مولانا ظفرعلی خان اردو ادب و صحافت کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے جنھوں نے اپنے زورقلم سے ایک عہد کو متاثر کیا۔آپ اردو ادب کے ایک عظیم شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ایک بے باک اور جرأت مند صحافی کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔آپ نے قیام پاکستا ن کی تحریک میں بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی جدوجہد کا ثمر14 اگست 1947کو پاکستان کے قیام کی صورت میں سامنے آیا۔آپ تحریک پاکستان کے زبردست داعی ،شعلہ بیان مقرر اور صاحب بصیرت قائد کے طور پر نمودار ہوئے اور بہت جلد تحریک پاکستان کی صف اول کی قیادت میں شامل ہوگئے۔آپ نے اپنے اخبار' زمیندار 'کے ذریعے ہندوستان کے مسلما نوں میں انگریزوں سے آزادی کے لیے جوش اور جذبہ پیدا کیا۔
بیسویں صدی کا ابتدائی دور ہندوستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔برصغیر کی محکوم قوموں میں سیاسی بیداری کی لہر پیدا ہوچکی تھی،ان میں آزادی کی امنگ جاگ چکی تھی اور وہ انگریزوں سے آزادی کے لیے سیاست وصحافت ،ادب وثقافت کے میدانوں میں سینہ سپر ہوچکے تھے ۔اسی زمانے میں پاکستان کی خالق جماعت آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی ۔ ڈھاکہ میں منعقدہ مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس میں مولانا ظفرعلی خان بھی شریک ہوئے تھے اور انھوں نے صوبہ پنجاب کی نمائندگی کی تھی- اس سے بیس سال پہلے آل انڈیا نیشنل کانگریس کے نام سے ایک بڑی سیاسی جماعت قائم ہوچکی تھی ۔بہت سے مسلم قائدین بھی اس جماعت میں شامل تھے اور ہندوئوں ، سکھوں اور دوسری قوموں کے ساتھ مل کر انگریز راج کے خلاف مشترکہ جدوجہد کررہے تھے لیکن اس دوران کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے مسلمانان برصغیر ہندوئوں سے اپنا سیاسی راستہ الگ کرنے پر مجبور ہوگئے۔یہی زمانہ تھا جب برصغیر کی اردو صحافت ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے ایک نئے دور میں داخل ہوئی تھی۔مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اپنے لیے الگ وطن کے حصول کی غرض سے جدوجہد شروع کردی ۔انھیں آزادی کی اس تحریک میں منظم رکھنے اور ان میں جوش وولولہ پیدا کرنے کے لیے ایسے اخبارات و جرائد کی ضرورت تھی جو ان کے سیاسی ومذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے کے علاوہ رائے عامہ کو ہموار کرسکیں۔
اس پر آشوب دور میں بعض نابغہ روزگار شخصیات پیدا ہوئیں جنھوں نے اپنے زور قلم سے مسلم قوم کی راہنمائی کی۔ ان کے اندر ایک نیا جوش وولولہ پیدا کیا اور آزادی کی تڑپ اور امنگ کو اجاگر کیا۔بطل حریت مولانا محمد علی جوہر کے جاری کردہ اخبارات کامریڈ اور ہمدرد اس حوالے سے ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ دونوں اخبارات مولانا کی رحلت کے بعد اپنی اشاعت کا تسلسل برقرار نہ رکھ سکے۔ان حالات میں مولانا ظفر علی خان کا روزنامہ 'زمیندار 'مسلمانوں کے حقوق کا ترجمان اور ان کے دل کی آواز بن گیا۔
مولانا ظفر علی خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس سے کیا تھا لیکن وہ جلد ہی کانگریسی قیادت کے ارادوں کو بھانپ کر اس سے الگ ہوگئے۔پھر انھوں نے مسجد احرار اسلام میں شمولیت اختیار کی۔اس جماعت کے ساتھ بھی زیادہ دیر نہ چل سکے اور 'مجلس اتحاد ملت 'کے نام سے اپنی ایک جماعت قائم کر لی۔بعد ازاں قائد اعظم محمد علی جناح کی دعوت پر آل انڈیامسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور اپنی جماعت کو اس میں ضم کردیا۔آپ نے دوبار انتخابات میں حصہ لیا اور مرکزی اسمبلی میں پہنچ کر مسلمانوں کی نمائندگی کا حق ادا کیا۔ صدائے حریت بلند کرنے کی پاداش میں آپ کو کئی بار قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں ۔مولانا کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ آپ نے لاہور میں ہونے والے مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں 'قرارداد لاہور' کا فی البدیہ اردو ترجمہ کیا تھا۔ اسی قرارداد کو ہندو پریس نے 'قرارداد پاکستان 'کا نام دیا تھا اور بعد میں یہ اسی نام سے موسوم ہوئی تھی۔
