گلگت بلتستان کو ماضی میں شمالی علاقہ جات کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہے، اس میں دو رائے نہیں کہ جہاںیہ خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے وہیں پر اس خطے کی خوبصورتی ، منفرد لینڈ سکیپ اور جیو سٹریٹجک پوزیشن بہت اہمیت کی حامل ہے ،گلگت بلتستان میں معدنیات ، صاف پانی کے ذخائر ، جنگل و جنگلی حیات اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں مگر "سیاحت " اس خطے کی بہت بڑی اورمنفرد استعداد ہے۔ گلگت بلتستان میں سیاحت کے بے پناہ مواقع ہیں، گلگت بلتستان واحد خطہ ہے جہاں تین قسم کے سیاحتی مواقع موجود ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
گرمائی سیاحت
موسم گرما گلگت بلتستان کی سیاحت کے حوالے سے بہت اہم ہے کیونکہ گلگت بلتستان کی خوبصورتی اس موسم میں نکھر کر سامنے آتی ہے۔ لہلہاتے کھیت ، قالین نما میدان ، گرتے ہوئے آبشار اور موسم کا تمام حسن اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ ہر آنے والے کا قلبی راحتوں سے استقبال کرتا ہے ۔ درہ بابوسر سے شروع ہونے والے طلسماتی سیاحتی مراکز ، پریوں کی سرزمین دیامر ،داریل تانگیر ، فیری میڈوز ، ستیل، کھنبری، استور ، راما ،قمری ، منی مرگ ،غذر، پھنڈر ، یاسین ، ہنزہ ،التت ،بلتت فورٹ، خنجراب ،راکاپوشی ، نلتر ، عطا آباد جھیل ، خلتی جھیل ،شنگریلا ، شگر فورٹ ، سکردو فورٹ ،مسجد چقچن ، سرفرنگا، دیوسائی اور سیاچن کے دامن تک اپنے حسن کی کشش سے قدرت کی صناعی پیش کرتے ہیں۔ ان مقامات میں سکون و سکوت کی تمام تصویریں قلب کی دنیا کو اطمینان بخشنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں، ہر سال موسم گرمامیں لاکھوں سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں اورصنعتی شہروں میں موجود سال بھر کی اکتاہٹوں کو چند دنوں میں بھول جاتے ہیں ۔
سرمائی سیاحت
موسم سرمامیں گلگت بلتستان میں سیاحت کے بیش بہا مواقع ہیں جن سے استفادہ کر کے روزگار کے بیشمار مواقع پیدا کیے جاسکتے ہیں اور معاشی سرگرمیوں کو تیز کیا جاسکتا ہے جس سے مقامی و ملکی معیشت کی نشوونما میں بہتری ممکن ہے۔گلگت بلتستان کے تین عظیم پہاڑی سلسلے ہمالیہ ،قراقرم اور ہندوکش جگلوٹ کے مقام پر ایک جگہ آکر ملتے ہیں ۔ اس کے علاہ دنیا کی دوسری بڑی چوٹی " کے۔ٹو" اور تیسری بڑی چوٹی " نانگا پربت" بھی گلگت بلتستان میں واقع ہیں ، مذکورہ دو عظیم چوٹیوں کے علاوہ بھی درجنوں بلند چوٹیاں اور پہاڑی سلسلے قدرت نے گلگت بلتستان کے مقدر میں قائم کیے ہیں ۔ سرمائی موسم میں گلگت بلتستان کے پہاڑ برف کی چادر اوڑھ کر ایک نیا منظر و موسم پیش کرتے ہیں ۔ ان برف زاروں سے استفادہ کر کے دنیا کو " سکی " کی جانب متوجہ کیا جاسکتا ہے اور عالمی سطح پر " سکی " کے مقابلے منعقد کر کے سیاحوں کی کثیر تعداد کو یہاں لایا جاسکتا ہے۔ اس وقت نلتر اور استور رٹو کے مقام پر ہر سال محدود سطح پر "سکی" کے مقابلے منعقد ہوتے رہتے ہیں ۔
مذہبی سیاحت
گلگت بلتستان واحد خطہ ہے جہاں مذہبی سیاحت کے بھی بہت سے مواقع موجود ہیں۔ اس خطے کا ماضی مختلف ادوار میں اَن گنت مذاہب ، زبانوں ،قوموں اور ثقافتوں کا مرکز رہا ہے ۔300 عیسوی سے 1400 عیسوی تک شتیال ، چلاس، بلتستان اور تبت تک بدھ مت ثقافت و تہذیب کے مراکز رہے ہیں اور آج بھی سیکڑوں پتھروں پر قبل مسیح و بعد ازاں بدھ مت تہذیب کی واضح کندہ کاریاں موجود ہیں۔ بدھ مت کے بعد مسلمان ،ہندو ،سکھ اور انگریز ثقافتوں کے حوالے بھی ہر جگہ موجود ہیں ۔
داریل کے مقام پر بدھ مت یونیورسٹی کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں اور چلاس تھلپن کے مقام پر بدھ مت کے آثار نمایاں ہیں۔ اس کے علاہ گلگت برمس اور کھرو کے مقام پر بدھ مت کا سب سے بڑا حوالہ بھی موجود ہے ۔
بلتستان میں اسلام سے قبل چودھویں صدی تک بدھ مت کے پیروکار بستے تھے ۔ بلتستان میں درج ذیل مقامات اور حوالے مذہبی سیاحت کے لاتعداد مواقع رکھتے ہیں۔
1۔بونی ازم کے آثار
2.۔منٹھل راک
3.۔بدھ راک لمسہ شگر
4. ۔سکھ گردوارہ
5. ۔موئے مبارک
6. ۔چقچن مسجد
7.مقبرے
گلگت بلتستان کی سیاحتی استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف یہاں کے عوام کو خودکفیل بنایا جاسکتا ہے بلکہ ملکی معیشت پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ گلگت بلتستان کی سیاحت میں بہتری لانے کیلئے روڈ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ کمیونیکیشن اور دیرپا امن ناگزیر ہے ۔ خطے کا متنوع مسلکی و ثقافتی کلچر کو مواقعوں میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان میں مقیم آبادی کے مابین بھائی چارے اور رواداری کی ضرورت ہے۔دوسری جانب شعبہ سیاحت کو درپیش مسائل سے نکالنیکے لییتمام تر وسائل بروئے کار لاناہوں گے اور مذکورہ شعبے کو مزید استحکام دینے کے لیے روڈ انفراسٹرکچر کی بہتری اور باقاعدہ کمیونیکیشن کی بحالی سمیت بجلی کی دستیابی کو یقینی بنادیا جائے تو گلگت بلتستان کا شعبہ سیاحت نہ صرف ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار اداکرسکتا ہے بلکہ قومی اور مقامی سطح پر روز گار کے نئے مواقع بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
مضمون نگار قومی ، معاشرتی اور سیاحتی امو رپر لکھتے ہیں،
[email protected]
تبصرے