رواں برس پاکستان سمیت کئی ممالک میں انتخابات شیڈول ہیں۔ بھارت میں بھی 2024 انتخابات کا سال ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اس دفعہ بھی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس این ڈی اے کے ساتھ میدان میں اترگی جبکہ اس کے مقابل 28 جماعتوں پر مشتمل 'اتحاد انڈیا' ہے جوبھارت کو بی جے پی کی انتہاپسندی کے شکنجے سے نجات دلانے اورسماجی ترقی کا ایجنڈا لے کر انتخابی اکھاڑے میں موجود ہے۔ قرین قیاس ہے کہ بی جے پی کی سربراہی میں این ڈی اے لوک سبھا کی 543 سیٹوں میں سے 292 سیٹوں کی سادہ اکثریت آسانی سے حاصل کرلے گی۔ یوں تیسری دفعہ بھی نریندر مودی کے زیر سایہ دائیں بازو کی حکومت ہی بنے گی۔ دوسرے الفاظ میں مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا۔
بہر طور حکومتی دعوؤں کے برعکس روزگار کے گھٹتے مواقع اورافراط زر کی بڑھتی شرح عوام میں بے چینی کا باعث بن رہی ہے۔ مردم شماری میں تاخیر پر سرکار کو کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ اقلیتوں میں بڑھتا ہوا عدم تحفظ کا احساس، چین کے مقابلے پر لداخ میں بھارتی پسپائی اور ہزیمت۔ سکھ رہنماوں کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت ، یہ سب چیزیں مودی کے خلاف بیانیہ بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ ان سب میں نمایاں ترین چیز انتہاپسندی ہے جس نے سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سرکاری سرپستی میں منی پور میں ہونے والا تشدد اور کشمیریوں پر ظلم کے سیاہ کارنامے کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ آج بھارت میں مسلمان خوف کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ ان کی نمائندگی حکومتی سطح پر صفر ہے۔ مسلمان ووٹر کو اگرچہ یہ سب دکھ رہا ہے لیکن ان کے پاس دوسرا آپشن تقریباً ناپید ہے۔ وہ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر نہیں رکھ سکتے۔
درحقیقت مودی نے بہت اچھے طریقے سے اپنی اور اپنی پارٹی کی برینڈنگ (Branding)کی ہے۔ نریندر مودی بھارتیہ جنتا پارٹی کا وہ چلتا پھرتا اشتہار ہے جس نے انتہاپسندی کو بھارتی جنتا کو ایسے میٹھے طریقے سے گھول کر پلایا ہے کہ صدیوں سے ساتھ رہنے والے ہندو مسلم پڑوسی بھی آج ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ گجرات کے قصائی مودی کو آج سرکاری پروپیگنڈے کے ذریعے ایک ایسے سیلف میڈ لیڈر کے طور پر پیش کر رہے ہیں جو غیر مراعات یافتہ طبقے سے نکل کر پردھان منتری کے عہدے تک پہنچا اور پورے بھارت بشمول مسلمانوں کا ترجمان بن گیا۔ اس ضمن میں بی جے پی نے سوشل میڈیا پرلگاتار پیڈ (Paid)کیمپین چلائی ہوئی ہے زمینی حقائق کو مودی کے ہوائی کارناموں سے بدلا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ اساتذہ، مذہبی لیڈران، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین وغیرہ کی خدمات بھی مستعار لی ہوئی ہیں جو مودی کو تمام معاشرتی اکائیوں کا اکلوتا ہمدرد اور لیڈر ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس وقت مودی خود کو ایک ایسے عظیم لیڈر کے طور پر پیش کر رہے ہیں جس نے بھارت کو علاقائی سیاست کا بے تاج بادشاہ بنا ڈالا اور اب وہ ہی بھارت کو عالمی طاقت اور دنیا کی تیسری بڑی معیشت بھی بنا دیں گے۔ اس مہم کے سہارے مودی جی نے ماضی میں نو فیصد مسلم ووٹ حاصل کرنے والی بی بے پی کو مسلمانوں کے لیے امید قرار دیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلمان ووٹرکو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مذہبی رواداری کا ڈھول پیٹنے کی کوشش شروع کر رکھی ہے ۔ اس ڈھول کی تھاپ پر سرکاری مشینری، پروپیگنڈا کے گھنگھرو باندھے ناچ رہی ہے۔ اس تماشے کی بنیاد مودی جی کے کھوکھلے نعرے یعنی ''بھارت میں کسی کے ساتھ بھی امتیازی سلوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے '' پر رکھی گئی ہے۔
انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی کروڑوں میں ہے جو اسے دنیا کا تیسرا بڑا مسلم آبادی والا ملک بناتی ہے۔ اس مسلم ووٹ بینک کو رجھانے کے لیے پچیسہزار مودی متر دن رات کام کررہے ہیں۔ رضاکاروں کی یہ فورس جنہیں مودی کے پیادے بھی کہا جاتا ہے، پورے جوش و خروش سے بی جے پی کے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے گن گاتے ہوئے مسلم ووٹر کو مودی جی کی جھولی میں ڈالنے کو بے تاب ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مودی کی سربراہی میں بی جے پی غیرمراعات یافتہ طبقے یا یوں کہیے کہ پسے ہوئے مسلمانوں کو صنفی برابری، جائیداد میں برابر حصہ ، خواتین کو بارہ سو روپے، پندرہ ہزار روپے ہاؤسنگ سبسڈی، مسلمان عورتوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے مسلم مردوں کی دوسری شادی کی روک تھام جیسے جال میں پھانسنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کے علاوہ سماجی فاصلے کو مٹانے کے لیے سیکولرازم اور مذہبی آزاد خیالی کی آڑ میں مسلمانوں میں لادینیت کو فروغ دینے کا پورا انتظام کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے سامنے بار بار یہ فرضی خاکہ بھی پیش کیا جارہا ہے کہ بھارت کے بڑھتے ہوئے عالمی کردار میں پورے بھارت کو ساتھ چلنا ہوگا، اس لیے بیس کروڑ مسلمانوں کو نظراندازنہیں کیا جاسکتا اور یہ بین المذاہب بصیرت صرف مودی جی کے ہی پاس ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو اپوزیشن کے انتہا پسندی کے جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار نہیں بننا چاہئے بلکہ بی جے پی کو ووٹ دے کر ترقی اور سماجی برابری کے سفر میں شامل ہوجانا چاہئے۔
مبصرین اس بات کو مودی سرکار کی کامیابی کہتے ہیں کہ بھارت تمام عالمی طاقتوں سے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے اوربیک وقت مغربی دنیا اورعرب ممالک کولے کر چل رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ہندو اراکین پر مشتمل بھارتی وفد کی جانب سے سرزمین حجاز کا دورہ اسی سلسلے کی کڑی قرار دی جا رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندو اکثریتی جنتا مودی کے تمام جرائم پر پردہ ڈال دیتی ہے۔'' لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس حکومت نے بھارتی سیاسی نظام کی بنیاد یعنی پارلیمان کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ مودی نے افسر شاہی اور عدلیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے اور ان دونوں اداروں کی بے توقیری کی۔ عدلیہ سے من پسند فیصلے لیے جاتے ہیں تاکہ مخالفین کی آواز کو دبایا جاسکے۔ پارلیمان میں موجود ممبرز کو زبردستی سیاسی وفاداریاں بدلنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔141 ممبرز کو سکیورٹی کے بہانے معطل کرنا پارلیمانی روایات کے منافی ہے، پھر بھی مودی سرکار یہ کر گزری ۔ اس حکومت نے صحافت کو بے دست وپا کردیا۔ میڈیا پر ریاست کی کڑی گرفت ہے۔ صحافی مودی پر تنقید کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق مودی سرکار آئی فون کے ذریعے صحافیوں اور سیاسی مخالفین کی جاسوسی کی مرتکب ہوتی رہی ہے۔ مبصرین ان سب اقدامات کو مودی ڈکٹیٹر شپ کا نام دیتے ہیں۔
انتخابی وعدے اور نعرے کچھ بھی ہوں، بی جے پی کی مسلم دشمنی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ شمالی بھارت میں بی جے پی کا ووٹ بینک کچھ سال پہلے تک قابل ذکر نہیں تھا۔ اس بار بی جے پی نے وہاں ہندوتوا کا مکمل پرچارکررکھا ہے۔ شمالی بھارت کے ہندوووٹر کو بار بار یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ مسلمان جہاد کے ذریعے نوعمر لڑکیوں کو ورغلانے کے علاوہ معاشرے میں تشدد کے پھیلاؤ کے بھی ذمہ دار ہیں۔ ان کا وجود بھارت اور ہندوؤں کے لیے خطرہ ہے۔ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے مودی کا اقتدار میں رہنا ضروری ہے۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کرکے بھی مسلم دشمنی کا ثبوت دیا گیا ہے۔ مسلم دشمنی کی یہ سوچ بھارت کے ہر فعل میں نمایاں ہے۔ مودی سرکار نے معاشرے کو ہندو مسلم تقسیم اور مذہبی منافرت کا وہ تحفہ دیا ہے جس کی شدت آئندہ سالوں میں بڑھتی ہی جائے گی۔
داخلی امور سے ہٹ کر خارجی سطح پر آئیں تو بھی مودی کی مسلمانوں سے نفرت واضح دکھائی دیتی ہے۔ انتہا پسندی کی حد یہ ہے کہ بھارت اسرائیل کو ایسی ماڈل ریاست قرار دیتا ہے جس نے مذہب اور قوم پرستی کو باہم مدغم کرکے توسیع پسندانہ پالیسی اپنائی۔ اسی لیے اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے بھارت سے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف اور اسرائیل کے حق میں جھوٹا پراپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے۔
بی جے پی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا مطلب کشمیری مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کا تسلسل ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں آخری بار الیکشن 2014 میں ہوئے تھے۔ کشمیر اب بھارتی یونین ٹیرٹری ہے یعنی اس کو دہلی میں بیٹھی حکومت براہ راست کنٹرول کررہی ہے۔ وہاں 2018 سے صدارتی راج قائم ہے۔ اگرچہ بھارتی سپریم کورٹ نے 2024 میں مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کروانے کا حکم دے رکھا ہے لیکن یہ واضح ہے کہ مودی سرکار وہاں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن نہیں ہونے دے گی کیونکہ اس صورت میں وادی میں نافذ پابندیوں کو نرم کرنا پڑے گا اور انٹرنیشنل پریس کی موجودگی مودی کے کالے کرتوت دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دے گی۔ نیز آزاد الیکشن ہونے پر کشمیریوں کے اندر پکتا لاوا بھارت کے خلاف ووٹ کی شکل میں باہر آئے گاجونریندر مودی یقینا ایسا نہیں چاہے گا۔
لہٰذا حقیقت یہ ہی ہے کہ بھارتی سیاست میں بی جے پی ایک بار پھر انتہا پسندی کا غلبہ جاری رکھے گی۔ مسلم ووٹر کو راغب کرنے کے لیے جو حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں اگرچہ ان کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے، پھر بھی یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ مسلم ووٹر ان تمام باریکیوں کو مد نظر رکھ کر اپنا ووٹ استعمال کرتا ہے یا ترقی کے یکساں مواقع کی وقتی چمک دمک میں گم ہوجاتا ہے یا پھر اس کی آواز کو جبر واستبداد میں دبا دیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ چیز تو نوشتہ دیوار ہے کہ بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے مغرب مودی کی مسلم کش پالیسیوں کی طرف سے آنکھیں بند ہی رکھے گا ۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ماضی کی طرح سٹیٹ سکیورٹی کے نام نہاد جھوٹے ڈرامے کرکے پاکستان مخالف جذبات بھڑکائیں جائیں۔
مضمون نگار فری لانس صحافی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ اور سماجی و سیاسی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے