہیں تو آپ براعظم افریقہ میں ہوتے ہیں لیکن چند ہی منٹ بعد جب گاڑی باہر نکلتی ہے تو آپ براعظم ایشیا میں ہوں گے ۔جس طرح استنبول میں آبنائے باسفورس یورپ اور ایشیا کو ملاتا ہے اسی طرح نہرسویز افریقہ اور یورپ کا بحری سنگم ہے۔
یہ سرنگ مصر کے شہید جنرل،انجینئر احمد حمدی کے نام سے موسوم ہے۔ مصر کی دفاعی اور تجارتی حکمت عملی میں بھی اس نہر کو بڑی اہمیت حاصل ہے١٩٥٦ کی جنگ میں صحرائے سینا اور شرم الشیخ کے پورے علاقے پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا لیکن ١٩٧٣ میں یہ علاقہ مصر نے واپس لے لیا اس سرنگ کی تعمیر نے اس علاقے میں نقل و حمل اور سیاحت کو بڑا فروغ دیا۔ اس سرنگ سے گزرنے کے بعد ایک گھنٹے کی مسافت پر بحیرئہ احمر کے کنارے وہ تاریخی مقام آتا ہے جہاںسے، روایات کے مطابق، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں نے سمندر پار کیا۔ آپ کے تعاقب میں آنے والے فرعون اور اس کی فوجیں بھی یہاں پر غرق ہوئیںیہ جگہ تمام الہامی مذاہب کے پیروکار سیاحوں کے لئے بڑی کشش رکھتی ہے بحیرئہ احمر کے کنارے سے اس مقام پر ایک سایہ دار تاریخی درخت بھی ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سمندر پار کرنے کے بعد کافی عرصے تک یہاں قیام کیا۔اس علاقے کو اب آبار عیونِ موسیٰ کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں ان بارہ چشموں کے آثار بھی موجود ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کی ضرب سے نکلے۔ یہودیوں کے ١٢ قبائل بھی انھیں چشموں کے نام سے منسوب ہیں۔ صحرائے سینا کا سفر دنیا کے کسی بھی سیاح یا محقق کے لئے بڑا چشم کشا اور تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔
مضمون نگار سینیئر صحافی اور کالم نویس ہیں
[email protected]
تبصرے