افغان امور کے ماہر ،معروف صحافی اور تجزیہ نگارعقیل یوسف زئی کی تحریر
حکومت پاکستان نے اکتوبر 2023 کے دوران اعلان کیا کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین سمیت تمام غیر قانونی طور پر رہائش پذیر تارکین وطن کو ان کے ممالک میں واپس بھیج دیا جائے گا۔اس مقصد کے لیے تمام تارکین وطن کے لیے پالیسی بنائی گئی کہ وہ یکم نومبر سے قبل یعنی ایک مہینے کے اندر رضا کارانہ طور پر پاکستان سے نکل جائیں۔اس فیصلے کو پاکستان کی مسلح افواج کی اعلیٰ قیادت نے ایک رسمی اجلاس کے دوران نہ صرف یہ کہ سراہا بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ فورسز اس مقصد کے لیے سول اداروں کی بھرپور معاونت بھی کریں گی۔متعلقہ اداروں نے تمام غیر ملکی باشندوں کی سکروٹنی شروع کی اور ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ پاکستان افغانستان کے مہاجرین کو دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں پناہ دینے والا واحد ملک ہے جہاں گزشتہ 40 برسوں سے 25 سے 40 لاکھ تک مہاجرین قیام کرتے رہے ہیں۔یہ بھی معلوم ہوا کہ ان میںسے تقریباً 68 فی صد بوجوہ غیر قانونی طور پر نہ صرف یہ کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہیں بلکہ وہ یہاں برسوں سے کاروبار بھی کررہے ہیں۔یہ بھی بتایا گیا کہ لاتعداد مہاجرین دہشت گردی کے واقعات اور حملوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔اس ضمن میں سکیورٹی اداروں نے جو رپورٹس جاری کیں ان کے مطابق سال 2022 اور 2023 کے دوران پاکستان میں ہونے والے تقریباً 35 دہشت گرد حملوں میں افغان باشندے ملوث رہے ہیں۔ان میں 13 خودکش حملے بھی شامل بتائے گئے۔یہ بھی پتہ چلا کہ تقریباً 22 فی صد جرائم کے واقعات سمیت منی لانڈرنگ اورسمگلنگ میں بھی افغان باشندے ملوث ہیں۔
ایک ڈیٹا بیس رپورٹ کے مطابق سال 2023 کے دوران پاکستان میں 37 لاکھ افغان مہاجرین قیام پذیر تھے۔ان کی سب سے زیادہ تعداد صوبہ خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر بتائی گئی جو کہ تقریباً کل مہاجرین کی 71 فی صد تھی۔اگر چہ ان میں سے اکثر کے پاس حکومت اور یو این ایچ سی آر کی طرف سے جاری کردہ کارڈز یا دستاویزات موجود تھیں تاہم اس کے باوجود بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی موجود تھی جو کہ برسوں سے بغیر دستاویزات کے یہاں رہائش پذیر تھے۔تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر بلوچستان، تیسرے نمبر پر پنجاب اور پھر سندھ رہے جہاں مہاجرین لمبے عرصے سے رہائش پذیر بتائے گئے۔مہاجرین کی واپسی کے لیے پاکستان نے چاروں صوبوں میں رجسٹریشن اور پراسیس کے لیے تقریباً 11 مراکز قائم کیے جہاں ان کی نہ صرف یہ کہ رہنمائی کی جاتی تھی بلکہ ان کو ضروری اشیاء اور ادویات کے علاوہ مناسب رقم بھی دی جاتی رہی۔اس تمام پراسیس میں عالمی اداروں نے عملاً پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی اور نہ صرف لاتعلق رہے بلکہ انہوں نے الٹا پاکستان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
دوسری جانب افغانستان کی عبوری طالبان حکومت سمیت پاکستان کی بعض قوم پرست جماعتوں نے بھی حکومت پاکستان کے اس قانونی اقدام کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں آنے والا پراسیس ہے۔بیشتر ممالک کا رویہ یہ رہا کہ یہ ان افغان باشندوں کو بھی ویزے دینے سے گریز کرتے رہے جو کہ 20 سالہ امریکی قیام کے دوران ان کے ساتھ افغانستان میں کام کرتے رہے اور ایک طریقہ کار کے مطابق طالبان رجیم کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ان کو اپنے ہاں پناہ دینی تھی۔سال2021- 2022 کے دوران پاکستان نے اُن افغان باشندوں کو ویزے جاری کیے جو کہ پاکستان کے راستے دیگر ممالک میں جانے والے تھے۔ تاہم امریکہ اور دیگر ان کو ویزے جاری کرنے سے گریز کرتے رہے اور یوں تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد پاکستان میں ویزا پراسیس کا انتظار کرتے رہے۔ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان رجیم کے اقتدار لینے کے بعد تقریباً 6 لاکھ مزید مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے جن میں اکثریت غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کی تھی۔یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا اور شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ ریاست پاکستان کو مزید بوجھ اور مسائل سے بچنے کے لیے پہلے سے موجود غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانیوں کو نکالنے کا فیصلہ بھی کرنا پڑا۔
