تیشۂ کرب سے معاشرے کو سکون مہیا کرنے والا مزدور فکرِ اقبال کے تناظر میں!
شاعرِ مشرق، ترجمانِ حقیقت، اقلیم سخن، حضرت ڈاکٹرعلامہ محمداقبال
(1877ء تا1938 ئ) کے افکارِ دلپذیر ہر دور میں رہنمائی کا باعث ہیں۔ اُنھوں نے عشقِ حقیقی کی حرارت سے قرآنی تعلیمات کو سپردِ قرطاس و قلم کر کے اپنی شاعری کے انمول نگینے ہمیں عطاء کیے ہیں۔ اقبال کی نثر میں اسلامی جذبے کارفرما ہیں۔ عقیدہ خاتم النبیینۖ کا اظہار عالمِ تخیل میں ہمیشہ زندہ و پائندہ نظر آتا ہے ۔ سرود و سوز و مستی ، جمالِ عشق ، تسلیم و رضا ، عشق و محبت اور فکرِ فردا اُن کے کلام کی سرشت کا حصہ ہیں۔ اُن کے افکار مسلمانوں کے لیے حاصلِ حیات ہیں۔ جہدِ مسلسل ، یقینِ محکم، عملِ پیہم ، دل کی کیفیت و کمیت کے بل بوتے پر اقبال نے آنے والے کل کو بہتر بنانے کے لیے مختلف نکات پیش کیے ہیں۔
اس حیاتِ مستعار کا مقصد تسخیرِ کائنات ہے ۔ زندگی کے سفر میں اپنے دست و بازو سے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا پیغام اُن کے کلام کی کنجی ہے۔
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صداے کن فیکوں!
اقبال زندگی کو مسلسل ریاضت کا نام دیتے ہیں۔ وہ تازہ بستیاں آباد کرنے کی خواہش کے لیے جہانِ تازہ کی حقیقتوں سے آشنائی کا پیغام عام کرتے ہیں۔ ''محنت ''اقبال کا تیشۂ حقیقت ہے ۔ وہ محنت کے بل بوتے پر تسخیر کائنات پر یقین رکھتے ہیں۔ مزدورروزگار کی زلفیں سنوارنے کے لیے جو جدوجہد کرتاہے ، اقبال اُسے'' کیمیائے حیات'' قرار دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک آہ ِصبح گاہی کی تکمیل کے لیے محنت ِ شاقہ بہت ضروری ہے ۔ وہ فطرت کو بے ذوق نہیں سمجھتے بل کہ تکمیلِ کائنات کے لیے خوب سے خوب تر کے خواب دیکھتے ہیں۔ اُن کا پیغام محنت کشی ہے ۔ اپنے حصے کی ذمہ داریاں ادا کرنا بہت بڑی مزدوری ہے ۔ جب ہم خلوصِ نیت سے محنت کرتے ہیں تو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے عمل سے گزرتے ہیں۔
مزدور کی انتھک محنت سے کائنا ت کا نظام جاری و ساری ہے ۔ دنیا کے دانشوروں اور مفکرین نے کسی نہ کسی طور کائنات کے اس طبقے کی کاوشوں کو سراہا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارا کاروبارحیات مزدور کے کندھوں پر استوار ہے ۔ اسلام نے دستکار کو اللہ کا دوست قراردیا ہے ۔ کارخانوں ، ملوں،سڑکوں، کوٹھیوں، محلاتِ شاہی، بلند و بالا عمارتوں اور ایسے ہی تعمیری کاموں میں خون پسینہ بہانے والوں کی وجہ سے رونقِ بزمِ نگاراں قائم دائم ہے ۔ مزدوروں کے حوالے سے بہت سے مضامین رسائل و جرائد اور اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن قرار دے کر ہمارے اذہان پر دستک دی ہے کہ ہم مزدوروں سے یکجہتی کا اظہار کریں۔ اُن کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشش کریں۔ مفکرِ اسلام ، مصورِ پاکستان، مبلغِ حق ، حضرت ڈاکٹر علامہ محمدا قبال نے اپنے افکار میں مزدور کی قدر و منزلت کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ۔اقبال آنے والے کل کو آج سے بہتر دیکھنے کے خواہاں رہے۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ اُن میں انقلاب کی خو موجود تھی۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں انقلابی ترقی کا پیغام دیتے رہے۔ یہ انقلاب محنت کے بغیر ناممکن ہے ۔ اُنھوں نے اپنی شاعری اور نثر میں تمام شعبہ ہائے فکر کو نوید نو عطا کی ہے۔ وہ مغرب کی اخلاقی پستی اور بے راہ روی کے خلاف لکھتے رہے لیکن اہلِ مغرب کی سخت کوشی اور جذبۂ محنت کو سراہتے رہے۔ اُنھوں نے یورپ میں گزارے ہوئے لمحات کو اپنے افکار کی زینت بنایا۔ وہ سمجھتے تھے کہ قومی زندگی میں محنت کامیابی کی کنجی ہے۔وہ اہلِ مغرب کی تعمیری ترقی کے خوشہ چیں رہے۔ اگر بنظر عمیق ہم فکرِ اقبال کا مطالعہ کریں تو اسلام ، انسان ، کائنات اور خودی اُن کے خاص موضوعات ہیں۔سحر خیزی اور قرآن حکیم کی تلاوت اقبال کے معمولات میں سرِ فہرست ہیں ۔اقبال کے نزدیک قرآنی تعلیمات میں ہی دنیا و آخرت کی کامیابی مضمر ہے ۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے ہاں مزدور کی عظمت کا پورا ادراک موجود ہے ۔ آج بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں محنت' مزدوری اور مشقت کا چارٹر پوری دنیا میں زندہ ہے۔روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا نعرہ لگاتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ایک ضابطۂ حیات کے گرد گھومتے ہیں۔جس طرح درخت خود دھوپ میں جلتا ہے لیکن دوسروں کو چھائوں عطاء کرتاہے ۔
اِسی طرح سنگلاخ چٹانیں توڑنے والا مزدور ہمارے لیے سامان تعیش فراہم کرتاہے اور خود محنت کو سینے سے لگائے رکھتا ہے ۔ وہ تیشۂ کرب سے ہمیں سکون کی دولت عطاء کرتاہے۔ ڈاکٹر علامہ محمدا قبال کے افکار کا عمیق مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اقبال برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی پسماندگی کا ادراک رکھتے تھے وہ اُن کی حالتِ زار بہتر بنانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ مسلمان مزدوروں کی وجہ سے تاج محل نے شہرت پائی ۔ مغلیہ دور میں ہونے والی تعمیرات میں نقش ہائے مزدور آج بھی موجود ہیں۔ اسلام آباد کی کئی عمارتوں میں مزدوروں کے نقوشِ دست ہمیں ان کی مہارت سے حیران کر دیتے ہیں۔اہلِ مغرب کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ اُنھوںنے مزدور کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ مادیت میں گم مغرب نے مزدوروں کا استحصال کیا ہے ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے غریب مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا وہ تحریکِ آزادی کا ایک باب ہے ۔ تاجدارِ ختم نبوت ، محسنِ انسانیت ، محمد مصطفی ۖ ، غرباء کے ساتھ رہے ۔ غربت میں زندگی گزاری اور محشر میں بھی غریبوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی بشارت دی۔
اسلام نے مزدور اور آجر کے حقوق و فرائض کا تعین کیا ہے ۔رونقِ کائنات ، سرورِ کائنات، مبدائے کائنات، احمد مجتبیٰ ۖ نے فرمایاجس کا مفہوم کچھ یوں ہے'' مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو اور کسی کو کام پر لگا نے سے پہلے اس کی اجرت بتا دو'' قرآن و حدیث میں محنت کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ۖ خود محنت کیا کرتے تھے اور دوسروں کو محنت کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔آپ ۖ کی حیاتِ طیبہ میں خود انحصاری اور خود احتسابی کا عمل ہمیشہ دوسروں کے لیے باعثِ تقلید رہا۔ آپ ۖ محنتی صحابۂ کرام کی قدر دانی فرماتے تھے۔آپ ۖ کی زندگی کے متعدد واقعات میں دستکار کی حوصلہ افزائی ملتی ہے ۔ جنگ خندق کے موقع پر آپ ۖنے خود بھی خندق کی کھدائی میں حصہ لیا۔ سفر کے وقت اپنی باری کے وقت سواری کی اور پیدل چلنے کے وقت پیدل سفر کیا ۔ آپۖ کردار وعمل کے پیکر تھے۔ آپۖ کی زندگی کا ایک اک لمحہ عالم انسانیت کے لیے قابل تقلید و عمل ہے۔ تاجر ہو یا مزدور' حاکم ہو یا محکوم' سپہ سالار ہو یا سپاہی' استاد ہو یا طالب علم گویا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو ' فخر دو جہاںۖ کی سیرت ہمارے لیے قابل عمل ہے۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبالکے افکار ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارے لیے رہنمائی کرتے ہیں۔ اقبال کا پیش کردہ اخلاقی ، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور معاشی نظام آج بھی تقلید کے قابل ہیں۔ شاعری کے علاوہ اُن کے نثری مضامین ، خطبات، اور مکالمات ہر دور میں ہماری نمائندگی کرتے ہیں۔ مزدور خواہ کسی بھی شعبہ میں ہو قومی ترقی کے لیے اُن کا کردار مسلمہ حقیقت ہے ۔ ڈاکٹر اقبال کا خیال ہے کہ اسلامی ریاست معاشی ترقی کے بغیر فعال نہیں ہو سکتی۔ معیشت قومی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ 1893ء سے 1902ء تک اقبال کے شعوری ارتقاء کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اُنھوںنے مسلمانوں کے زوال کا بغور مطالعہ کیا ۔ ایک قابل ڈاکٹر کی طرح مرض کی تشخیص کی اور پھر اس کا علاج بھی تجویز کیا۔ اسی تناظر میں اُنھوں نے 1904ء میں ''علم الاقتصاد'' تحریر کی۔ یہ کتاب پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے قابلِ عمل منشور ہے ۔ دور جدید کے ماہر ین اقتصادیات کو اقبال کے پیش کر دہ نظریات سے استفادہ کرنا چاہیے ۔ ہمارے ہاں اقتصادی پالیسیاں وہ لوگ تیار کرتے ہیں جنھیں ان کا تجربہ نہیں ہوتا ۔اقبال اور مزدور ایک اہم موضوع ہے جس کے بارے میں اقبال کی شاعری اور نثر میں بہت کچھ مل جاتا ہے ۔ اقبال کی '' عِلم الاقتصاد '' محنت ، زمین ، آبادی ، منصوبہ بندی ، افراط زر ، بچت اور ٹیکس کے گرد گھومتی ہے۔ اقتصادی پہلو سے صرف نظر کرنا بہت بڑی قومی غلطی ہے۔ مزدور کی خوشی سے ہی ہم قومی سرخوشی حاصل کر سکتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے پرچم تلے ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن تزک و احتشام کے ساتھ منایا جا تاہے۔ دنیا بھر میں جلسے جلوس منعقد کیے جاتے ہیں اور تجدیدعہد کے نعرے بھی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یہ دن دراصل ان مزدوروں اور محنت کشوں کی یاد دلاتا ہے جنھوں نے شگاگو میں 1886ء کو اپنے مطالبات منوانے کے لیے اپنے خون کا نذرانہ دیا۔ چند محنت کشوں نے اپنی جانیں قربان کرکے مزدوروں کی عالمی تحریک کو بقائے دوام بخشا ۔ انھوں نے اپنے خون سے تاریخ کا ایک نیا باب شروع کیا۔ گویا یکم مئی ایک تاریخ ساز دن ہے۔ یہ دن تمام دنیا کے محنت کشوں کے لیے جدو جہد کی فتح کا دن ہے۔یہ دن منا کرمزدور اپنے شکاگو کے ساتھیوں کے ساتھ یکجہتی اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔مزدور اپنے اپنے ملکوں میں مختلف مظاہروں کے ذریعے تجدید عہد کرتے ہیں کہ وہ ظلم و استبداد ' ناانصافی اور استحصال کے خاتمہ کے لیے جدو جہد تیز کریں گے اوردنیا میں سماجی انصاف اور معاشی خوش حالی قائم کرنے کے لیے کوشاں رہیں گے۔
شکا گو کے محنت کشوں کی قربانیوں کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ انھوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے جو شمع روشن کی وہ ہمیشہ منور رہے گی۔مزدور خون پسینہ بہاتا ہے تو معاشرہ خوش حال ہوتا ہے۔ مزدور کے بچوں کے آنسوؤں سے امیر کے زیور ت کا ایک موتی بنتا ہے ۔کلیساء اسی کے خون سے پلتا ہے۔ مزدور دراصل چمن کے ڈاکوؤں سے خون لالہ کا انتقام لینا چاہتا ہے۔ظلم کی ایک حد ہوتی ہے۔ صدا دبائی جائے تو انقلاب برپا ہوتا ہے۔گھپ اندھیرے کے بعد اجالا فطری امر ہے۔ مفکر اسلام علامہ اقبال نے اپنے کلام میں مزدور کی قدر و منزل بہت احسن انداز میں بیان کی ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
خوف باطل کیا ہے کہ غارت گر باطل بھی تو
اقبال کا پیغام خودی کے گرد گھومتا ہے ۔ اُن کے تمام نظریات کے در خودی کے تاج محل تک پہنچتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ محنت کے بغیر کوئی خواب حقیقت کا روپ حاصل نہیں کر سکتا۔ خواب وہ نہیں جو ہمیں نیند میں آتے ہیں ، خواب تو وہ ہیں جو ہمیں سونے نہ دیں۔ خوابوں کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے عذابوں کی رت سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اقبال نے اپنے کلام سے عروقِ مردہ میں خونِ زندگی دوڑا کر عمل کی دعوت دی ہے۔ انصاف ، حق و صداقت ، مساوات اور کلمۂ حق کے عَلَم بردار کی حیثیت میں وہ دوسرے مفکرین کے لیے ایک رول ماڈل ثابت ہوئے ہیں۔ زر، زمین، ملکیت اور کاشت کے حوالے سے اُن کے پیغامات کو مغربی مفکرین نے سراہتے ہوئے اقبال کو اشتراکیت پسند شاعر قرار دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اُنھوںنے اسلام کے معاشی اور معاشرتی پیغام کی تشریح کی ہے ۔ وہ سمجھتے ہیںکہ معاشی خوشحالی کی خاطر خودی قربان ہونے نہ پائے۔
مرا طریق امیری نہیں ،فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
اقبال سرمایہ داری ، جاگیر داری اور ناجائز سرمایہ جمع کرنے کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ۔ غریبوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر کڑہتے رہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ انسان کی پہچان محنتِ شاقہ سے اُبھرتی ہے ۔ مادیت کی ترقی بجا صحیح لیکن روحانیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔ اقبال کے درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:
بندۂ مزدور کو جاکر میرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ہے یہ ہے پیام کائنات
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
مزید کہتے ہیں:
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
معاشرے میں جتنے طبقات ہیں مزدورں کی اُتنی ہی اقسام ہیں۔ پہاڑوں کا سینہ چاک کرنے والے، کارخانوں فیکٹریوں اور ملوں میں کام کرنے والے ، ریلوے اسٹیشنوں پر بطور قلی کام کرنے والے ، مختلف دفاتر میں بطور چپڑاسی کام کرنے والے ، ائیر پورٹس پر مال برداری کرنے والے، دفاتر میں بطور درجہ چہارم فرائض انجام دینے والے ، صفائی کرنے والے خاکروب سب ہی مزدور ہیں۔ اگر یہ مزدور اپنے اپنے مقام پر خلوصِ نیت سے کام کریںتو معاشی ترقی کو چار چاند لگ سکتے ہیں۔
