کرہ ارض پر پانی زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے جس کے بغیر انسانی بقاء کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں صاف پانی کے حصول کے لیے جنگیں بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صاف اور تازہ پانی کے ذخائر میں حیران کن کمی واقع ہو رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھرمیں اس وقت 2 ارب سے زائد افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ ان میں پاکستان کے لوگ بھی شامل ہیں۔اس طرح وطن عزیز میں صاف پانی کی فراہمی سنگین صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔پاکستان آبی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پانی کے شدید مسئلے سے دوچار ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔
پاکستان میں پانی کی کمی کی بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی،روائتی زرعی نظام اور ڈیموں کی کمی ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق پانی کی کمی کی بڑی وجہ عوام میں آگہی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے گھریلو ضرورت سے لے کر زرعی اور صنعتی پیمانے پر وافر مقدار میں پانی ضائع ہو رہا ہے۔
آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ بھی پانی کی کمی کا سبب بن رہا ہے۔ 2023ء کی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 2.55 فیصد سالانہ اضافے کے سے بڑھ کر 241.49 ملین ہو گئی ہے۔آبادی بڑھنے کی وجہ سے پانی کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جس سے پانی کی قلت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں صاف پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشئیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اس طرح سطح سمندر بلند اور پینے کے صاف پانی کی قلت پید اہو رہی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی بھی پانی کی کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ماحولیاتی آلودگی سے اثر انداز ہونے والے ممالک میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان میں مون سون کی بارشوں میں واضح کمی ہوئی ہے۔ حالیہ بارشیں پانی کی کمی کو پورا نہیں کر پارہیں جس کی وجہ سے کسان زیر زمین پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں ۔اس طرح زیر زمین موجود صاف پانی کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں۔
پاکستان کو پانی کے بدترین بحران کا سامنا اس لیے بھی ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان دریائوں پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے جو پاکستان کو پانی فراہم کرتے ہیں۔پانی کی منصفانہ تقسیم سے پاکستان میں پانی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کو پانی کے بحران سے بچانے کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے مختلف ادوار میں کئی اقدامات کیے جاتے رہے ہیں۔ ان میں دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر قابل ذکر اقدامات ہیں۔جولائی 2018ء میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیامربھاشا اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم دیا گیا۔دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے گلگت بلتستان کے علاقے چلاس سے تقریباً 40 کلومیٹر دور 'تھور' گا ئوں کا انتخاب کیا گیا۔دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والا یہ ڈیم خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی سرحد پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے میں 4 ہزار 5سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ یہاں 64 لاکھ (6.4 ملین) ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ مہمند ڈیم ضلع مہمند میں دریائے سوات پر تعمیر کیا جائے گا اور اس میں تقریباً 12 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی۔اس ڈیم سے 800 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔
اس وقت پاکستان میں پندرہ میٹر (49 فٹ) سے بلند ڈیموں یا آبی ذخائر کی کل تعداد 153 ہے۔ حکومت کی جانب سے پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد میں اضافہ کرنے کے لیے نئے ڈیموںکی تعمیر پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ۔ یہ سلسلہ 1965ء میں شروع ہوا تھا ۔ ورلڈ بنک کی معاونت سے دریائے جہلم پر منگلا ڈیم (1965) اور دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم (1968-76)میں تعمیر کیے گئے۔ تربیلا ڈیم رقبے جبکہ میرانی ڈیم سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کی استعداد کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے ۔
گزشتہ سات دہائیو ں کے دوران ملک میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کئی ڈیم تعمیر کیے گئے۔ سندھ میں دراوت ڈیم (2014)، چوٹیاری ڈیم (2002)، بلوچستان میں ولی تنگی ڈیم (1961)، اکرہ کار ڈیم (1995)، حب ڈیم (1986)، منگی ڈیم (1982)، میرانی ڈیم (2006)، نولونگ ڈیم (2015)، سبکزئی ڈیم (2007) تعمیر کئے گئے۔
اسی طرح خیبر پختونخوا میں وارسک ڈیم (1960) منگ ڈیم (1970)، خان پور ڈیم (1985)، ڈنڈی دم ڈیم (2011)، درگئی پل ڈیم (2010)، گومل زم ڈیم (2012)، الائی خوار ڈیم (2016)، دوبر خوار ڈیم (2013)، چنغوذ ڈیم (2007) اور نریاب ڈیم (2006) تعمیر ہوئے۔
پنجاب میں راول ڈیم (1962)، سملی ڈیم (1983)، جاوا ڈیم (1994) اور غازی بروتھا ڈیم (2003) میں تعمیر کیے گئے۔
مئی 2018 میں نیشنل واٹر پالیسی منظور ہوئی جس کے تحت صوبائی سطح پر پانی کی تقسیم بہتر بنانے، آبی ذخائر میں اضافہ کرنے اور نئے ڈیموں کی تعمیر پر زور دیا گیا۔نیشنل واٹر پالیسی بنانے کے اہم مقاصد پانی کی بچت اور پانی ذخیرہ اور تقسیم کرنے کے اہداف مقرر کرنا تھے۔
حکومت ملک سے پانی کے بحران کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے تاہم وطن عزیز کو درپیش اس سنگین قومی مسئلے کے تدارک کے لیے نہایت ضروری ہے کہ پوری قوم کے اندر شعور و آگہی پھیلائی جائے۔ پانی قدرت کی طرف سے انسانوں کے لیے ایک بیش قیمت عطیہ ہے۔ہمیں صاف پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے ضائع کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔نئے ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پانی کی ری سا ئیکلنگ بھی ایک اچھا آئیڈیا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک جن میں چین بھی شامل ہے، آلودہ پانی کو ری سائیکل کر کے اسے پینے کے قابل بنا نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ہم چین سے استفادہ کریں تو سمندری پانی کو ٹریٹمنٹ کے بعد قابل استعمال بنا سکتے ہیں۔ اگر صاف پانی کی منصفانہ تقسیم اور آبی ذخائر کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے تو آنے والے دنوںمیں اس سنگین مسئلے پر قابو پاکر پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنا یا جا سکتا ہے۔
مضمون نگار قومی و عالمی اُمورپر لکھتے ہیں
[email protected]
تبصرے