اس فیصلے کی ایک اور بڑی وجہ غالبا ًیہ رہی کہ افغانستان کی عبوری طالبان حکومت دوحہ معاہدے کے تحت پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کرنے کے اپنے وعدے میں نہ صرف یہ کہ ناکام رہی تھی بلکہ ان کا کنٹرول لینے کے بعد پاکستان پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ہونے والے حملوں میں پچھلے برسوں کے مقابلے میں تقریباً 50 سے 60 فی صد تک اضافہ بھی دیکھا گیا۔افغان حکومت جہاں ایک طرف پاکستان کے ساتھ اس سنگین مسئلے پر تعاون کرنے سے انکار کرتی رہی، وہاںبسا اوقات کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سرکاری سرپرستی بھی کرتی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف 2023 کے دوران پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تقریباً 600 حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں سکیورٹی فورسز سمیت تقریباً 1000 افراد شہید اور 2300 زخمی ہوگئے۔اس برس تقریباً 29 خودکش حملے بھی کیے گئے جن میں سے 13 حملوں میں افغان باشندے ملوث پائے گئے۔اس صورت حال کے پیش نظر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں غیر معمولی طور پر کشیدگی پیدا ہوئی اور حالات اس قدر خراب ہوگئے کہ 6 ستمبر 2023 کو تحریک طالبان پاکستان کے ایک گروپ نے جہاں افغانستان کی مبینہ سرپرستی میں صوبہ نورستان کے راستے ضلع چترال پر تین مقامات سے حملے کیے، وہیں اسی روز افغانستان کی سرحدی فورسز نے طورخم پر بھی حملہ کیا جس کے نتیجے میں سرحد 5 روز تک بند رکھی گئی۔حملوں کا یہ سلسلہ بلوچستان کے چمن بارڈر پر کچھ زیادہ جاری رہا جہاں سال 2023 کے دوران افغان فورسز اور کالعدم گروپوں نے پاکستان پر تقریباً 11 حملے کیے مگر پاکستان تحمل سے کام لیتا رہا۔افغان فورسز اور اس کی زیر سرپرست گروپوں نے، ایک رپورٹ کے مطابق 2022- 23 کے دوران خیبر پختونخوا کے 5 قبائلی اضلاع میں تقریباً 29 حملے کیے۔ وزیرستان کے 3 اضلاع ان حملوں کا بار بار نشانہ بنتیرہے۔
دوسری جانب سال 2023 کے دوران انکشاف ہوا کہ امریکہ نے 4 لاکھ کے قریب جو جدید اسلحہ اپنے انخلاء کے وقت افغانستان میں چھوڑ رکھا تھا اس میں سے تقریباً 25 فی صد کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کے ہاتھ لگا یا اور پاکستان پر ہونے والے اکثر حملوں میں یہ جدید اسلحہ استعمال کیا جاتا رہا۔اس تمام تر صورتحال نے تعلقات کو انتہائی خراب کردیا اور پاکستان سخت پالیسی بنانے پر مجبور ہوا جس میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانیوں کی بے دخلی کا فیصلہ بھی شامل رہا تاہم اس کے باوجود پاکستان نے دستاویزات رکھنے والے مہاجرین پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالا بلکہ اس آپریشن کے دوران بھی پاکستان نے تقریباً 7000 افغان باشندوں کو ویزے جاری کیے، دوسری جانب مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیڈ لائن میں توسیع بھی کرتا رہا۔ ایک اندازے کے مطابق 5 جنوری 2024 تک پاکستان سے تقریباً 5 لاکھ سے زائد غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانیوں کو واپس بھیج دیا گیا۔کسی بھی موقع پر نہ تو زبردستی سے کام لیا گیا اور نہ ہی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔اکثر مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس چلے گئے اور پاکستان نے ان کو عالمی اداروں اور افغانستان کی حکومت کے برعکس ایک پرامن اور منظم طریقہ کار کے مطابق نہ صرف سہولیات فراہم کیں بلکہ اس تمام پراسیس کے دوران یکطرفہ پروپیگنڈے کے باوجود تحمل کا رویہ بھی اپنایا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے اس فیصلے کو ایک کٹھن فیصلہ قرار دیا گیا ہو، تاہم پاکستان کو اپنے مسائل اور چیلنجز کے تناظر میں یہ اقدام اٹھانا پڑا اور اس سلسلے کو بتدریج آگے بڑھانے کی مستقل پالیسی بھی تشکیل دی گئی۔ اس تمام معاملے کا ایک مثبت پہلو یہ بھی رہا کہ جو مہاجرین واپس جاتے گئے وہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بر عکس پاکستان کی برسوں کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتے پائے گئے۔اس سے بھی اچھی بات یہ رہی کہ پاکستان نے نہ صرف متعدد خدشات اور چیلنجز کے باوجود قانونی طور پر پاکستان آنے والے افغانیوں کے لیے ویزا پراسیس کو مزید بہتر اور تیز کیا بلکہ 2023 کے آخر میں پاکستان نے افغانستان کے سیکڑوں سٹوڈنٹس کے لیے ایجوکیشن سکالر شپ کے ایک اور بڑے پیکج کا بھی اعلان کیا جس کی ابتدائی سلیکشن کے دوران ہزاروں افغان سٹوڈنس نے حصہ لیا۔
تبصرے