پاکستان 14اگست 1947ء کو معرضِ وجود میں آیا ۔ ہم نے کسم پرسی کی حالت میں آغازِ سفر کیا، نامساعد حالات نے راستہ روکا سازشوں کے جال بچھائے گئے لیکن مزدور طبقہ نے جو خدمات انجام دیں وہ تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ خوشحالی نے ابھی نئی مملکت میں قدم رکھا ہی تھا کہ سرمایہ دارانہ ذہنیت رکھنے والوں نے لوٹ کھسوٹ شرو ع کر دی ۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا گیا۔ پاکستان کی دولت چند خاندانوں میں بٹ کر رہ گئی۔ آج ایک طرف بلند و بالا عمارات ہیں تو دوسری طرف انہی چراغوں بھری عمارات کے سائے تلے جھونپڑیاں ہیں ۔ افراطِ زر کی وجہ سے غریب یعنی مزدور طبقہ حالات کی چکی میں پسنے لگا ہے ۔ دولت کی غلط تقسیم نے غریب کی زندگی اجیرن کر دی ہے ۔ اقبال کا پیغام
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
افسو س اس امر کا ہے کہ چند مفاد پرست سیاستدانوں نے یوم مئی کو غلط انداز میں پیش کیا ہے وہ اس دن کو تجدید عہد گرداننے کے بجائے بغاوت کا نام دیتے ہیں۔ سادہ لوح مزدور بھی بعض اوقات معمولی لالچ کی بناء پر سیاسی قائدین اور سیاسی پارٹیوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں اس طرح سیاسی کشمکش کی وجہ سے مالکان اور مزدوروں کے درمیان رسہ کشی شروع ہوجاتی ہے۔ آہستہ آہستہ یہی مزدور اپنے فرائض سے غافل ہو کر موثر گروہ کا روپ دھار لیتے ہیں جس سے قتل و غارت اور خون خرابہ تک کی نوبت آجاتی ہے ۔مزدور کی خوش حالی کار از اس بات میں مضمر ہے کہ وہ محنت اور لگن سے اپنے کام میں بھر پور توجہ دیں اور کسی سیاسی جماعت کا آلہ کار نہ بنیں۔ مزدور چوں کہ زیادہ تر ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں اس لیے وہ حقیقت سے نا آشنا رہتے ہیں اور معمولی معمولی باتوں پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔
حکومت کا فرض ہے کہ وہ محنت کش مزدوروںکی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔ ملکی ترقی ' صنعتی ترقی وانقلاب اور معاشی خوش حالی کا راز مزدور کی خوش حالی سے وابستہ ہے۔ یوم مئی کا مطلب صرف جلسے ، جلوس اور مظاہرے کرنا نہیں بل کہ اس دن کو منانے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر کے مزدور اپنے خیالات میں نئے ولولوں اور جذبوں کا اضافہ کریں۔ دنیا میں خوش حالی کا دور دورہ کرنے کے لیے اپنی سرگرمیوں کو تیز کریں ۔ڈاکٹر علامہ اقبال مزدور کے لیے دعا گو ہیں
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سر مایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات
مزدور کو معاشرے میں باعزت مقام دینے کی ضرورت ہے۔ میرے ملک کا مزدور ' ناانصافی کا شکار ہے۔ معمولی تنخواہ پر بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا تو کجا وہ اپنے پیٹ کا ایندھن بھی نہیں خرید سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مزدور کا بیٹا مزدور ہی بنتا ہے۔ آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کے بوجھ تلے ' دبنے والا مزدور کس طرح گردن اٹھا سکتا ہے۔ حالات کی ستم ظریف ہوائوں نے مزدور کو باد سموم عطا کی ہے۔ اقبال آنے والے کل کو آج سے بہتر بنانے کے متمنی ہیں۔ وہ کبھی تازہ بستیاں آباد کرنے کا پیغام دیتے ہیں تو کبھی جہانِ تازہ میں اپنا نصیب تلاش کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ احساس اور اُمید کے بل بوتے پر غریب کی حالتِ زار بہتر بنائی جا سکتی ہے ۔ تمیزِ آقا و بندہ نے فسادِ آدمیت کو فروغ دیا ہے۔
اپنے وطن میں ہوں کہ غریبُ الدّیار ہوں
ڈرتا ہوں دیکھ دیکھ کے اس دشت و در کو مَیں!
مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے