مقبوضہ جموں و کشمیر ہمیشہ شہ سرخیوں میں رہتا ہے۔ جنت نظیر وادی اسی لائق ہے کہ وہ عوام کی توجہ حاصل کرے، لوگ اس کی خوب صورتی کے گن گائیں اور اس وادی کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ لیکن مقبوضہ کشمیر کو اس کی خوب صورتی یا قدرتی حسن سے زیادہ اس کے ساتھ روا رکھے گئے غیر منصفانہ سلوک اور ظلم و جبر کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے اور ظلم کی یہ داستان پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل شروع ہوتی ہے۔
کشمیریوں کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ پہلے کی طرح اب بھی ریاستی باشندوں کی منشا کے برعکس ہو رہا ہے۔ اول انگریزوں نے 1846 میں کشمیریوں کو ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کیا۔ بعدازاں 1947 میں ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیریوں کی خواہش کے برخلاف جموں و کشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔ اب ایک مرتبہ پھر بھارت نے کشمیریوں سے ان کی رائے پوچھیبغیر جموں وکشمیر کو مرکز کے ماتحت کردیا۔
بدقسمتی سے کشمیر وہ خطہ ہے جہاں طویل عرصہ سے اقلیت اکثریت پر حکومت کر رہی ہے۔ اول جموں کے ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی پر راج کیا۔ 1930 میں مسلمانانِ کشمیر نے اپنے ساتھ روا رکھے گئے غیر منصفانہ سلوک پر ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک شروع کی تھی۔اس تحریک کو 1947 میں ایک نئے موڑ سے اس وقت واسطہ پڑا جب انگریزوں نے ہندوستان سے اپنی اجارہ داری ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان و بھارت وجود میں آئے۔ اس موقع پر کشمیری مسلمانوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش ظاہر کی۔ کشمیری مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس نے اس سلسلے میں قراردادالحاق پاکستان بھی منظور کی تھی۔ تاہم اس کے مدمقابل نیشنل کانفرنس نے بھارت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا۔
اگست2019 میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو بھارتی آئین کے آرٹیکل370کی صورت میں حاصل خصوصی حیثیت ختم کی تو اس موقع پر کہا جا رہا تھا کہ یہ فیصلہ متعصب بی جے پی حکومت کا ہے۔ اس غیر منصفانہ اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے سے کشمیریوں کو ان کی خصوصی حیثیت میں رعایت مل جائے گی۔ لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے تمام قیاس آرائیاں اپنے اس فیصلے سے ختم کردیں جس میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل370 آئین کی عارضی شق تھی اور جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑنے کہا کہ جموں و کشمیر کی بھارت کی دیگر ریاستوں سے علیحدہ کوئی اندرونی خودمختاری نہیں ہے۔ گویا کہ بھارتی حکمرانوں کے بعد بھارت کے منصفوں نے بھی کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی توثیق کرتے ہوئے کشمیریوں کے ساتھ 1947 میں کیے گئے فریب کو واضح کردیا ہے۔
کشمیریوں کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ پہلے کی طرح اب بھی ریاستی باشندوں کی منشا کے برعکس ہو رہا ہے۔ اول انگریزوں نے 1846 میں کشمیریوں کو ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کیا۔ بعدازاں 1947 میں ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیریوں کی خواہش کے برخلاف جموں و کشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔ اب ایک مرتبہ پھر بھارت نے کشمیریوں سے ان کی رائے پوچھے بغیر جموں وکشمیر کو مرکز کے ماتحت کردیا۔
واضح رہے کہ اکتوبر1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کیا تھا، جو سراسر متنازع تھا، تاہم یہ الحاق بھی اندرونی خودمختاری کی قیمت پر کیا گیا تھا کہ دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کشمیر حکومت داخلی امور میں خودمختار ہوگی۔ بعدازاں جب بھارت کا آئین بنایا جا رہا تھا تو شیخ عبداللہ نے اندرونی خود مختاری یا جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے لیے بھارتی حکمرانوں سے مذاکرات کیے تھے۔ بھارت کے آئین میں آرٹیکل370 اسی کا تسلسل تھا۔ بھارت نواز کشمیری سیاست دان آرٹیکل370 کی بنیاد پر ہی سیاست کیا کرتے تھے اور اپنی خصوصی حیثیت کا حوالہ دے کر بھارت کو ترجیح دیتے تھے۔ تاہم بھارت نے کشمیری سیاست دانوں کو ہمیشہ مایوس کیا اور ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی کبھی پاسداری نہیں کی۔ اول شیخ عبداللہ کو 1953 میں اقتدار سے بے دخل کرکے جیل میں ڈالا گیا اور آئندہ بیس برس تک حکومت سے باہر رکھا گیا۔ 1975 میں شیخ عبداللہ نے ایک مرتبہ پھر بھارت کے ساتھ معاہدہ کیااورمقبوضہ کشمیر کی حکومت حاصل کی۔ بعدازاں ان کے صاحب زادے فاروق عبداللہ، جنہوں نے کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کی بنیاد پر بھارت نوازی کی سیاست اپنے والد سے وراثت میں پائی تھی، وہ سپریم کورٹ کے حالیہ مقدمے میں درخواست گزار بھی تھے، ان کو بھی بھارت کے حکمرانوں اور منصفوں نے ایک مرتبہ پھر مایوس کردیا۔
اگست2019 میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو بھارتی آئین کے آرٹیکل370کی صورت میں حاصل خصوصی حیثیت ختم کی تو اس موقع پر کہا جا رہا تھا کہ یہ فیصلہ متعصب بی جے پی حکومت کا ہے۔ اس غیر منصفانہ اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے سے کشمیریوں کو ان کی خصوصی حیثیت میں رعایت مل جائے گی۔لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے تمام قیاس آرائیاں اپنے اس فیصلے سے ختم کردیں جس میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل370 آئین کی عارضی شق تھی اور جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔
2019 میں خصوصی حیثیت کے خاتمے اور حالیہ طور پر بھارت کی سپریم کورٹ کی جانب سے اس کی توثیق کے فیصلے سے کشمیریوںمیں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ بھارتی سپریم کورٹ نے سلامتی کونسل کی قرار داد کی بھی دھجیاں اڑا دی ہیں کیونکہ اس وقت سلامتی کونسل میں یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ جموں وکشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ریاستی باشندے آزادانہ رائے شماری کے ذریعے کریں گے۔ لیکن بی جے پی کی حکومت اور بعدازاں بھارتی سپریم کورٹ نے بھی کشمیری باشندوں کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی، بلکہ یک طرفہ طور پر بھارت کی مرکزی حکومت کی جانب سے کشمیریوں کے مستقبل کے بارے میں کیے گئے فیصلے کو درست قرار دے دیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نام نہاد قانون ساز اسمبلی ماضی میں ہوا کرتی تھی، حالیہ فیصلے نے ثابت کیا کہ اس اسمبلی کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل370 کی صورت میں جو خصوصی حیثیت دی تھی، کشمیری حریت پسندوں نے اس کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ بھارت ایک قابض ملک ہے، جموں و کشمیر پر قانونی طور پر کبھی اس کا تصرف قائم ہی نہیں ہوا، لہٰذا بھارت جموں و کشمیر کو کسی بھی قسم کا اسٹیٹس دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔تاہم یہ پہلو اہمیت کا حامل ضرور ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیرکو جو خصوصی حیثیت حاصل تھی، اس کی وجہ سے مقامی طور پر جموں و کشمیر کا آبادیاتی تناسب بڑی حد تک محفوظ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ہمیشہ سے جموں و کشمیر کے لیے خصوصی حیثیت کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ نریندر مودی 2019 میں جب دوسری مرتبہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے اپنی اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سب سے پہلا وار جموں وکشمیر پر کیا۔ آرٹیکل370 اور 35A کی منسوخی کے نتیجے میں بھارت کے لیے جموں و کشمیر کا آبادیاتی تناسب بگاڑنا آسان ہوگیا ہے۔ اب وہاں غیر ریاستی باشندے بھی بعض شرائط کی بنیاد پر ڈومیسائل حاصل کرسکتے ہیں اور جائیداد بھی خرید سکتے ہیں۔ ماضی میں اسرائیل نے اس پالیسی کو فلسطین میں اپنایا تھا۔ اب وہاں حال یہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کی آبادیاں سکڑ گئیں اور اسرائیل رفتہ رفتہ فلسطین کے ایک بڑے حصے میں اپنی آباد کاری کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ بھارت گزشتہ پچاس سال سے مسئلہ کشمیر کے تناظر میں ہمیشہ شملہ معاہدے کا حوالہ دیتا رہا ہے جس میں پاکستان اور بھارت نے طے کیا تھا کہ کشمیر سمیت تمام مسائل باہم بات چیت سے حل کریں گے۔بھارت دنیا کے سامنے اس کی یہ توضیح پیش کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل سمیت کوئی بھی تیسرا فریق بات نہیں کرسکتا، یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان مل کر حل کریں گے۔ تاہم 2019 میں بھارت نے نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بلکہ شملہ معاہدے کو بھی بالائے طاق رکھ کر یک طرفہ فیصلہ کیا۔ گویا کہ بھارت جس طرح 1947 سے کشمیریوں کو دھوکہ دیتا آ رہا ہے، اسی طرح عالمی برادری کو بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرنے سے باز رکھنے کے لیے گمراہ کرتا رہا ہے، تاکہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر اس کا ناجائز قبضہ برقرار رہے۔ اب حال یہ ہے کہ بھارت جموں وکشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دے رہا ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے کر کشمیری باشندوں کے حق خود ارادیت کی توہین کی ہے۔
اس قدر ناروا سلوک کے باوجود سلامتی کونسل اس معاملے میں حیران کن طور پر خاموش ہے۔ عالمی برادری بھی اس جانب متوجہ نہیں ہو رہی۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں مقامی کشمیریوں کو اپنے حق کے لیے بولنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ حریت پسند قیادت ریاست سے باہر بھارت کی جیلوں میں قید ہے۔ حریت پسند نوجوانوں اور کارکنوں کو مختلف حراستی مراکز میں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اخبارات اور مقامی ذرائع ابلاغ سخت ترین پابندیوں کی زد میں ہیں۔بڑی جمہوریت کے دعوے دار بھارت کا مکروہ چہرہ دیکھیے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت نواز سیاست دانوں کے لیے بھی سیاسی کردارادا کرنا شجرِ ممنوعہ بن چکا ہے۔ اس صورت حال کو بھارت کشمیر میںامن سے تعبیر کر رہا ہے۔مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں بھی یہ بیان حلفی جمع کروایا تھا کہ آرٹیکل370 کے خاتمے سے کشمیر میں امن اور ترقی کا دور شروع ہوگیا ہے۔ ان حالات میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سلسلہ روکنے اور کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلانے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ دنیا کے سامنے بھارت کے پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا جائے۔ اگر بھارت کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالی گئی تو مقبوضہ جموں وکشمیر کی مسلم آبادی بھی مقبوضہ فلسطین کی طرح سکڑ کر رہ جائے گی۔
مضمون نگار مصنف، محقق اور صحافی ہیں، جامعہ کراچی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
[email protected]
تبصرے