15 اگست 1947 میں اپنی آزادی کے بعد سے بھارت نے خاصے طویل عرصے تک بڑی کامیابی سے دنیا کو یہ تاثر دیے رکھا کہ اس کے ہاں تمام طبقات اور شہریوں کو مساوی انسانی حقوق میسر ہیں اور اگر کہیں کسی اقلیت کے خلاف امتیازی سلوک کا کوئی واقعہ پیش آتا بھی ہے تو اس کی نوعیت بڑی حد تک انفرادی ہوتی ہے اور ایسے متشدّد ہندو عناصر کو حکومت یا اداروں کی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی۔عالمی برادری کا ایک حلقہ ان بھارتی دعوؤں پر آنکھیں بند کر کے بڑی حد تک یقین کرتا رہا مگر یہ امر خوش آئند ہے کہ اب دنیا بھر میں بھارتی مذموم روش پر کھل کر بات کی جانے لگی ہے۔ غیر ملکی سرزمین پر بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ٹارگٹڈ آپریشنز پر دی گارڈین کی رپورٹ ہو ،ہردیپ نجر کے سفاکانہ قتل سے متعلق آسٹریلیا براڈکاسٹنگ کمپنی کی ڈاکومینٹری ہو ، گجرات فسادات پر بی بی سی کی دستاویزی فلم ہو یا بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ کا اعترافی بیان، دنیا بھر میں بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اور عالمی امن پر اسکے اثرات پر کھل کر تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔
بھارتی حکمران نہ صرف کشمیریوں کے خلاف بھیانک انسانی جرائم میں ملوث ہیں بلکہ تمام عالمی ضابطوں اور بین الاقوامی قوانین اور روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک میں مسلح مداخلت کے بھی مرتکب ہوتے رہتے ہیں ۔16دسمبر 1971 کو پاکستان کو قوت اور سازشوں کے بل پر دو لخت کرنا ، 13 دسمبر 2001 میںبھارتی پارلیمنٹ پر خود ساختہ حملہ کرانا اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے پر مبنی من گھڑت خبروں کی ترویج اس امر کی سنگین ترین مثالیں قرار دی جا سکتی ہیں۔بھارت کے سبھی ہمسائے بشمول نیپال، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان ہمیشہ سے اس کی ریشہ دوانیوں کا شکار رہے اور بھارت کے اپنے ان تمام پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اکثر و بیشتر انتہائی کشیدہ رہے ہیں۔ ہر کوئی اچھی طرح جانتا ہے کہ سری لنکا بھارتی سازشوں کے نتیجے میں ہی بیس سال سے زیادہ عرصے تک خانہ جنگی کا شکار رہا اور ''تامل ٹائیگرز'' کے ذریعے دہلی کے حکمرانوں نے سری لنکا میں ہر طرح کی سازشوں اور تخریب کاریوں کو اپنا روزمرہ کا معمول بنائے رکھا اور یہ سلسلہ تاحال کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ 1988 میں بھارت سرکار نے جس طرح نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی کی، وہ اس خطے کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ اس کے بعد بھی نیپال میں 2015 میں ''مدھیشی'' باشندوں کے نام پر جس طرح نیپال کو تختہ مشق بنایا گیا وہ بھی مودی سرکار کے کارناموں کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ جون 2001 کے پہلے ہفتے میں بھارتی شہہ پر جس انداز میں نیپال کے شاہی خاندان کا تقریباً خاتمہ کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ چونکہ نیپال مکمل طور پر خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے اور اپنی تمام تر تجارت اور معیشت کے لیے بھارت کا محتاج ہے اور اپنے اس وصف کو بھارتی حکمرانوں نے نیپال میں دخل اندازی اور اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا ۔ مالدیپ کے صدر ''عبداللہ یامین'' کی حکومت کے خلاف بھارتی ایما پر بغاوت کا ڈرامہ رچایا گیا اور تاحال سازشوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مالدیپ میں اس سے پہلے بھی بھارت ایک سے زائد مرتبہ فوج کشی کا مرتکب ہو چکا ہے اور مالدیپ کی مختلف حکومتیں مثلاً کبھی ''مامون عبدالقیوم'' اور کبھی ''محمد نشید'' دہلی سرکار کا شکار بنتے رہے اور پھر سابقہ مشرقی پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھارت کا جو کردار رہا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ بھارت کے سبھی ہمسائے مودی سرکار کے توسیع پسندانہ عزائم اور جارحیت سے تنگ ہیں۔
بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہی، جوں جوں بھارتی حکمرانوں کے توسیع پسندانہ عزائم بڑھتے چلے گئے، بھارت نے دوسرے ملکوں کے اندورنی معاملات میں مداخلت اور وہاں تخریب کاری کے فروغ کو روش کے طور پر اپنا لیا۔ 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ مودی حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف مختلف محاذوں پر قتل و غارت گری شروع کر دی ۔ اب حال یہ ہے کہ ہندو دہشتگردوں کا جب دل کرتا ہے وہ مسلمانوں ، سکھوں ، عیسائیوں و دیگر مذہبی اکائیوں کے خلاف قتل و غارتگری میں مصروف ہو جاتے ہیں اور ان انتہا پسندوں کو بھلا ڈر بھی کس کا ہے؟ کیونکہ ان قبیح جرائم میں ملوث ہندوئوں کو اعلیٰ اعزازات اور انعامات سے نوازنا بی جے پی کی گویا پالیسی بن چکی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اس استبدادیت میں تمام بھارتی ادارے یکساں کردار ادا کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس تین مئی سے منی پور میں عیسائی کش فسادات جاری ہیں۔ آر ایس ایس کی طرف سے ہندو انتہا پسند میتئی قبائل کو منی پور میں بھرپور پشت پناہی حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج اور سکیورٹی فورسز بھی وہاں انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر مسیحیوں کے قتل عام میں مصروف ہے۔ اسی لیے منی پور کے عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں لوک سبھا الیکشن نہیں چاہیے، صرف امن چاہیے۔
سکھ ازم دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے۔ بھارت ہمیشہ اپنے طرزِ عمل سے ثابت کرتا آیا ہے کہ وہ ایک دہشتگرد ریاست ہے۔ سکھ مذہب کے پیروکاروں کو بھارت نہ صرف پنجاب میں بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر رہا ہے بلکہ انکے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے عالمی سکھ رہنمائوں کی ٹارگٹ کلنگ بھیبھارت کی روش بن چکی ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ سکھوں نے اس بھارتی استبدایت اور انتہا پسندی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ وہ انتہائی منظم انداز میں عالمی سطح پر '' خالصتان ریفرنڈم'' کا انعقاد کر رہے ہیں تا کہ سکھ اپنے مستقبل کے بارے میں یہ فیصلہ لے سکیں کہ انھیں بھارتی تسلط سے آزادی چاہیے یا بھارتی غلامی کو ہی اپنا مقدر مان لینا چاہیے۔ 18 جون 2023 کو کینیڈا کے صوبے ''برٹش کولمبیا'' میں سکھ فار جسٹس کے رہنما '' ہردیپ سنگھ نجر'' کو نامعلوم قاتلوں نے گردوارے کے باہر فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں انکشاف کیا کہ ہردیپ نجر کا قتل بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ایما پر کیا گیا۔ اسی طرح 15 جون 2023 کو برمنگھم میں انڈین ایجنٹس نے سکھ رہنما اوتار سنگھ کھنڈا کو زندہ رہنے کے بنیادی انسانی حق سے محروم کر دیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ انڈین سی آر پی ایف نے نیو یارک میں' سکھ فار جسٹس' کے سربراہ گرپتونت سنگھ پنوں کی ٹارگٹ کلنگ کی بھرپور سازش کی۔ نکھل گپتا نامی ہرکارے کے ذریعے ایک لاکھ ڈالر میں پنوں کی موت کا سودا کیا گیا مگر امریکی خفیہ ایجنسیوں نے اس منصوبے کو پروان چڑھنے سے پہلے ہی بے نقاب کر دیا ۔ آسٹریلیا براڈکاسٹنگ کمپنی نے ہردیپ نجر و دیگر کے قتل پر باقاعدہ دستاویزی فلم ریلیز کی جسے مودی سرکار نے فی الفور دیگر حقائق پر مبنی رپورٹس اور دستاویزی فلموں کی مانند بین کر دیا۔
بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کی سازشوں اور جارحیت پر بین الاقوامی برادری میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ اسی تناظر میں برطانوی روزنامے' دی گارڈین' نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی حکومت پاکستان میں مختلف افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت نے نہ صرف غیر ملکی سرزمین پر مختلف افراد کو قتل کیا، بلکہ بھارتی میڈیا فخریہ طور پر اسکا کریڈٹ بھی لیتا رہا۔ دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق 2020کے بعد سے بھارت نے بیرون ملک 20 افراد کو قتل کیا۔عالمی جریدے نے یہ انکشاف بھارتی اور پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کیا اور ہردیپ نجر، اوتار سنگھ کے قتل اور گرپتونت سنگھ پنوں کی ٹارگٹ کلنگ کی سازش کا ذکر بھی کیا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس رپورٹ کے ردعمل میں نیوز 18 کے ایڈیٹر انچیف راہل جوشی کو انٹرویو دیا جس میں انھوں نے فخریہ طور پر اعتراف کیا کہ بھارت پاکستان میں لوگوں کو قتل کروارہا ہے اور مودی سرکار اپنی اس روش کو جاری رکھے گی۔ بھارت کا پاکستان و دیگر ممالک میں ٹارگٹ کلنگ کا دعویٰ واضح طور پر اعتراف جرم اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
سنجیدہ حلقوں کے مطابق بھارت میں 2014 سے آر ایس ایس برسراقتدار ہے۔ بالفرضِ محال اگر پاکستان میں کوئی مذہبی جماعت کبھی انتخابات میں جیت جاتی تو دنیا بھر کا میڈیا اور سبھی تجزیہ نگار قیاس کے ایسے ایسے گھوڑے دوڑا رہے ہوتے جنہیں دیکھ اور سن کر یوں لگتا گویا زمین پھٹ گئی ہو یا آسمان گر پڑا ہو اور اس صورتحال میں عالمی امن کو درپیش بے شمار خطرات کی نشان دہی سامنے آ چکی ہوتی مگر اسے عالمی رائے عامہ کی چشم پوشی کہیں یا تجاہلِ عارفانہ کا نام دیا جائے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند جماعت بھاری اکثریت سے چھٹی بار اقتدار میں آنے کے لیے پر تول رہی ہے مگر عالمی امن کے ٹھیکیدار حلقوں نے اس حوالے سے ذرا سی بھی تشویش ظاہر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔اس صورتحال کو بین الاقوامی مؤثر قوتوں اور عالمی رائے عامہ کے دوہرے معیاروں کے علاوہ غالباً کوئی بھی نام نہیں دیا جا سکتا ۔یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ RSS نے 1925 میں اپنے قیام سے لے کر آج تلک اس مؤقف کو کبھی راز نہیں رکھا کہ اس کا ہدف برِصغیر جنوبی ایشیاء کو اکھنڈ بھارت میں تبدیل کرنا اور یہاں رام راجیہ قائم کرنا ہے۔ آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی نے بھی خود کو کبھی ہندو انتہا پسندی کے نظریات سے لا تعلق قرار نہیں دیا بلکہ اس کا ہمیشہ سے ہی اعلانیہ مؤقف رہا ہے کہ بھارت کی تقسیم اور پاکستان کا قیام ایک سیاسی حادثہ تھا جسے قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ایسے میں دنیا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ یہی وقت ہے کہ عالمی قوتیں مودی حکومت کو ان سنگین انسانی جرائم کے لیے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔
مضمون نگار ایک اخبار کے ساتھ بطور کالم نویس منسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے