پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ یہ اعدادو شمار اس قدرزیادہہیں کہ آبادی بڑھنے کی ہوشربا تیزی کسی بھی ترقیاتی منصوبے کی کامیابی کی شرح پر اثر انداز ہوتی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد خاندانی منصوبہ بندی یا مستقبل کی منصوبہ بندی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔
اقوام متحدہ کے جاری کردہ حالیہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا کی آبادی آٹھ ارب تک پہنچ چکی ہے جس میں سے تقریباً تین فیصد پاکستان کی آبادی پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کے ان آٹھ ممالک میں شامل ہے جو 2050 تک دنیا میں بڑھنے والی کل آبادی میں پچاس فیصد حصہ ڈالیں گے۔پاکستان کے علاوہ ان ممالک میں کانگو، مصر، ایتھوپیا، انڈیا، نائیجیریا، فلپائن اور تنزانیہ شامل ہیں۔ چین، انڈیا، امریکہ اور انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے بالترتیب پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں جبکہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی صلاحیت کو کم کر رہی ہے۔ اس سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔بے ہنگم آبادی کی وجہ سے ہماری معیشت بھی دباؤ کا شکار ہے اور اس کے اثرات تعلیم، صحت سمیت مختلف شعبوں پر پڑتے ہیں۔ وطن عزیز کو درپیش اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آبادی کو کنڑول کیا جائے۔اس ضمن میں پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی عملی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے پختہ ارادے کے ساتھ حکومت کو تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملاکر پالیسی بنانا ہو گی۔
ہمارا المیہ وہ معاشرتی رویے اور اقدار بھی ہیں جو عام گھرانوں میں انفرادی سطح پر فیملی پلاننگ کی سوچ کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ آبادی کے کنٹرول کیلئے ایسا قومی بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں آبادی کو معاشی اور معاشرتی ترقی کا بنیادی جزو قرار دیا جائے۔محکمہ صحت کے تمام مراکز پر فیملی پلاننگ سے متعلقہ سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔خواتین کی معاشی خود مختاری اور لڑکیوں کی تعلیم پر وسائل خرچ کرنا ہوں گے۔
آبادی کنٹرول کرنے کے حوالے سے چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کو چین کے ماڈل پرچلتے ہوئے پہلے معیشت مضبوط کرنی چاہیے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ حکومت نے آبادی کنٹرول کرنے کے لیے سرکاری سطح پر پروگرام ترتیب دے رکھے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں وفاق اور صوبائی سطح پر جامع پاپولیشن پالیسی اور پروگرام روڈ میپ موجود ہے۔ حکومتی سطح پر خاندانی منصوبہ بندی کے لیے عملے کی فراہمی اور مانع حمل ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں اقوام متحدہ کے تعاون سے یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ پاکستان بھی آبادی کنٹرول کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ علاقائی سطح پر این جی اوز بھی آبادی میں اضافہ روکنے کے لیے میدان عمل میں موجود ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست ِپاکستان نے بہترین پالیسیاں وضع کررکھی ہیں جن پر متعلقہ ادارے عمل پیرا بھی ہیں۔ آبادی کی منصوبہ بندی 1955 سے پاکستان کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں میں شامل رہی ہے۔ 2010 میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں وزارتِ بہبودِ آبادی کو ختم کرکے ایک پاپولیشن پروگرام ونگ (PPW) قائم کیاگیا جو ابتدائی طور پر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی سرپرستی میں کام کرتا تھا اور2013 میں اسے وزارتِ نیشنل ہیلتھ سروسز ریگو لیشن اینڈکوآرڈینیشن میں منتقل کردیاگیا اور پاپولیشن ویلفیئر کے محکموں کو اس وزارت کے کام سونپے گئے جو چاروں صوبوں میں کام کرنے لگے۔ صوبائی ڈائریکٹوریٹ کی سربراہی ڈائریکٹر جنرل کرتے ہیں اور اسے 36 ضلعی اور121 تحصیل پاپولیشن ویلفیئر آفسز کے ذریعے فیلڈ میں لاگو کیاجاتا ہے اور فیملی ویلفیئر سینٹرز کے نیٹ ورک کے ذریعے معیاری علاج فراہم کیاجاتا ہے۔ پاپولیشن پروگرام ونگ نے مارچ 2022 میں ایک پاپولیشن ریسورس سینٹر کا افتتاح کیا۔ ریسورس سینٹر آبادی پروگرام ونگ سے متعلق تمام معلومات رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
PPW میں ایک میڈیا ایڈوائزری کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ فرد کے اس گروپ کو پاپولیشن پروگرام ونگ کے ایڈووکیٹ کے طور پر مقرر کیا گیا ہے اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ حکومتی پروجیکٹ اور ان کی وکالت کے لیے بلا معاوضہ مدد فراہم کریں گے۔
پراجیکٹ کی بہتر معلومات کی ترسیل کے لیے علمائے کرام آبادی پر قابو پانے اور خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق حکومتی پالیسیوں اور وکالت کی بہتر شمولیت اور معلومات کی ترسیل کے لیے ملک بھر سے علمائے کرام آبادی پروگرام ونگ میں شامل ہیں۔ پی پی ڈبلیو کی جانب سے ہر سال علما کانفرنس کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں تمام اراکین علما کو حکومت کی ریکارڈ پالیسی کے بارے میں تازہ ترین معلومات اور آبادی کے مسائل اور اس مسئلے کو حل کرنے کے طریقوں کے بارے میں ان کی رائے کے لیے اکٹھا کیا جاتا ہے۔
پالیسی کے جائزہ کے لیے وزارت میں آئی ٹی کا شعبہ بھی قائم کیاگیا ہے۔ صحت اور حکومتی پالیسیوں سے متعلق تمام معلومات اور ڈیٹا کو ایک جگہ پر اکٹھا کرنے کے لیے ایک نالج ایپ موجود ہے۔
ایکشن پلان کے نفاذ کی پیشرفت کو ٹریک کرنے کے لیے، PPW نے UNFPA کے ساتھ مل کر ایک نگرانی کا فریم ورک تیار کیا۔ اس فریم ورک کو CEWG کے تمام ممبران نے دسمبر 2019 میں منظور کیا تھا۔ ڈیٹا اور پروگریس ریویو ورکنگ گروپ CEWG کے تحت تشکیل دیا گیا تھا تاکہ ایکشن پلان پر پیش رفت کا خاص طور پر پتہ لگایا جا سکے۔ ورکنگ گروپ نے ایکشن پلان پر عمل درآمد پر پیشرفت کو ٹریک کرنے کے لیے ویب پر مبنی ٹول تیار کرنے کی سفارش کی۔
دیہاتوں میں زچہ بچہ کے بنیادی طبی مراکز قائم کیے گئے ہیں تاکہ وہاں آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے آگاہی پیدا کی جائے ۔ ان مراکز کے قیام کا مقصد دیہی علاقوںمیں بنیادی طبی سہولتیں پہنچانا بھی ہے۔
اس کے علاوہ ملکی سطح پر خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔عوام کے اندر شعور و آگاہی پھیلانے میں علمائے کرام سمیت مختلف طبقۂ فکر کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
تبصرے