انفارمیشن ، ڈس انفارمیشن اور جعلی خبروں کے تناظر میں
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ''آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات آگے بیان کردے۔''افسوس کہ آج ہم وہی کام کر رہے ہیں جس سے حضور اکرم نے منع فرمایا - ہماری مراد سوشل میڈیا پر ہماری تحریروں اور تبصروں سے ہے ۔ہم کوئی بھی بات بغیر تحقیق اور بغیر تصدیق آگے شیئر کر دیتے ہیں اور نہیں سمجھتے کے ہم غیر کا آلہ کار بن کر اپنے اداروں اور شخصیات کے خلاف پروپیگنڈا آگے بڑھا رہے ہیں -
مواصلات اور رابطے مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں دنیا میں لوگوں تک پیغامات اور معلومات پہنچانے کا مؤثر ذریعہ رہے ہیں۔ ہم اس ابلاغ اور اظہار کو میڈیا کہتے ہیں۔ یہ میڈیا پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا کے لحاظ سے متنوع شکلیں بنا چکا ہے۔ پرانے وقتوں میں معلومات کی ترسیل آج کی طرح تیز اور براہ راست نہیں تھی اور لوگ آج کی طرح اتنے قریب سے جڑے ہوئے نہیں تھے لیکن پھر بھی ان کے پاس مطلوبہ معلومات اور پیغامات پہنچانے کے مختلف ذرائع تھے۔مثال کے طور پر ان کے پاس قاصد کبوتر تھے یا وہ ہرکارے بھیجتے تھے۔منادی بھی ایک ذریعہ تھا۔
جیسا کہ ہم نے دوسرے شعبوں میں ترقی کی ہے، ہم آج کی دنیا میں جدید ترین تیز ترین اور مؤثرترین ذرائع ابلاغ کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس نے ہمیں اپنے دوستوں اور کنبہ کے ساتھ رابطے میں رہنے کی سہولت فراہم کی ہے لیکن ہم اسے زیادہ تر دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں جن میں سیاسی بیان بازی جو اکثر زبان درازی بن جاتی ہے، گالی گلوچ اور نقالی شامل ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت جس نے چند سال میں ملک کی ذمہ داری اٹھانی ہے وہ سیاسی انتہا پسند یا صرف نقال اور مخولی بنتے جارہے ہیں، جو ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
سوشل میڈیا کے اس غیر ذمہ دارانہ اور بے لگام استعمال نے سنگین مسائل پیدا کیے ہیں۔ مسائل مختلف سطحوں پر ہیں، انفرادی سطح پر دو طرفہ سطح پر اور قومی سطح پر بھی۔ سوشل میڈیا کے انفرادی سطح پر غلط استعمال میں جعلی آئی ڈی بنانا اور سادہ لوح لوگوں کو دھوکہ دینا شامل ہے - دو طرفہ سطح پر سوشل میڈیا کے غلط استعمال میں ایک دوسرے کے بارے میں ہتک آمیز ریمارکس پوسٹ کرنا شامل ہے۔ اس مسئلے کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی اس سہولت کو جعلی خبروں، پروپیگنڈے، غلط معلومات پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور آخر میں سب سے زیادہ چیلنج تب ہوتا ہے جب یہ جعلی خبریں اور غلط معلومات پھیلانے والے لوگ سوشل میڈیا کو کسی قوم کے اتحاد اور سلامتی کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان دنیا کے پہلے چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں کے لوگ زیادہ تر وقت ٹیلی کام اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون اب ایک عام چیز ہے۔ انٹرنیٹ کے ساتھ موبائل زیادہ تر اس مواد کو دیکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو بغیر کسی ذمہ داری یا چیک اینڈ بیلنس کے تیار کیا گیا ہے۔ فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، یو ٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا سہولیات پر کوئی بھی کچھ بھی لکھ اور بول سکتا ہے۔ نہ تو شیئر کرنے والوں کے پاس علم اور احساس ہے کہ وہ عوامی جگہ پر کیا شیئر کر سکتے ہیں اور نہ ہی صارفین حقیقی معلومات اور غلط معلومات، جعلی خبروں اور پروپیگنڈے میں فرق کر سکتے ہیں۔ اکثریت کسی خبر اور تبصرے میں بھی فرق نہیں کر سکتی۔
میڈیا کو دنیا میں پروپیگنڈے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے خاص طور پر وہ ممالک جو دشمن ممالک کی آبادی کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ اگر ہم بھارت پاکستان کی بات کریں توبھارتی فلموں کو پاکستان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ دوطرفہ متنازع مسائل پر بھارتی مؤقف کا پرچار کیا جاسکے۔ 70 اور 80 کی دہائیوں میں پاکستانیوں کو بھارتی فلموں کا شوق رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری نے بڑی تعداد میں فلمیں بنائیں جن کا واحد مقصد پاکستانی عوام کو متاثر کرنا تھا۔
جھوٹی خبریں، پروپیگنڈا، ڈس انفارمیشن جنگ و امن میں دشمن کے مورال کو تباہ کرنے کے ہتھیار رہے ہیں اور اگر ہم سرد جنگ کے دور کو دیکھیں تو موجودہ دور میں یہ دشمن ممالک کے لوگوں کی رائے سازی کے ذریعے دشمن کو اندر سے نقصان پہنچانے کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر سب کے لیے بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے جو چاہیں لکھنا یا بولنا آسان ہو گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جعلی، جھوٹی یا گمراہ کن معلومات خبر کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ جعلی خبروں کا مقصد اکثر کسی شخص یا ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچاناہوتا ہے۔ اگرچہ جھوٹی خبریں ہمیشہ سے تاریخ میں پھیلتی رہی ہیں، لیکن "جعلی خبروں" کی اصطلاح پہلی بار 1890 کی دہائی میں استعمال کی گئی جب اخبارات میں سنسنی خیز رپورٹیں عام تھیں-اس کے باوجود اس اصطلاح کی کوئی مقررہ تعریف نہیں ہے اور اس کا اطلاق خبر کے طور پر پیش کی جانے والی کسی بھی قسم کی غلط معلومات پر وسیع پیمانے پر کیا گیا ہے۔ اس کا استعمال ہائی پروفائل لوگوں نے ان کے لیے ناگوار خبر پر لاگو کرنے کے لیے بھی کیا ہے۔ مزید برآں، غلط معلومات میں نقصان دہ ارادے کے ساتھ غلط معلومات پھیلانا شامل ہوتا ہے-
بھارت نے مشرقی پاکستان کی آبادی کو قومی نظریے سے متنفر کرنے کے لیے میڈیا کا آلہ استعمال کیا۔ اس وقت میڈیا اخبارات، پمفلٹ، ریڈیو اور ٹی وی تھا جب کہ انسانی سطح پر مشرقی پاکستان میں ہندو اساتذہ اور ہندو برادری کے رہنما وہاں کے طلبہ کے نوجوان ذہنوں اور عام لوگوں کے سادہ دماغوں کو آلودہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ نتیجہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے ایک بار پھر ایسا ہی ہو رہا ہے اور اب جعلی خبروں، پروپیگنڈے اور غلط معلومات کا لانچنگ پیڈ سوشل میڈیا ہے جس میں فیس بک، یو ٹیوب، ٹویٹر، انسٹاگرام اور ڈیجیٹل ویب سائٹس بھی شامل ہیں۔
یورپی یونین کی ڈس انفو لیب پہلے ہی درجنوں بھارتی ڈیجیٹل میڈیا آئوٹ لیٹس کو بے نقاب کر چکی ہے کیونکہ پاکستان اور چین کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے جعلی سائٹس کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ہم اسی رپورٹ سے اس بات کا بہترین تجزیہ کر سکتے ہیں کہ جعلی خبریں اور پروپیگنڈا کیا ہے اور سوشل میڈیا کو دوسرے ملک کے خلاف اس قسم کی جنگ کے لیے کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا کے بڑے میڈیا ہائوسز سے ملتی جلتی ویب سائٹس بنا کر قارئین کو گمراہ کیا جا رہا تھا۔ یہ جعلسازی صرف قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اس پروپیگنڈے پر یقین دلانے کے لیے کی گئی تھی ۔
بھارت سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے لیے پوری طرح سرگرم ہے اور ہم جانتے ہیں کہ بھارتیوں کی اس میڈیا پر گرفت ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں میں بڑی تعداد میں بھارتی نمایاں عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ بھارت پاکستان کی سلامتی اور نظریے کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔ ہمیں دشمن سے کسی خیر کی توقع نہیں لیکن خود ہمیں کم از کم یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جو مواد ہمیں پیش کیا جا رہا ہے وہ کہیں ہماری قومی یکجہتی کے خلاف ہے یا اسے نقصان تو نہیں پہنچا رہا ۔ اگر یہ نقصان دہ ہے تو ہمیں اسے شیئر کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور ایسے مواد کی اطلاع ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کو دینی چاہیے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی تقسیم نے دشمن کا کام مزید آسان کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر 9 مئی کے بعد کا دور پاکستانیوں کے لیے کافی پریشان کن ہے۔ ہمارے کچھ مسائل ہیں ہم انہیں خوش اسلوبی سے حل کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر جو کچھ صرف سیاسی مفادکے لیے شیئر کیا جا رہا ہے وہ سراسر غیر ذمہ دارانہ اور ناقابل قبول ہے۔
نظریہ ہی کسی قوم کی اصل طاقت ہوتی ہے، اگر ہم نے اسے کھو دیا تو ہمیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا دشمن ہماری نظریاتی بنیاد جو کہ پاکستان ہے اور ہماری محافظ افواج پاکستان پر کاری ضرب لگانے کی پوری کوشش کررہا ہے۔ بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں جب پاکستان مادر وطن کی حفاظت کے لیے مختلف محاذوں پر برسرپیکار ہے توکچھ نادان عناصر سکیورٹی اداروں پر تنقیدکرنے میں مشغول ہیں اور اس طرح وہ اپنے ملک کی خدمت نہیں کررہے بلکہ دراصل دشمن ملک کے ناپاک عزائم کی خدمت کر رہے ہیں۔
سورة الحجرات میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''اے ایمان والو ! جب کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو تا کہ کسی کو بے جا تکلیف نہ دے بیٹھو اور پھر پچھتا تے نہ رہ جائو''خدا اور رسول کی یہ روشن اور خوبصورت باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں؟ ہم اگر اپنے اسلامی، معاشرتی اور اخلاقی روایات کی بنیاد پر اپنی نوجوان نسل کی تربیت یقینی بناپائیں تو اس معاشرے پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمارے نوجوانوں میں بہت توانائی ہے ، صرف انہیں درست سمت کی جانب گامزن کرنا ہے اور ہمیں یہ کام من حیث القوم کرنا ہے۔
مضمون نگار اسلام آباد میں اردو اخبار انگریزی ویب پورٹل اور میگزین کے ایڈیٹر ہیں ۔ وہ صحافت اور دفاعی امور پر لکھنے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے