نوجوان کسی بھی قوم کا حقیقی اثاثہ،طاقت اور سہارا ہوتے ہیں۔قوم کی فلاح و بقا اس کے نوجوانوں کی جرأت ،غیرت، قوت اور بے باکی پر منحصر ہوتی ہے۔اگر قوم کے جوان جسور و غیور ہوں اور ان کی خودی مضبوط ہو تو پھر کوئی ان کی قوم کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ قوم کا مستقبل بھی دراصل اس کے نوجوانوں ہی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔اگر نوجوان جرأتِ کردار اور قوتِ گفتار رکھتے ہوں، نگاہِ بلند، سخنِ دل نواز اور جانِ پر سوز کے حامل ہوں اور یقینِ محکم اور عملِ پیہم کی دولت سے مالا مال ہوں تو پھر تگ و تازِ زندگانی میں ان کی قوم کے آگے سے آگے بڑھنے اور بلند سے بلند تر مقام حاصل کرنے کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی۔
مصور پاکستان،حکیم الامت علامہ محمد اقبال اور قوم کے رہبر رہنما اور میرِ کاروانِ آزادی قائد اعظم محمد علی جناح،جو بیسویں صدی میں برصغیر کی مسلم قوم کے لیے عظیم الشان عطیہ خداوندی اور نعمت غیر مترقبہ تھے،اپنی خداداد فہم و فراست کی بنا قوم کے لیے نوجوانوں کی اہمیت اور ناگزیریت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ لہٰذا ہماری تحریک آزادی کے عروج کے دنوں میں ان دونوں عظیم رہنمائوں نے اپنی تمام تر امیدیں نوجوانوں ہی سے وابستہ کر لی تھیں اور نوجوان ہی ان کا اعتماد اور بھروسہ بن گئے تھے۔
علامہ اقبال بار بار نوجوانوں کو ان کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے میدان عمل میں اترنے اور قوم کا سہارا بننے پر ابھارتے تھے۔
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری
قائد اعظم کو جب بھی نوجوانوں سے مخاطب ہونے کا موقع میسر آیا، انہوں نے اپنے افکار عالیہ سے نوجوان ذہنوں کی فکری آبیاری کرنے اور ان کے قلب و ذہن میں قوم کی تعمیر و ترقی کا جوش و جذبہ بھرنے کی بھرپور کوشش کی۔ان کا مشہور قول "کام کام اور بس کام" نوجوانوں سے ان کے ایک خطاب ہی سے اقتباس ہے۔اس خطاب میں انہوں نے نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ :
''میں آپ کو مصروف ِ عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں، کام، کام اور بس کام، سکون کی خاطر، صبر و برداشت اور انکساری کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیں''
وہ اپنے ہر خطاب میں نوجوانوں کو کوئی نہ کوئی نصیحت یا پیغام ضرور دیتے تھے۔
''میرے نوجوان دوستو! میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار بنیں گے تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ یاد رکھیے کہ اب ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوچکی ہے ۔ یہ ہماری اپنی حکومت ہے، ہم ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے مالک ہیں۔ لہٰذا ہمیں آزاد اقوام کے افراد کی طرح اپنے معاملات کا انتظام کرنا چاہیے۔اب ہم کسی بیرونی طاقت کے غلام نہیں ہیں، ہم نے غلامی کی بیڑیاں کاٹ ڈالی ہیں''۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ،'' میرے نوجوان دوستو! اب میں آپ ہی کو پاکستان کا حقیقی معمار سمجھتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی باری آنے پر کیا کچھ کر کے دکھاتے ہیں۔ آپ اس طرح رہیں کہ کوئی آپ کو گمراہ نہ کرسکے۔ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور استحکام پیدا کریں اور ایک مثال قائم کریں کہ نوجوان کیا کچھ کرسکتے ہیں۔''
قائد اعظم نے تحریک پاکستان کے دوران نوجوانوں کو ہمیشہ بلند کرداری، حرکت و عمل، مضبوط قوت ارادی، عظمتِ کردار اور قوم کے لیے جوش و جذبے سے کام کرنے کا سبق دیا۔انہوں نے 30 اکتوبر 1937 کو لاہور میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