اس وقت زمیندار اخبار مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکا تھا اور برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکا تھا۔مائیکل ایڈوائر پنجاب کاگورنر بنا تو اس نے مولانا ظفرعلی خان اور ان کے اخبار کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ تیز کردیا۔حکومت نے 'زمیندار' سے اشاعت کے عوض ضمانت طلب کر لی۔لوگوں کی 'زمیندار' سے نظریاتی اور قلبی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ حکومت دس ہزار روپے کا زرضمانت مانگتی تو لوگ سورج غروب ہونے سے پہلے یہ رقم جمع کرکے اخبار کے دفتر میں پہنچا دیتے تھے۔
'زمیندار' کے معاصرین بھی اس کی عوامی مقبولیت اور رائے عامہ کو ہموار کرنے میں اس کے کردار کے معترف تھے۔بطل حریت مولانا محمد علی جوہر نے اخبار اور مولانا ظفر علی خان کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا تھا:
''زمیندار اس لیے عروج کو پہنچا کہ ایک ایسے شخص نے اس کی ادارت سنبھالی ہے جو قابل ہے،علی گڑھ کا گریجویٹ ہے۔ہندوستان میں ایک سے زیادہ صوبوں میں نظم ونسق کا تجربہ رکھتا ہے۔جدید تمدن اور سیاست سے آگاہ ہے۔انگریزی کی اعلی قابلیت کا حامل ہے ۔اردو نثر میں ایک درخشاں اسلوب کا مالک ہے اور شعر وشاعری پر اس کو کامل عبور ہے۔ایسے جامع الصفات اس سے پہلے اس پیشے میں داخل نہیں ہوئے''۔
بھارتی مئور خ روندر کمار نے اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مولانا ظفر علی خان نے ہندوستان کے ان عوام کو اپنی تحریروں کے ذریعے متحرک کیا،جو سیاسی معاملات سے لاتعلق تھے۔انھوں نے لاہور کے عوام کو متحرک کیا۔
مولانا ظفر علی خان کی جرأت مند صحافت کی دولت زمیندار سامراج کے خلاف جدوجہد کی مضبوط آواز بن گیا۔آپ نے اپنی صحافت کے ذریعے انگریز سامراج کی چیرہ دستیوں کے خلاف آواز بلند کی اور اپنی صحافت کو مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے لیے وقف کردیا۔آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں میں نیا جوش وجذبہ پیدا کرکے انھیں انگریز استعمار کے خلاف مضبوط دیوار بنا دیا۔آپ نے اردو صحافت میں جدت پیدا کی اور ا س میں ایک نئی جہت متعارف کرائی۔ان کے اخبار کے جذباتی اسلوب، ہجو نگاری اور مزاحیہ طنز نے اردو صحافت کو ایک نیا رخ دیا۔برطانو ی حکومت کے دور میں لاہور میں مسجد شہید گنج کا تنازع شروع ہوا ۔یہ مسجد شاہجہاں کے بیٹے نے تعمیر کرائی تھی ۔اس کو سکھوں نے گوردوارے میں تبدیل کردیاجس کے باعث پنجاب کے مسلمانوں میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔مسلمانوں نے اس مسجد کی بازیابی کے لیے ایک تحریک شروع کی اور لاہور ریلوے سٹیشن کے بالمقابل نولکھا کے علاقے میں واقع اس مسجد کی جگہ کے قریب مسلمانوں نے احتجاج شروع کیا۔ برطانوی انتظامیہ نے اس مسئلے کو سلجھانے کے بجائے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں متعدد مسلمان شہید ہوگئے۔ 'زمیندار 'نے اس مسئلے کو نمایاں جگہ دی اور سامراجی حکومت پر کڑی تنقید کی۔اس تحریک کے دوران پولیس اور فوج کے مظاہرین پر وحشیانہ تشدد اور براہ راست گولیاں چلانے کے واقعے کے بعد برصغیر کے مسلمانوں میں حکومت کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوگئی۔مولانا ظفر علی خان نے مجلس احرار اسلام اور بعض علما پر بھی تنقید کی جنھوں نے مسجد شہید گنج کے معاملے میں مصلحت پسندی سے کام لیا تھا۔
امریکا کی نارتھ کیرولینا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ڈیوڈ گلمارٹن نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ'' ظفر علی خان نے بطور صحافی ایک رجحان متعارف کرایا۔انھوں نے ہندوئوں اور عیسائیوں کے خلاف سخت پالیسی اپنائی ۔یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں کے دوران لاہور کی گلیوں اور بازاروں میں 'زمیندار' اخبار کو ہندوئوں کا بیڑا غرق کرنے والا اخبار سمجھا جاتا تھا''۔امریکی پروفیسر نے مزید لکھا ہے کہ'' مولانا ظفر علی خان نے مسلمان ممالک اور بالخصوص ترکی سے متعلق یورپی اقوام کی منافقانہ پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا''۔
مولانا ظفر علی خان کی سیاست اور صحافت نے مسلم نوجوانوں کی اکثریت کو متاثر کیا۔ان کی تحریک نے انگریز حکومت کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کیا اور مزدور طبقے کی بڑی تعداد بھی اس تحریک میں شامل ہوگئی۔اخبار کے اداریوں ،مضامین اور خبروں نے دیہات اور شہر وں میں رہنے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد کو متاثر کیا ۔امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں اجتماع پر انگریز فوجیوں کی فائرنگ کے واقعے نے انگریز حکمرانوں کے خلاف جذبات کو مزید مشتعل کردیا۔اس تناظر میں ظفر علی خان کی تحریروں اور تقریروں نے مسلم رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔امریکی پروفیسر ڈیوڈ گلمارٹن مزید لکھتے ہیں:
Muslims eventually decided to opt printing as necessary weapon in defence of Islam. They have their own distinctive objectives to use printing to preserve the apparatus of their faith and in a context in which Muslims had accepted that they were a minority, about 25 per cent, in a majority Hindu population. Their new found solution 'revival of Islam' had called for renewal and expression of Din across the region.
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی سابق ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز اور ممتاز تاریخ دان پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ اعون نے مولانا ظفر علی خان کے تاریخی کردار پر شاندار مقالہ لکھا ہے۔ انہوں نے ظفر علی خان کی زندگی اور مجاہدانہ کردار کے ان تشنہ پہلو ئوں پر بھی روشنی ڈالی ہے جو آج تک اہل علم کی نگاہوں سے اوجھل رہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ مولانا ظفر علی خان نے پنجاب کے شہری علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور نہیں انگریز سامراج کے سامنے ڈٹ جانے اور اپنے لیے الگ ملک حاصل کرنے کے لیے تیار کیا۔ مسجد شہید گنج واقع کے بعد مولانا ظفرعلی خان کا سیاسی کردار اور بھی اہم ہو گیا تھا اور انہوں نے انگریزوں کے خلاف پنجاب کے عوام کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مولانا ظفر علی خان ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ان کی ذات میں بہت سی خوبیاں یکجا تھیں۔وہ بیک وقت بہترین مقرر ،بلند پایہ صحافی ،شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دردمند قومی راہنما اور مصلح عالم بھی تھے۔ان کی نعتیہ شاعری نے اردو میں نعت گوئی کے فن کو نئی جہت عطا کی اور اس کو کمال درجے پر پہنچا دیا۔انھوں نے انگریز سامراج کے خلاف جو نعرہ حق بلند کیا ،اس کی بازگشت چار دانگ عالم میں سنی گئی۔آپ نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک ولولہ تازہ دیا جس کے باعث تحریک قیامِ پاکستان کامیابی سے ہم کنار ہوئی اور مسلمانان برصغیر کو الگ وطن حاصل ہوا۔قیام پاکستان کے بعد مولانا ظفر علی خان صحافت اور سیاست میں کوئی زیادہ فعال نہیں رہے تھے اور وہ اپنی زندگی کے آخری برس خاموشی سے گزارنے کے بعد جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔
تحریکِ آزادی کے نامور سپوت مولانا ظفر علی خان ایک بلند پایہ شاعر ، ادیب ، صحافی ،مدیر ،مترجم اور قومی مصلح تھے۔انھوں نے برصغیر کی اردو صحافت پر نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔انھوں نے اپنے قلم سے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک ولولہ تازہ دیا جس نے تحریک پاکستان کو جلا بخشی ۔ان کی بہت سی تحریریں مختلف کتب خانوں اور زمیندار کے فائلوں میں بکھری پڑی ہیں ،ان کو یکجا کرکے شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک تاریخی ورثہ ہے جسے محفوظ کیا جانا چاہیے۔ مولانا ظفر علی خان کی لکھی کتب کی ترویج واشاعت کی بھی ضرورت ہے ۔
تعارف:
مضمون نگار ایک قومی یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے چیئرمین ہیں۔
تبصرے