آزاد کشمیر میں یوم دفاع کسی خاص دن سے منسوب نہیں بلکہ حقیقت میں دفاعِ پاکستان کی پہلی لکیر ہمیشہ سے خطۂ کشمیر رہا ہے۔بھارت نے کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ حق خودارادیت دینے کے بجائے کشمیر پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے اور گزشتہ پون صدی سے ظلم،جبر اور طاقت کے ذریعے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے جبکہ کشمیری اپنے مطالبہ حقِ خودارادیت سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کے باقاعدہ قیام سے قبل ہی 19 جولائی1947 کو کشمیریوں کی نمائندہ جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے سرینگر میں سردار ابراہیم خان کی رہائشگاہ پر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی تھی۔ مذکورہ قرارداد کے مطابق 80 فیصد مسلم آبادی، ریاست سے گزرنے والے اہم دریا، زبان، ثقافت اور ریاست کے پاکستان کے ساتھ ملحقہ تعلقات کی وجہ سے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ناگزیر ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں میں واضح کہا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کی رضا ومنشا کے مطابق، اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے سے کیا جائے گا۔ بھارت، پاکستان کو بھی اس بات پر اقوام متحدہ لے گیا اور بھارت نے اقوام متحدہ کے سامنے وعدہ کیا کہ وہ کشمیر میں استصواب رائے کے ذریعے کشمیریوں کو اپنی تقدیر کے فیصلے کا موقع فراہم کرے گا لیکن بعد میں اپنے ہی اقوام متحدہ کے معتبر فورم پر کیے گئے وعدوں سے مکر گیا اور بزور طاقت کشمیریوں کی آواز دبانا شروع کر دی۔ جب قائد تحریک آزادی سید علی گیلانی نے بھارت کو اپنے وعدے یاد دلائے تو بھارتی نیتاؤں نے کہا کہ'' اب دریائے جہلم کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے''جس پر سید علی گیلانی نے کہا تھا کہ ''دریائے جہلم کے پلوں کے نیچے سے پانی ہی بہا ہے کشمیریوں کے حقوق تو نہیں بہہ گئے ''آزادی کی جدوجہد شدت اختیار کر گئی، بھارت نے ظلم کا ہر حربہ کشمیریوں پر آزمایا لیکن کشمیر کے سپاہیوں کی آواز کبھی کم نہ ہوئی۔ بھارت نے پاکستان کو کبھی صدق دل سے تسلیم نہیں کیا۔
بھارت کے ان مذموم عزائم کے سامنے ریاست پاکستان اور کشمیری ہمیشہ سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے وادی نیلم سیکٹر سے لیپہ، کھلانہ پرپنجال سے لیکر چھمب تک آزاد کشمیر کے عوام بھارتی فوج کے سامنے دفاع پاکستان کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ بھارت کی بلااشتعال گولہ باری ہو یا دراندازی ،آزاد کشمیر کے بہادر عوام نے ہمیشہ اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے کیونکہ کشمیری عوام سمجھتے ہیں کہ دفاع پاکستان کا پہلا محاذ اور مورچہ کشمیری ہی ہیں۔آزاد کشمیر کے عوام دفاع پاکستان کا ہر اول دستہ ہیں۔ یہ بات آزاد کشمیر میں آزاد کشمیر کے عوام کی جانب سے پکڑے جانے والے ابھینندن کو بھی اچھی طرح یاد ہے اور نکیال سیکٹر میں عوام کی جانب سے درگت بننے والے بھارتی فوجیوں کو بھی۔چنانچہ ہرسال یوم دفاع پاکستان کے موقع پر پاکستان کے اگلے مورچے کشمیر کو ہمیشہ یاد رکھا جاتاہے یہی وجہ ہے کہ کور کمانڈر راولپنڈی سمیت سینئر فوجی حکام یوم دفاع پاکستان منانے، پاکستان کے اگلے مورچوں پرآزاد کشمیر تشریف لاتے ہیں۔ آزاد کشمیر کی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی سنگینوں کی سائے تلے یومِ دفاع کے تاریخی موقع پر پاک فوج کو خراج تحسین پر مبنی پوسٹر اور پاکستان کے پرچم لگائے جاتے ہیں۔مظفرآباد میں یادگار پرکشمیری شہداء کے نام کنندہ ہیں اوران کی قربانیوں کو احسن انداز میں اجاگر کیا گیا ہے،یادگار شہداء تحریک ِآزادیِ کشمیر میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کوخراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تعمیر کی گئی ہے،یادگار شہدا ء سے ملحقہ گیلری میں مقبوضہ کشمیر کے حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔ شہداء دفاع پاکستان وجہاد کشمیر کے حوالے سے مظفر آباد میں ایک خصوصی جموں وکشمیریادگار بھی بنائی گئی ۔اس یادگار میں کشمیریوں کی لازوال جدوجہد آزادی اور قربانیوں کے استعارے کے ساتھ ساتھ 1947 کے شہدائے آزاد کشمیر، شہدائے پاک فوج اور شہدائے تحریک کشمیر کے نام کنندہ ہیں ۔ یہ یادگار مظفرآباد کے داخلی چوک چھتر پر واقع ہے۔یہ 1755مربع میٹر پر محیط ہے۔اس یادگارکے 4بڑے حصے ہیں۔پہلا حصہ ایک انڈر پاس پر مشتمل ہے جس میں مختلف تاریخی تصاویر کے ذریعے آزادی سے قبل کی کشمیری کاوشوں، اہم رہنمائوں اور جنت نظیر وادی کی عکس بندی کی گئی ہے۔ انڈر پاس سے نکلنے کے بعد سیاح یادگار کے مرکزی حصے میں پہنچ جاتے ہیں جہاں دیواروں کی صورت میں دو دائرے بنتے ہیں۔ بیرونی دائرے میں 4انفرادی دیواریں ہیں جو کہ پاکستان کے صوبوں کی عکاس ہیں،جن پر تحریک آزادی میں شہید ہونے والے پاکستانی شہداء کے نام درج ہیں۔ اندرونی دائرہ 8دیواروں پر مشتمل ہے جن پر آزاد جموں و کشمیر کے شہداء کا اندراج ہے۔
ان دونوں دائروں کے درمیان ایک دیوار واقع ہے جس کوبھارت کے غیرقانونی زیرقبضہ جموںو کشمیر وال کہا جاتا ہے۔ یہ دیوار موجودہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی جدوجہد کو ظاہر کرتی ہے۔ مزید مرکزی حصے کے عین بیچ میں ایک پلیٹ فارم ہے جس سے پاکستان اور کشمیر کی یکجہتی کی عکاسی ہوتی ہے۔ تیسرے حصے میں 4فریمز موجود ہیں جن کو'' فریمز آف ابلیگیشنز''سے منسوب کیا گیا ہے۔
پہلے فریم کا رنگ سبزہے جس پر قائداعظم محمد علی جناح کی کشمیر سے متعلق اقتباسات درج ہیں۔دوسرے فریم کا رنگ لال ہے جو کہ جموں و کشمیر کی عوام کی قربانیوں کا مظہر ہے جس پر قائد تحریک آزادی کشمیرسید علی شاہ گیلانی کے ارشادات درج ہیں۔تیسرے فریم کا رنگ سفید ہے جس میں مسلم اُمہ کے کشمیر سے متعلق نظریات درج ہیں جبکہ چوتھے فریم کا رنگ نیلا ہے جو بین الاقوامی برادری کے کشمیر سے متعلق بیانیے کا عکاس ہے۔فریمز آف ابلیگیشنز سے گزرتے ہوئے یاد گار(مونومنٹ) کے آخری حصے تک جاتی ہوئی لال رنگ کی لکیر شہداء کے خون کی عکاسی کرتی ہے جبکہ اس کے دونوں اطراف سے گزرتی سفید لکیریں سیاسی اور سماجی کاوشوں کو ظاہر کرتی ہیں۔چوتھا اور آخری حصہ ''فائنل ڈسٹینیشن' یعنی حتمی منزل ہے جہاں پہ پاکستان کا نقشہ نصب کیا گیا ہے جس کے عین درمیان میں چنار کا پتا ہے جومنزل مقصود کو ظاہر کرتا ہے جو کہ پاکستان اور کشمیر کا حتمی الحاق ہے۔
مضمون نگار معروف کشمیری صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔
[email protected]
تبصرے