''تعمیرِ پاکستان کی راہ میں مصائب اور مشکلات کو دیکھ کر نہ گھبرائیں۔ نومولود اور تازہ وارد اقوام کی تاریخ کے متعدد ابواب ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں کہ ایسی قوموں نے محض قوتِ ارادی، توانائی، عمل اور عظمت ِکردار سے کام لے کر خود کو بلند کیا۔ آپ خود بھی فولادی قوت ارادی کے مالک اور عزم وارادے کی دولت سے مالا مال ہیں۔ مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ تاریخ میں وہ مقام حاصل نہ کریں جو آپ کے آباؤ اجداد نے حاصل کیا تھا۔ آپ میں مجاہدوں جیسا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔''
لاہور کے پرجوش نوجوانوں نے علامہ اقبال کے مشورے پر جس مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی تھی وہ آگے چل کر تحریک پاکستان میں قائد اعظم کا دست و بازو بن گئی اور آزادی کی منزل پا لینے کے لیے قائد اعظم کے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ قائد اعظم کو مسلم نوجوانوں سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں اور نوجوانوں نے بھی قائد اعظم کی امیدوں کو ٹوٹنے نہیں دیا۔
قیام پاکستان کی پوری تحریک کے دوران قائداعظم نے بذات خود نوجوانوں کی لازوال ہمت،جوان مردی اور استقامت کا مشاہدہ کیا تھا اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ نوجوان اگر ایک بار تہیہ کرلیں تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں، ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے انہوں نے دل و جان سے نوجوانوں کی رہنمائی کی اور انہیں منضبط کرتے ہوئے مسلم لیگ کی ناقابل شکست طاقت بنا دیا ۔
1937 میں مسلم لیگ کے کلکتہ کے اجلاس میں قائداعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
''نوجوانو! آپ میں سے اکثر ترقی کی منازل طے کرکے اقبال اور جناح بنیں گے ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھوں میں مضبوط رہے گا۔''
قائداعظم نے ڈھاکہ میں نوجوان طلبا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
''میرے نوجوان دوستو! میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار بنیں گے تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ یاد رکھیے کہ اب ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوچکی ہے ۔ یہ ہماری اپنی حکومت ہے، ہم ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے مالک ہیں۔ لہٰذا ہمیں آزاد اقوام کے افراد کی طرح اپنے معاملات کا انتظام کرنا چاہیے۔اب ہم کسی بیرونی طاقت کے غلام نہیں ہیں، ہم نے غلامی کی بیڑیاں کاٹ ڈالی ہیں''۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ،'' میرے نوجوان دوستو! اب میں آپ ہی کو پاکستان کا حقیقی معمار سمجھتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی باری آنے پر کیا کچھ کر کے دکھاتے ہیں۔ آپ اس طرح رہیں کہ کوئی آپ کو گمراہ نہ کرسکے۔ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور استحکام پیدا کریں اور ایک مثال قائم کریں کہ نوجوان کیا کچھ کرسکتے ہیں۔''
قائد اعظم کی اس ولولہ انگیز رہنمائی نے مسلم نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا ،ان کے دل ہمت،حوصلے اور جوش و جذبے سے بھر دیئے اور وہ غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزادی کی منزل پا لینے کے لیے بیتاب ہو گئے۔ قائد اعظم بھی علامہ اقبال کی طرح ابن الوقت سیاست دانوں اور عاقبت نا اندیش لوگوں کی تقسیم وطن کی مخالفت کا راستہ روکنے کی ذمہ داری نوجوانوں کے کندھوں پر ڈال چکے تھے۔تاریخ گواہ ہے کہ نوجوانوں نے اس بار امانت کا حق ادا کر دیا اور اپنے عظیم قائد کی قیادت میں تن من دھن کی بازی لگاتے ہوئے پہلے 1940 میں قرارداد پاکستان منظور کروائی اور بے مثال اور شاندار قربانیوں کے بعد،بالآخر 14 اگست 1947 کو اپنا آزاد وطن پیارا پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔
قیامِ پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم مسلسل اپنے نوجوانوں کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے رہے۔قائد اعظم جانتے تھے کہ نوجوان ہی اس وطن کا مستقبل ہیںاور وہی اس کی بنیادوں کو مضبوط کریں گے۔لہٰذا وہ ہر موقع پر نوجوانوں کو اپنے مدبرانہ خیالات سے نوازتے رہے اور انہیں ملک کو سنوارنے کا سبق دیتے رہے۔
قائد اعظم کو اپنے وطن کے نوجوانوں سے یہی تو قع تھی کہ وہ اپنی تہذیب کو اپنائیں مغربی افکار و نظریات کی یلغار سے متاثر نہ ہوں بلکہ انہیں اپنی تہذیب میں ڈھال لیں۔مارچ 1948 میں ڈھاکہ میں قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:'' میرے نوجوانو! میں تمہاری طرف توقع سے دیکھتا ہوں کہ تم پاکستان کے حقیقی پاسبان اور معمار ہو۔ دوسروں کے بہکاوے میں مت آؤ، اپنے اندر مکمل اتحاد اور جمعیت پیدا کرو اور اس کی مثال پیش کر دو کہ جوان کیا کر سکتے ہیں۔''
قائد اعظم نے ایک موقع پر خطاب کرتے ہوئے طلبا سے فرمایا :''آپ کو یاد ہوگا، میں نے اکثر اسی امر پر زور دیا ہے کہ دشمن آپ سے آئے دن ہنگاموں میں شرکت کی توقع رکھتا ہے۔ آپ کا اولین فرض علم کا حصول ہے جو آپ کی ذات، والدین اور پوری قوم کی جانب سے آپ پر عائد ہوتا ہے۔ آپ جب تک طالب علم رہیں اپنی توجہ صرف تعلیم پر مرکوز رکھیں۔ اگر آپ نے اپنا طالب علمی کا قیمتی وقت غیر تعلیمی سرگرمیوں میں ضائع کردیا تو یہ کھویا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔''
قائد اعظم اپنے نوجوانوں سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کے سیاسی مسائل میں بھی ضرور دلچسپی لیں لیکن اس سے مراد یہ نہیں کہ اس کے لیے وہ اپنی تعلیم چھوڑدیں یا سیاست کو مقدم اور تعلیم کو مؤخر کر دیں اور یوں اپنا قیمتی وقت ضائع کریں۔ آزاد وطن کے حصول کے بعد قائد اعظم اس حق میں تھے کہ وطن کے نوجوان تعلیم کے حصول پر اپنی بھرپور توجہ مرکوز کریں۔جدید تعلیم حاصل کریں اور نئے نئے علوم و فنون سیکھیں اور ملکی اور قومی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
اگر ہم نوجوانوں سے قائد اعظم کے خطابات کا بنظرِ غائر مطالعہ کریں تو نوجوانوں کے حوالے سے مصوّرِ پاکستان اور بانیِ پاکستان کے خیالات میں حیرت انگیز مماثلت نظر آتی ہے اور قائد اعظم بھی علامہ اقبال کی زبان میں اپنے نوجوانوں سے بار بار یہی کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
لہٰذا اپریل 1948 کو پشاور میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: میرے نوجوان دوستو!آپ اپنی شخصیت کو محض سرکاری ملازم بننے کے خول میں محدود نہ کیجئے۔ اب نئے میدان، نئے راستے اور نئی منزلیں آپ کی منتظر ہیں۔ سائنس، تجارت، بنک، بیمہ، صنعت و حرفت اور نئی تعلیم کے شعبے آپ کی توجہ اور تجسس کے محتاج ہیں۔
تحریک پاکستان کے دوران جس طرح مسلم نوجوانوں نے قائد اعظم کی رہنمائی اور قیادت میں انتہائی جوش و جذبے سے مسلسل محنت، کوشش اور جدوجہد کو اپنا شعار بنایا اور اپنے زور بازو سے آزادی کی منزل پا لینے میں کامیاب ہوئے۔اسی طرح وہ آج بھی بانی ِپاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے افکار و خیالات سے رہنمائی لے کر اور اپنے اس عظیم قائد کے فرامین پر عمل پیرا ہو کر اپنی قوم کو زندہ و تابندہ قوم اور اپنے پیارے وطن کو عظیم سے عظیم تر بنا سکتے ہیں ۔
مضمون نگار ایک معروف ماہر تعلیم ہیں۔ اقبالیات اور پاکستانیات سے متعلق امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے