سپاہی محمد گلفام مقصود شہید کے بارے میں نسیم الحق زاہدی کا مضمون
دفاع وطن کی خاطر مرمٹنے کا جذبہ رکھنے والوں کو موت کے خوف سے ڈرایا نہیں جاسکتا اورجو دھرتی ایسے بیٹوں سے زرخیز ہو اس پر کبھی آنچ نہیں آسکتی ،سپاہی محمدگلفام مقصود بھی وطن کا ایک ایسا فرزند ہے جو ناموس وطن پر قربان ہوگیا۔ گلفام مقصود 25اپریل 1996ء کو فیصل آبادکے ایک گائوں چک نمبر 271رب بھڑولیانوالہ میں پیدا ہوئے ۔وہ اپنے چار بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے ،ان کے بڑے بھائی بشارت حمید بتاتے ہیں کہ والد روزگار کے سلسلہ میں گذشتہ پچیس سال سے ملک سے باہر ہیں۔ محمد گلفام مقصود نے ابتدائی تعلیم پرائمری تک ،گورنمنٹ پرائمری سکول گائوںبھڑولیانوالہ سے حاصل کی کیونکہ یہاں پرائمری تک ہی سکول تھا ،اس کے بعد قریبی قصبہ جالندھرکے گورنمنٹ ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔پھر ڈجکوٹ کے گورنمنٹ کالج سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔شہیدکے بڑے بھائی بتاتے ہیں کہ وہ کبڈی کے بہترین کھلاڑی تھے اور سارا علاقہ ان کو گلوبھائی کے نام سے جانتا تھا۔ان کو بچپن ہی سے پاک فوج میں جانے کاجنون کی حد تک شوق تھا جس کے حصول کے لیے وہ کبڈی کھیلتا تھا تاکہ جسمانی طور پر فٹ رہے اور میدان جنگ میں دشمن سے خوف زدہ نہ ہو بلکہ دشمن کو دبوچ سکے ۔
ایف اے کرنے کے بعد جب اسے پاک فوج میں بھرتیوں کے شروع ہونے کے متعلق معلوم ہوا تو وہ فوراً آرمی سلیکشن سنٹر فیصل آباد پہنچ گیا جہاں وہ اپنے بہترین قد کاٹھ اور اچھی جسامت ہونے کی وجہ سے سلیکٹ ہوگیا اور اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئی ۔30جولائی 2015ء کو وہ ٹریننگ کے لیے ایبٹ آباد چلا گیا ،وہ پہلی بار گھر سے اتنا دور جارہا تھا، سب خوش بھی تھے مگر اداس بھی ،والدہ نے بڑی ہمت کرکے ان الفاظ کے ساتھ کہ'' میری حفاظت اور عزت سے زیادہ وطن کی حفاظت اور عزت ضروری ہے اور پہلا حق تجھ پر اس وطن کا ہے''انہیں روانہ کیا ۔جہاں سے انہوں نے اپنی ٹریننگ مکمل کی ۔ بشارت حمید بتاتے ہیں کہ محمد گلفام بچپن سے بڑا جوشیلا اور نڈر انسان تھا ۔2016میں انہوں نے لائٹ کمانڈوکی ٹریننگ بھی حاصل کی دوران ٹریننگ پیراگلائیڈنگ کرتے ہوئے زخمی بھی ہوئے مگر اس کے باوجود بھی اپنی ٹریننگ مکمل کی ۔سب گھر والوں کے اصرار پر سپاہی محمد گلفام کی 17دسمبر 2017ء میں شادی ہوگئی تھی،ان کی تین بیٹیاں ہیں۔
سپاہی محمد گلفام 2020تک ابیٹ آباد میں ڈیوٹی دیتے رہے ۔ان کے بھائی بتاتے ہیں کہ وہ جب بھی فون کرتے تو ایک ہی بات کرتے کہ وطن کی حرمت کے لیے زندہ رہنا اور اپنے لیے زندہ رہنے میں زمین آسمان کافرق ہے اور اصل زندگی تو وطن کے لیے زندہ رہنے میں ہے ۔وہ پانچ وقت کا نمازی تھا اس کی ہمیشہ ایک ہی دعا ہوتی تھی کہ'' اللہ تعالیٰ آپ نے شان والی زندگی دی ہے تو موت بھی شان والی دینا''۔ اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے وہ اپنی یونٹ میں ہردل عزیز انسان تھا اور سب ساتھی اسے Buddyکہہ کر پکارتے تھے۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ محمد گلفام نے فون پر انہیں بتایا کہ ان کی یونٹ کو کراچی بھیجا جارہا ہے ۔ فیصل آباد موٹروے انٹر چینج پر میری ان سے اور ان کی یونٹ سے ملاقات ہوئی ،ان کے بارے میں ان کے ساتھیوں اور سینئرز کے تعریفی جملے سن کر اتنی خوشی ہوئی کہ جنہیں الفاظ کا پیرہن پہنانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔مئی 2023ء تک وہ اپنی یونٹ کے ساتھ کراچی میں ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے ۔وہ جب بھی گھر فون کرتے تو والدہ سے کہتے کہ ان کے لیے شہادت کی دعا کیا کریں جس پر والدہ کہتیں کہ :بیٹا !اللہ تعالیٰ تجھے بڑی عزتوں سے نوازے گاانشاء اللہ ۔فون بند ہونے کے بعد والدہ کافی دیر تک روتی رہتیں اور کہتیں کہ :اے اللہ میں ہمیشہ تیری رضا پہ راضی ہوں ،میرے گلو کی ہر خواہش پوری کرنا ۔بیٹیوں کا باپ کے ساتھ زیادہ پیار کرنا ایک فطری عمل ہے، ان کی بیٹیاں اپنے والد سے بے حد محبت کرتی تھیں دوسرے نمبر والی بیٹی تو جب وہ چھٹی پہ گھر آتے تو ان کے ساتھ چمٹی رہتی، جب وہ واپس چلے جاتے تو کئی کئی دن بیٹی کی طبیعت خراب رہتی ۔
صوبہ بلوچستان میں دہشت گردوں کی سرکوبی کی غرض سے ان کی لائٹ کمانڈو بٹالین کوبلوچستان بھیج دیا گیا۔شہید کے ساتھی بتاتے ہیں کہ 27جولائی کی شام جب پتا چلاکہ سپیشل آپریشن پر جانا ہے تو اس نے غسل کیا، نوافل ادا کیے اور ہمیں کہنے لگا کہ زندگی کا کیا بھروسہ ہے انسان کو ہروقت پاک صاف رہنا چاہیے ،اور کیا پتا یہ میراآخری غسل ہو۔ اس کے بعد آپریشن پر چلے گئے۔ان کے بھائی بشارت حمید بتاتے ہیں کہ ان دنوںمحمد گلفام تقریباً روزانہ ہی کال کرتے تھے جو سگنلز پرابلم کی وجہ سے کئی بارمنقطع ہوتی تھی۔سب سے بات کرتے مگر بالخصوص والدہ سے طویل بات کرتے ۔ آخری کال مجھے انہوں نے شہادت سے چند گھنٹے پہلے 28جولائی 2023ء کو کی جو کہ سگنلز کی وجہ سے کئی بار منقطع ہوئی ، کہنے لگا کہ بھائی والدہ کو حوصلہ دینا اور بچوں کا خیال رکھنااور رونا ہرگز نہیں کیونکہ مسلمان شہدا کا ماتم نہیں کرتے۔عین ممکن ہے کہ یہ میری آخری کال ہو۔اسی رات شادی کورڈیم سے تین کلو میٹر دور ان کو دہشت گردوں کی موومنٹ کی اطلاع ملی ،سپاہی محمد گلفام اپنی پارٹی کے ساتھ دہشت گردوں کا تعاقب کرنے لگا ۔آگے پانی کا نالہ تھا ،اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ پہلے میں نالہ کراس کرکے دہشت گردوں کو آگے سے روکتا ہوں ،نالہ میں ایک بہت گہری کھائی تھی ، محمدگلفام اس گہری کھائی میں گرنے اور سر پر چوٹ آنے کی وجہ سے جام شہاد نوش کر کے ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ان کے ساتھی ان کو ڈھونڈتے رہے،دوتین گھنٹوں کی کڑی کوشش کے بعداُن کا جسد خاکی ملا ۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ ہمیں28جولائی کو صبح اطلاع ملی تومیں نے والدہ کوبتایا کہ ہمارا گلو شہید ہوگیا ہے تو والدہ نے کمال ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ کا شکرادا کیا۔ چند منٹوں میں یہ خبر پورے گائوں میں پھیل گئی ،ہر آنکھ اشک بار تھی ۔بڑی بیٹی زویا گلفام جس کی عمر پانچ سال ہے،اُس وقت سو کراٹھی تھی جب اسے علم ہوا کہ اس کے ابو شہید ہوگئے تو وہ روتے ہوئے کہنے لگی کہ میرے ابو مجھے ابھی خواب میں ملے ہیں وہ ایک بڑی خوبصورت جگہ پر ہیں اور کہہ رہے تھے کہ تم تینوں میری بیٹیاں نہیں بلکہ بیٹے ہو اور تم چھوٹی بہنوں کا خیال رکھنا ،اپنی ماما،داداابواوردادی اماں کا خیال رکھنا ،میں روز تم سے ملنے آئوں گا۔ 29جولائی 2023کودوپہردوبجے کے قریب شہیدکا جسد خاکی سبز ہلالی پرچم میں لپٹے ان کے آبائی گائوں چک نمبر 271رب بھڑولیانوالہ لایا گیا۔ پورے علاقے نے پھولوں کی پتیوں سے اس کا استقبال کیا اور بعد نماز عصر آپ کے جسد خاکی کو سیکڑوں سوگواران کی موجودگی میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
مضمون نگارمختلف قومی اخبارات اور رسائل کے لیے لکھتے ہیں اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے