دشمن کے خلاف ایک آپریشن میں ''مسنگ بلیوڈ کِلڈ'' قرار دیئے جانے والے سپاہی عدالت حسین کی کہانی
عدالت حسین، لیفٹیننٹ جنرل(ر) محمد افضل کے والد گرامی تھے
بہت سے گمنام ہیروز کی داستانیں ماضی کے جھروکوں میں پڑی ہیں۔ان میں سے ایک داستان عدالت حسین کی بھی ہے۔زندگی کی عدالت لگی تو عدالت حسین کا ایک ہی خواب تھا کہ وہ فوج میں جائے کیونکہ عدالت حسین نے1935میں جہلم کے علاقے حاجی آئمہ میں جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ ایکفوجی پس منظر رکھنے والا گھرانہ تھا۔ ان کے والد چوہدری محمد خان خود ایک سپاہی تھے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے موقع پر مختلف محاذوں پر جنگ لڑی۔چوہدری محمد حسین برطانوی فوج سے بطور رسالدار میجر ریٹائرڈ ہوئے تھے ۔
عدالت حسین کواگرچہ اپنے والد کے ساتھ بہت زیادہ عرصہ گزرا نے کا موقع نہیں ملا تھا مگربچپن سے ہی وہ اپنے والد سے جنگ عظیم دوم کے قصے سنا کرتے تھے۔ چوہدری محمد خان نے چونکہ برطانوی فوج میں ایک اچھا خاصا وقت گزارا تھا اس لیے وہ ان کے ڈسپلن اور کمانڈ کے معترف تھے۔ باپ سے جنگ کے قصے سن کروہ بہت پرجوش ہو جاتے تھے اور یہی سوچ عدالت حسین کو فوج میں لے آئی۔
عدالت حسین نے ابتدائی تعلیم آزاد کشمیر ضلع میر پور کے علاقے افضل پور سے حاصل کی جہاں وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہتے تھے، عدالت حسین کو اپنے والد کی نسبت والدہ کے ساتھ رہنے کا زیادہ عرصہ میسر آیا۔ عدالت حسین نے میٹرک کا امتحان پاس کر کے فوری فوج میں بھرتی کے لیے درخواست دی تو تب تک وہ ایک کڑیل جوان بن چکا تھا۔ان کو جہلم میں پنجاب رجمنٹ میں1955 میں بھرتی کیا گیا۔
واقفان حال بتاتے ہیں کہ عدالت حسین ایک رعب دار شخصیت کے مالک تھے ۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو سکتی ہے لیکن عدالت حسین اپنی بات سے ہل جائے ایسا ممکن نہیںیعنی زندگی میں جو ٹھان لی وہ کر گزرے۔ عدالت حسین ذہنی اور جسمانی طور پر ایک مضبوط دماغ سپاہی تھے۔ ان کی جسمانی مضبوطی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ گاؤں میں ڈاکوؤں نے دھاوا بول دیا۔ لوٹ مار سے گائوں کا صفایا کر کے جب ڈاکو واپس جا رہے تھے توکسی نے عدالت حسین کو خبر کر دی۔ پھر کیا تھا۔ ڈاکو آگے آگے اور عدالت حسین ان کے پیچھے پیچھے تھے۔16کلومیٹر تک بہادر نوجوان نے بھاگتے ہوئے ڈاکوئوں کا پیچھا کیا۔ ڈاکوئوں نے کئی بار عدالت حسین کو چکما دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ آخر کارڈاکوئوں نے تنگ آکر اپنی جان بچانے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ مگر سامنے عدالت حسین تھا۔ وہ بھی جان کی پرواہ کیے بغیر دریا میں کود پڑا اور لوٹا ہوا تمام سامان لے کر ہی گائوں واپس آیا۔جس پر اس کی بہادری کے قصے آس پاس کے گائوں میں بھی زبان زدعام ہوگئے۔
عدالت حسین کی شادی1958میں اپنی کزن سے ہوئی تھی، ان کی بیوی عزیزالنسا بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر کو اگر چیراٹ سے اٹک کسی کو ملنے جانا ہوتا تو بنا رُکے دوڑ لگا کر پہنچ جاتے تھے، یہ فاصلہ19کلومیٹر سے زیادہ بنتا ہے۔
برسوں تک فوج میں جانے کا خواب دیکھنے والے عدالت حسین کا جب خواب پورا ہوا تو اس نے ٹریننگ کے دوران دن رات ایک کر دی۔یہی وجہ تھی کہ پنجاب رجمنٹ یونٹ میں 3سال ہی گزرے تھے کہ وہ افسران کی نظروں میں آ گئے۔ان کی جسامت اور محنت کو دیکھ کر انہیں ایس ایس جی گروپ میں شامل کر لیا گیا، عدالت حسین چیراٹ میں سپیشل سروسز گروپ میں شامل ہوئے اورکمانڈو بٹالین کا حصہ ہے۔ ٹریننگ کے بعد وہ ان 68لوگوں میں شامل تھے جو ٹرین دی ٹرینر گروپ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے تھے، اس گروپ کو امریکی کمانڈوز نے تربیت دی تھی۔
1965میں عدالت حسین کوفوج میں بھرتی ہوئے لگ بھگ10سال ہو چکے تھے تو ان کی عمرمحض 30سے32سال کے درمیان تھی۔پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑی نہیں تھی لیکن خبریں پہلے ہی آنا شروع ہو گئیں کہ دشمن کسی بھی وقت جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے۔حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فوج کوہر دم الرٹ رہنے کا حکم دیا گیا۔
فوجی جوان عدالت حسین اگست1965میں آخری مرتبہ چھٹی پر اپنے گائوں آئے۔ وہ پہلے بھی کئی بار چھٹی پر آئے لیکن اس مرتبہ چھٹی کے دوران وہ ہر کسی سے گرمجوشی سے ملتے رہے، وہ عزیز رشتہ داروں کے گھر جاتے اور انہیں فخر سے بتاتے کہ ایسے مشن پر جا رہا ہوں جہاں سے شاید واپس نہ آسکوں۔عدالت حسین ملتے وقت جب سب کودعا کے لیے کہتے توان کی آنکھیں شہادت کی لگن سے چمک اٹھتیںکیونکہ وہ جانتے تھے کہ جس سفر پر وہ رواں دواں ہیں اس کی منزل اور انجام کیا ہے۔پھر وہ دن آگیا جس کا انہیں پچھلے کئی روز سے انتظار تھا یعنی چھٹی ختم ہوتے ہی عدالت حسین اپنے مشن پر روانہ ہو گئے۔
6ستمبر کوبھارت نے سفاک دشمن کی طرح رات کے اندھیرے میں یہ سوچ کر حملہ کر دیا کہ صبح ہونے تک پاکستان کے کافی رقبے پر بھارتی ترنگا لہرا دے گا مگر اسے کیا پتا تھا کہ پاکستان پہلے ہی اپنے دشمن کی سازشوں سے آگاہ ہے۔عدالت حسین جیسے نوجوان فوجیوں کی وجہ سے بھارت کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
بھارتی جارحیت پر بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا تو پاک فوج کی طرف سے دشمن فوج سرحدوں سے پہلے ہی ان کے اپنے علاقے میں روکنے کے احکامات دیے گئے۔ 7ستمبر کو پیرا ٹروپرز کو بھارت کے علاقوں ہلواڑہ اور آدم پور پٹھان کوٹ مشن پر روانہ کیا گیاجن میں عدالت حسین بھی شامل تھا۔
بہرطور جن جوانوں کو ابتدائی طور پر بھارتی علاقے میں اُتارا گیا ان نوجوانوں میں عدالت حسین کا نام بھی تھا۔عدالت حسین بھی باقی فوجی جوانوں کی مانند پورے جذبے اور جوش کے ساتھ مشن کی تکمیل کے لیے سرگرداں تھے لیکن قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا اور بدقسمتی سے لینڈنگ کے دوران عدالت حسین کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ ان چار کمانڈوز نے بھارتی علاقے میں اتر کر اسلحہ ختم ہونے تک ڈٹ کرمقابلہ کیا ،تین فوجی لڑتے ہوئے شہیدہوگئے جبکہ چوتھے زخمی سپاہی کو بھارت کی ائیرفورس نے جنگی قیدی بنا لیا۔اس چوتھے سپاہی کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ عدالت حسین ہی تھا۔ مگر بھارت نے کبھی باضابطہ اس بارے میں پاکستان کے ساتھ معلومات شیئر نہیں کیں۔
جنگ اوراس مشن کے بہت عرصہ بعد بھی عدالت حسین کی کوئی خیر خبر نہیں آئی تو انہیں ۔۔''مسنگ بیلیوڈ کلڈ ڈکلئیر''کر دیا گیا ۔
گمنام راہوں کے سپاہی عدالت حسین کی اولاد میں دو بیٹے اورایک بیٹی شامل ہے۔ بڑے بیٹے کا نام محمد صفدر تھا جو55 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ ایک بیٹی ہے جو اپنے شوہر اور بچوں سمیت برمنگم (برطانیہ) میں مقیم ہے جبکہ دوسرے بیٹے لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد افضل ہیں جوسابق چیئرمین این ڈی ایم اے اور انجینئرانچیف بھی رہے ہیں۔
1965 کی جنگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جو جذ بہ اس قوم میں اس جنگ کے دوران موجود تھا وہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ یہ درست ہے کہ جنگوں میں صرف ملک ہی نہیں بلکہ وہاں پر بسنے والی قومیں بھی مل کر لڑتی ہیں، پاک بھارت 1965کی جنگ بھی کچھ اسی قسم کا معرکہ تھا۔
عام شہری جس جنگ میں اس جذبہ کے ساتھ شریک ہوں وہاں ان کے جذبے کا کیا بیان ہو گا جو اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت اپنی جان کی بازی لگا کر کرنا جانتے ہوں۔ عدالت حسین اسی فوج کا حصہ تھے جو دشمن کی صفوں کے اندر گھس کر ملک و قوم کی بقا کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا گئے۔
عدالت حسین ہمارے ان جانباز سپاہیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے گمنامی کی چادر تو اوڑھ لی لیکن ملک کی سلامتی پر آنچ نہیں آنے دی۔ ان کی گمنامی اپنی جگہ لیکن ان کی قربانی کو قوم اور ریاست خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔
مضمون نگارایک اخبار کے ساتھ بطورایسوسی ایٹ ایڈیٹرمنسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے