نیا سال ہمارے لیے نئی امیدیں اورنیا عزم لے کرآیا ہے،پاکستان کے لیے ترقی وخوشحالی کے ایک نئے دور کاآغاز ہوچکاہے۔قوم نے ایک خوشحال اورترقی یافتہ پاکستان کاجوخواب دیکھا تھا وہ جلد پورا ہونے والاہے۔پاکستان کامیابی کے ساتھ بحرانوں سے نکل آیاہے ۔دوست ممالک اورغیرملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔متحدہ عرب امارات سے اس حوالے سے25ارب ڈالر اورکویت سے دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے ایم اویوز پردستخط ہوچکے ہیں۔ سعودی عرب نے بھی ایک سوارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی ہے۔چین کی مدد سے سی پیک منصوبوں پربھی تیزی سے کام جاری ہے،چین پاکستان سے دوستی کاحق ادا کررہاہے۔سی پیک کے جومنصوبے مکمل ہوچکے ہیں ان کے ثمرات سامنے آناشروع ہوگئے ہیں۔گوادر پورٹ سمیت ملک کے کئی علاقوں میں صنعتوں کے قیام کے لیے دن رات کام ہورہاہے۔چند سال میں ہی پاکستان میں ایک جدید انفراسٹرکچر کھڑا ہو گیا ہے، جس پردنیا حیران ہے۔ بڑے شہروں میں فلک بوس تجارتی عمارتیں تیزی سے بن رہی ہیں۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ مسلسل اوپرجارہی ہے۔ملکی وغیر ملکی معاشی ماہرین کی پیشن گوئی ہے کہ پاکستان اگلے چند سال میں دنیا کی 25بڑی معیشتوں میں شامل ہوجائے گا۔ جوپاکستان کے دشمنوں کادل جلانے کے لیے کافی ہے۔25کروڑ انسان ترقی کرنے اورآگے بڑھنے کاعزم کرلیں توپھرانھیں کون روک سکتاہے،قوم میں آگے بڑھنے اورکچھ کردکھانے کاجذبہ ہے،اس کے لیے وہ دن رات محنت کرنے اورقربانی دینے کے لیے تیارہے۔
میں اپنے قارئین کوبتاتاچلوں، پاکستان میں ایک مضبوط اپرمڈل کلاس موجود ہے،اس اپرمڈل کلاس میں شامل افراد کی تعداد اڑھائی سے تین کروڑ کے درمیان ہے،جبکہ دولت مند افراد کی تعداد اس کے علاوہ ڈیڑھ کروڑہے۔ معاشی طورپرمضبوط یہ طبقہ دنیا کی بہترین مصنوعات خریدنے کی استطاعت رکھتاہے۔ہمارے یہاں یہ بات توہوتی ہے کہ مہنگائی اوربے روزگاری کے باعث اتنے افراد غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے ہیں،لیکن اس بات کاذکر کرنابھی ضروری ہے کہ کتنے افراد اپر مڈل کلاس کاحصہ ہیں۔اگراعداد وشمار کودیکھا جائے توان اڑھائی سے تین کروڑ افراد کی تعداد کئی یورپی ممالک کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مجبوری ہے کہ وہ اپنی پراڈکٹس بیچنے کے لیے پاکستان کارخ کریں۔ سیاسی ومعاشی استحکام کے باعث یہ کمپنیاں یقینی طورپر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گی۔ملک بھرمیں پھیلی ہوئی پوش ہاوسنگ سوسائیٹیز، مہنگی گاڑیاں ،مہنگے ریسٹورانٹس اور سامان تعیشات سے بھرے شاپنگ مالز اس بات کاثبوت ہیں کہ پاکستانی قوم کاایک طبقہ ان اشیاء کی خریداری کی قوت رکھتاہے۔ان میں صنعت کار،بڑے تاجر، ٹیکنوکریٹس، ڈاکٹرز،انجینئرزاورسرمایہ کار شامل ہیں۔ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ معاشی پالیسیوں اوراصلاحات کے باعث راتوں رات معاشی انقلاب نہیں آتا۔معاشی ترقی کئی دہائیوں پرمشتمل پالیسیوں اوراقدامات کانتیجہ ہوتی ہے۔ چین اوردوسرے ترقی یافتہ ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کے پنج سالہ منصوبوں کی کاپی کرنیوالا جنوبی کوریا آج دنیا کے لیے مثال ہے۔ جن ممالک میں سیاسی استحکام اورمعاشی پالیسیوں میں تسلسل رہا وہ آج دنیاکے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ نیاسال اورآنیوالے سال پاکستان کے لیے خوشحالی اور ترقی کے نئے دروازے کھول دیں گے۔
ایس آئی ایف سی (اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل) بھی پاکستان کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر مشرقی وسطیٰ کے دورے پر گئے اوردوست عرب ممالک سے اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کی یقین دہانی لے کر آئے۔ غیرملکی سرمایہ کاری لانے میں ایس آئی ایف سی کونظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ اس کے قیام کامقصد ہی غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے ون ونڈو کے تحت بہترین ماحول فراہم کرنا اورغیرضروری رکاوٹوں سے نجات دلاناہے۔ایس آئی ایف سی نے زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انرجی اور کان کنی (منرلز) کے شعبوں پرفوکس کیاہے۔کئی منصوبوں پرتیزی سے کام جاری ہے۔ زراعت کے شعبے میں پرانے طریقوں کے بجائے بائیو ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کیاجارہاہے،اس سے پاکستان میں چند سال میں ہی زرعی انقلاب آجائے گا۔ معاشی ترقی کے لیے حکومت کی جانب سے لانگ ٹرم اورشارٹ ٹرم منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ معاشی پالیسیوں اوراصلاحات سے نہ صرف معیشت مضبوط ہوگی بلکہ پاکستان ایشین ٹائیگر بن کرابھرے گا۔نوجوانوں اورخواتین کوہنرمند بنانے کے لیے وفاقی اورصوبائی سطح پرکئی پروگرام شروع کیے گئے ہیں جن میں لاکھوں نوجوان تربیت حاصل کررہے ہیں۔ یہ ہنرمندنوجوان چند سال میں ہی معاشی انقلاب برپاکردیں گے۔
ماہرین کے مطابق آئی ٹی سیکٹر میں بہت گنجائش ہے ہمارے تربیت یافتہ نوجوان 30 ارب ڈالر تک ملک میں لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گذشتہ سال حکومت نے ایس آئی ایف سی کے تحت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے لیے پانچ بڑے منصوبوں کا اعلان کیا تھا جن میں باصلاحیت نوجوانوں کے آئی ٹی پراجیکٹس کو فروغ دینے کے لیے ٹیک ڈیسٹی نیشن پاکستان برانڈ، آئی ٹی کی تربیت کی فراہمی کے لیے ٹیک لفٹ بوٹ کیمپ، کشمیر میں خواتین کو آئی ٹی کی تعلیم فراہم کرنے کے خواتین یونیورسٹی باغ میں نالج پارک، گیمنگ اور اینمیشن کا سینٹر آف ایکسیلینس اور فیصل آباد میں زراعت انفارمیشن ٹیکنالوجی انکیوبیٹر سنٹر شامل ہیں۔ان پراجیکٹس پرکام جاری ہے۔نگران حکومت نے پنجاب اوردوسرے صوبوں میں بھی اس حوالے سے خصوصی سنٹرقائم کیے ہیں۔لاکھوں نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کے لیے دن رات کام ہورہاہے۔یہ صنعتی وتجارتی ترقی پاکستان کوایک خوشحال ریاست بنادے گی۔پاکستانی معیشت کو سو ارب ڈالر سے زیادہ تک لے جایاجاسکتاہے۔پاکستانی مصنوعات کی دنیا بھرمیں مانگ ہے اوراس میں مسلسل اضافہ ہورہاہے،حکومت نے برآمدات میں اضافے کے لیے خصوصی اقدامات کیے ہیں۔ ایس آئی ایف سی بھی برآمدات بڑھانے کے لیے دن رات کام کررہی ہے۔ایکسپورٹ کی راہ میں جومشکلات تھیں انھیں ہنگامی بنیادوں پردور کیاجارہاہے۔اس حوالے سے امریکہ اوریورپ سمیت شنگھائی تعاون تنظیم پربھی فوکس کیاگیاہے،ان ممالک کاتجارتی حجم ٹریلین ڈالرز میں ہے۔ماہرین کے مطابق ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے نئے روٹس تلاش کیے گئے ہیں،بڑے جوائنٹ وینچرز کیے جارہے ہیں،پاکستان کوتمام فورمز سے مثبت جواب ملاہے۔ٹیکسٹائل مصنوعات کے ساتھ ،آلات جراحی ،کھیلوں کی مصنوعات، انفارمیشن ٹیکنالوجی ،پھل وسبزیاں اورقیمتی پتھروں اورمعدنیات کی ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے کئی معاہدے ہوئے ہیں۔ایس آئی ایف سی کی کوششوں سے غیرملکی سرمایہ کار، مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے دلچسپی دکھا رہے ہیں۔
پچھلے چند ماہ میں پاکستان سٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ تیزی آئی ہے جس نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔بیرونی سرمایہ کاروں نے بھی اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔مارکیٹ کی کیپٹلائزیشن بیس ارب ڈالر سمجھی جاتی ہے،معاشی ماہرین کے مطابق شیئرزمیں ابھی مزید تیزی آئے گی،نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہونے کی بھی امید ہے ۔بینکوں نے ایک سوپچاس ارب روپے کامنافع اپنے شیئرز ہولڈرز میں تقسیم کیاہے۔جن ممالک میں بینک دیوالیہ ہونے کی بجائے منافع کمارہے ہوں ان کی معیشت کوبہترین سمجھا جاتاہے۔پاکستان میں سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنیوالوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ مضبوط ہوا ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہواہے جبکہ آئی ایم ایف سے بھی اچھی خبریں آرہی ہیں۔معاشی ماہرین اسے پاکستانی معیشت کے لیے اچھی خبرقراردے رہے ہیں۔ پاکستان کوسیاسی و معاشی طورپرآج بھی دنیا کے طاقت ور ممالک میں شامل کیاجاتاہے۔ امریکی ویب سائٹ یوایس نیوزاینڈ ورلڈ رپورٹ چند سال پہلے بھی امریکہ کوپہلی اورپاکستان کو بائیسویں معیشت قراردے چکی ہے۔ غیرجانب دار عالمی جرائد اورادارے اپنی رپورٹس میں اس بات کااقرارکرچکے ہیں کہ پاکستان میں جی 20 ممالک میں شامل ہونے کی صلاحیت ہے۔ اگرصرف فوجی قوت کاموازنہ کریں تودنیا کے تمام بڑے ادارے اس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان دنیا کی چند بڑی فوجی طاقتوں میں سے ایک ہے ۔جاپان ،فرانس اوراٹلی کانمبر ہمارے بعد ہے۔ پاکستان آج بھی عالم اسلام کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرکے پاکستان نے دنیا کے لیے مثال قائم کی ، ہمت اورجذبہ ہو توکم وسائل کے باوجود دشمنوں کوشکست دی جاسکتی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جان ومال کی قربانیاں پاکستانی فورسز اورعوام نے دیں لیکن اس کے ثمرات پوری دنیا سمیٹ رہی ہے،پاکستان دہشت گرد وں کاخاتمہ نہ کرتا تو خدشہ تھاکہ کہیں یہ پوری دنیا میں نہ پھیل جائیں۔ دہشت گرد گروپوں کے خلاف ہماری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، یہ مکمل کامیابی تک جاری رہے گی اورپوری قوم اس جنگ میں اپنی فورسز کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ہمارے جوان اپنی جانوں کی قربانیاں دے کردوسروں کے کل کومحفوظ اوربہتر بنارہے ہیں۔پاکستان نے دنیا میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ اوردیگر عالمی فورمز سمیت ہرسطح پر اپنی ذمہ داریاں دوسروں سے بڑھ کرادا کی ہیں ۔اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری اس بات کاکئی دفعہ اعتراف بھی کرچکے ہیں۔فورسز کی قربانیوں کے باعث امید ہے نیا سال پاکستانی قوم اوردنیا بھر کے لیے امن اورخوشحالی کاسال ہوگا۔
پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جس کی بڑی آبادی نوجوانوں پرمشتمل ہے،یہ باصلاحیت نوجوان ہی پاکستان کاروشن مستقبل ہیں۔ یہ دنیا کوبدلنے اوردنیا کی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔پاکستان کی چونسٹھ فیصد آبادی کی عمر 30سال سے کم ہے۔ نوجوانوں کی آبادی کے اعتبارسے ہم دنیا میں چوتھے نمبرپرہیں۔عالمی معیشت اوردنیاکامستقبل نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے ۔پاکستان کے کروڑوں نوجوان دنیا کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ہمارے نوجوان ایک ڈیجیٹل، گلوبلائزڈ اورحیران کن ترقی کرتی دنیا میں پیدا ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی زندگی کی پچاس بہاریں دیکھ چکے ہیں،ان کے لیے اس تیزی سے ترقی کوسمجھنااوراس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرچلناذرا مشکل ہے،لیکن ہمارے نوجوان یہ کام کرسکتے ہیں۔ آج جب کئی یورپی ممالک اورجاپان جیسے ملک میں نوجوانوں کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے،بزرگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے،ان ممالک کو افرادی قوت کی شدید کمی کاسامناہے۔ ایک دور تھا زیادہ آبادی کوبوجھ سمجھا جاتاتھا۔ چین،برازیل اوراسلامی ملک انڈونیشیا نے اپنی زیادہ آبادی کابھرپورفائدہ اٹھایا، اپنے نوجوانوں کوہنرمند بنایااوربرآمدات بڑھا کر معیشت کومضبوط بنایا۔ پاکستان 24 کروڑ سے زیادہ آ بادی کے ساتھ دنیا میں پانچویں نمبر پرہے۔ ذرا تصورکیجیے ہم اس بڑی آبادی کومختلف شعبوں میں مہارت پیدا کرکے باآسانی دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن سکتے ہیں۔ہرشخص کوئی کام کرے،اپنے حالات بہتر بنائے،ملک وقوم کی تقدیر بھی بدل جائے گی۔پاکستانی دنیا کے ہرملک میں مل جائیں گے،امریکہ ہویابرطانیہ یا یورپ کاکوئی چھوٹا ساملک ہو،پاکستانی وہاں کی ترقی میں اپنامثبت کردار ادا کررہے ہیں۔
کسی بھی ملک کی ترقی کاانحصار اب روایتی ٹیکنالوجی کی بجائے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اورنئی کمپیوٹر،سافٹ وئیر ایجادات پر ہے۔امریکی اورچینی کمپنیاں سکس جی کے تجربات کررہی ہیں جبکہ بہت سے ممالک فائیو جی کی طرف منتقل ہوچکے ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان میں بھی فائیو جی ٹیکنالوجی لانے کے لیے اقدامات ہورہے ہیں۔ جس سے آئی ٹی سیکٹرکی ترقی میںبہت مدد ملے گی۔
موجودہ دور میں زراعت ،زرعی صنعتوں کی ترقی اور پائیدار شرح نمو کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہت ضروری ہے۔ فوڈ سکیورٹی، صنعتوں کے لیے خام مال کی فراہمی، روزگار پیدا کرنے اور دیہی آبادی کی ترقی میں زراعت کا کردار انتہائی اہم ہے۔ بہت سے ممالک کے لیے زراعت برآمدی آمدنی کا اہم ذریعہ ہے اور مجموعی اقتصادی ترقی اور استحکام میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔پاکستان میں جدید زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال، ہائبرڈ بیج کی نئی اقسام اور سازگار پالیسی ماحول کے باعث زرعی شعبے میں انقلاب برپا ہونے کی امید ہے۔فی ایکڑ پیداوار میں اضافے سے جہاں کسان کو فائدہ ہوگا وہیں مجموعی پیداوار بھی بڑے گی۔
سی پیک،چین کے تعاون سے شروع کیے گئے منصوبوں خصوصاً گوادر کی ترقی سے نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے کی تقدیر بدل رہی ہے ۔ گوادر پورٹ سے ترقی کانیا باب شروع ہونیوالا ہے۔اس سے عوام کی زندگی میں بھی بنیادی تبدیلیاں آئیں گی۔روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اورلوگوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔پاکستان میں سیاسی اورمعاشی استحکام کے باعث کئی دوست ممالک اورغیر ملکی سرمایہ کار اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے تیارہیں۔ نیوم سٹی منصوبے کے باعث توقع ہے کہ وہاں بھی بڑی تعداد میں پاکستانی آئی ٹی ڈیجیٹل ماہرین کی ضرورت ہوگی ،بحیرہ احمر پربننے والا نیوم سٹی منصوبہ یقینی طورپردنیا کے لیے ایک عجوبہ ہوگا۔
ملک کوترقی دینے کے لیے ہمیں آئی ٹی اورصنعت وتجارت پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاروں نے نئی صنعتیں لگانے پرتوجہ نہیں دی۔ اب ہمیں اپناقبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔اپنی ترجیحات کا نئے سرے سے تعین کرناضروری ہوگیاہے۔
پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے باعث بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے لیے ممکن نہیں کہ ہمیں نظراندازکریں۔پاکستان کے ایک طرف اس کادوست ملک چین ہے،جوعالمی افق پرایک بڑی معاشی اورفوجی قوت بن کرابھرا ہے،چین کے ساتھ دفاعی اورتجارتی تعاون مسلسل بڑھ رہاہے،دونوں ممالک کی دوستی دنیا کے لیے مثال ہے۔ہمسایہ ملک ایران سے برادرانہ تعلقات ہیں،ایران کے راستے ترکی اوریورپ تک زمینی رسائی کے مواقع ہیں۔ایران سے مال کے بدلے مال کے معاہدوں سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوگا۔ افغانستان کے راستے سنٹرل ایشیا اورروس تک تجارت کے فروغ کے امکانات روشن ہیں۔امریکہ اوریورپ پاکستانی مصنوعات کی بڑی منڈی ہیں۔ مڈل ایسٹ خصوصاً سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات سے اسٹریٹیجک پارٹنرشپ ہے۔برادرممالک سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات نے ہرمشکل میں پاکستان کی مدد کی ہے۔اسی طرح ترکی اور قطر،سمیت کئی اسلامی ممالک کے ساتھ پاکستان کے مثالی دوستانہ تعلقات ہیں۔پاکستان دوست ممالک کی مدد اوراپنی کوششوں سے معاشی بحران سے نکل آیا ہے اورترقی کے راستے پرگامزن ہے۔جولوگ پاکستان کے دیوالیہ اوربلیک لسٹ ہونے کاخواب دیکھ رہے تھے انھیں سوائے ذلت ورسوائی کے کچھ نہیں ملا۔
پاکستان اورپاکستانیوں کے پاس ایک ایساہتھیار ہے جس پرہم زیادہ غور نہیں کرتے،یہ چیز دنیا کے بہت کم ممالک میں بسنے والوں میں ہے اور وہ ہے اپنے وطن پاکستان سے دل وجان سے محبت، اپنے پاکستانی ہونے پرفخر۔ کہنے کویہ عام سی بات ہے،وطن سے باہر جائیں توپھراحساس ہوتاہے ہمارا سب کچھ اورہماری پہچان توپاکستان ہے۔ میں آپ کواپناایک واقعہ سناتا ہوں،لندن سے امریکن ائیر لائن پر واشنگٹن جارہاتھا۔ میرے ساتھ والی سیٹ پرایک نوجوان تھا جو شکل وصورت سے امریکی لگتاتھا،گپ شپ کاآغاز ہوا میں نے پوچھا کس ملک سے تعلق ہے اس نے جواب دیا امریکی شہری ہوں، میں نے اسے بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں، پاکستان کے بارے میں جتنی مثبت باتیں تھیں میں نے ان کاذکر کیا، بہت حیران ہوا،کہنے لگا بدقسمتی سے اُس نے منفی پروپیگنڈا زیادہ سنا ہے، اس نوجوان نے پاکستانی کرنسی اورپاسپورٹ دیکھنے کی خواہش کااظہار کیا۔میں نے پاکستانی روپے اوراپنا پاسپورٹ اسے دیکھایا۔اس نے قائداعظم کی تصویر اورپاکستانی روپوں کے ڈیزائن کی تعریف کی۔ ہماری گفتگو جاری رہی،وہ پھر کچھ سوچ کربولا اورمعذرت کرنے لگاکہ اس نے مجھ سے جھوٹ بولا ہے وہ امریکی شہری نہیں ہے۔ اس کاتعلق ایک یورپی ملک اسٹونیا سے ہے،اس نے مجھے مرعوب کرنے کے لیے خود کو امریکی شہری بتایا لیکن جب میں نے اپنا تعارف پاکستانی کی حیثیت سے کرایا تواسے بہت اچھا لگا کہ اپنے پاکستانی ہونے پربہت فخر ہے۔ اس کی حب الوطنی نے بھی جوش مارا۔ آپ دنیا میں کہیں چلے جائیں پاکستان سے تعلق رکھنے والے، چاہے انہوں نے وہاں کی شہریت ہی کیوں نہ اختیارکرلی ہو، اپناتعارف پاکستانی کی حیثیت سے کراتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم بے پناہ صلاحیتوں کی مالک ہے،دنیا کاشاید ہی کوئی ملک ہوجہاں پاکستانیوں نے اپنی صلاحیتوں کالوہا نہ منوایاہو۔آئی ٹی،میڈیکل،سائنس وٹیکنالوجی سمیت ہرشعبے میں لاکھوں پاکستانی دنیابھرمیں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان میں ایک طرف آسمان سے باتیں کرتے پہاڑ ہیں تودوسری طرف گرم پانی کاگہرا سمندر،طویل ریگستان اورسرسبز میدان، دنیا کے بہت کم ممالک ہیں جہاں اتنے موسم اوراتنے خوبصورت نظارے دیکھنے کوملیں گے۔ پاکستان کے شمالی علاقے سکردو اورہنزہ دیکھنے والوںکو اپنے سحر میں جکڑلیتے ہیں۔ یہ علاقے سوئٹزرلینڈ سے زیادہ حسین اوردل فریب ہیں۔سیاحت کوفروغ دینے کے لیے حکومت اورنجی شعبے کی جانب سے اقدامات کیے گئے ہیں جس کے نتیجہ میں ملکی وغیر ملکی سیاحوں نے ان تفریحی مقامات کارخ کیاہے،ہم جانتے ہیں دنیا کے کئی ممالک صرف سیاحت کی صنعت سے سالانہ اربوں ڈالر کما رہے ہیں۔امید ہے کہ اس سال دنیا خوبصورت اورپرامن پاکستان دیکھنے کے لیے آئے گی ۔
مضمون نگاراخبارات اورٹی وی چینلزکے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ ایک قومی اخبارکے لیے کالم بھی لکھتے ہیں۔قومی اورعالمی سیاست پر اُن کی متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے