کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے دیکھا جاتا ہے کہ وہاں تعلیم کی شرح کیا ہے۔کیونکہ پڑھے لکھے لوگ ہی ایک صحتمند اور باشعور معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔
ناخواندہ معاشروں میں نہ ہی کوئی اصول ہوتے ہیں نہ اخلاقیات ،اسی وجہ سے دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک کی سب سے پہلی ترجیح تعلیم ہے ۔ترقی پذیر معاشروں کا المیہ یہی رہا ہے کہ وہاں تعلیم، سیاسی مداخلت اور کرپشن کی وجہ سے احتساب اور شفافیت کے عمل سے دور رہتی ہے ۔ اس وقت پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے جہاں 2 کروڑ 62لاکھ کے قریب بچے سکول سے باہر ہیں ۔جو کہ تقریباً39 فیصدہیں۔
پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں سب سے زیادہ 65 فیصد بچیتعلیم سے محروم ہیں۔ اندازے کے مطابق اکتیس لاکھ کے قریب بلوچستان میں رہنے والے بچے تعلیم سے محروم ہیں ۔بلوچستان ایک متنوع ثقافت، تاریخ اور جغرافیہ کا حامل صوبہ ہے جس کی آبادی میں پشتون، بلوچ، ہزارہ کثیر تعداد میں شامل ہیں جو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مقیم ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے جسیبدامنی اور دہشت گردی جیسے مسائل کابھی سامنا ہے ۔
بہرطور افواجِ پاکستان جہاںبلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں بھی امنِ عامہ کی بحالی میں کردار ادا کر رہی ہوتی ہیں وہیں صحت اور تعلیم جیسے شعبے میں بھی بہترین خدمات بہم پہنچا رہی ہیں۔ صوبہ بلوچستان ہی کی مثال لے لیجیے، یہاں پاکستان آرمی کی جانب سے سکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں لایاگیاہے۔ اس وقت بلوچستان میں فرنٹیئر کور کی زیر نگرانی تقریباً 113 سکول چل رہے ہیں اور بلوچستان بھر میں تقریباً 40ہزار طلبا ان سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔بلوچستان کے کیڈٹ سکولز اور کالجز طلباء کو نہصرف اعلی تعلیم مہیا کررہے ہیں بلکہ مسلح افواج اور سول سوسائٹی کے لیے تیار کرتے ہیں۔ بلوچستان میں جو کیڈٹ کالج ہیں وہ سوئی، پشین، مستونگ، پنجگور، جعفرآباد، کوہلو، تربت، نوشکی ، اورماڑہ اور آواران میں قائم کیے گئے ہیں۔ان کیڈٹ کالجوں میں تین ہزار سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں جن میں پروفیشنل تعلیم کے لیے جدید ترین تعلیمی منصوبے شروع کیے گئے ہیں،ان میں کوئٹہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، ملٹری کالج سوئی، سوئی ایجوکیشن سٹی، بلوچستان پبلک سکول سوئی، بلوچستان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن،گوادر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور آرمی انسٹی ٹیوٹ آف معدنیات شامل ہیں۔
بلوچستان میں قائم کردہ ان کیڈٹ کالجز میں اعلیٰ تعلیم و تربیت اور عالمی معیارکی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔ کیڈٹ کالجز میں تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی طلبا کو پیش پیش رکھا جاتا ہے۔ کیڈٹ کالجز میں اعلی سطح کی سائنس اور کمپیوٹر لیبارٹریز موجود ہیں۔ کیڈٹ کالجز میں طلبا و طالبات کو سیلف ڈیفنس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
کیڈٹ کالج پشین : اس کالج کا قیام سال 2007میں عمل میں لایا گیا ۔ اس وقت یہاں چارسو کے قریب بلوچ طالب علم زیر تعلیم ہیں ۔ اس کیڈٹ کالج کے گیارہ پاس آؤٹ طالب علم افواج پاکستان میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ جبکہ اس کیڈٹ کالج کے 39 پاس آؤٹ ڈاکٹرز، انجینئرز اور وکیل بن کر ملک کی خدمت کررہے ہیں ۔ یہاں پڑھنے والے طالب علموں کا کہنا ہے کہ کیڈٹ کالج پشین کی تعلیم اور ماحول دونوں بہت اچھے ہیں۔
ملٹری کالج سوئی: اس کالج کا قیام سال 2011 میں عمل میں لایا گیا ۔ اس وقت یہاں 473 بلوچ طالب علم زیر تعلیم ہیں ۔ اس کیڈٹ کالج کے 294 طلباء اس وقت پاکستان آرمی میں کمیشنڈ آفیسرز ہیں۔ اس ملٹری کالج کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سیکنڈ لیفٹیننٹ عبدالمعید شہید (تمغہ ٔبسالت) بھی اسی کالج کے پاس آؤٹ تھے۔
کیڈٹ کالج اورماڑہ: یہ کالج سال 2012 میں شروع کیا گیا ہے ۔ جس میں اس وقت 171 بلوچ طالب علم زیر تعلیم ہیں ۔
کوئٹہ گرلز کیڈٹ کالج: بلوچستان کی بچیوں کی تعلیم کے لیے کوئٹہ گرلز کیڈٹ کالج کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کالج میں اس وقت 155 طالبات زیر تعلیم ہیں ۔
کیڈٹ کالج آواران: یہ کالج سال 2022 میں شروع کیا گیا ہے ۔ جس میں اس وقت134 بلوچ طالب علم زیر تعلیم ہیں ۔
کیڈٹ کالج مستونگ: بلوچستان کا سب سے پرانا کیڈٹ کالج مستونگ 1987 میں قائم کیا گیا ۔اس وقت اس کالج میں 360 بلوچ طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ اس کیڈٹ کالج سے پاس آؤٹ ہونے والے 39 سے زائد کیڈٹ پاکستانی فوج کا حصہ ہیں ۔
کیڈٹ کالج کوہلو: یہ کالج سال 2016 میں شروع کیا گیا اس وقت اس کالج میں 173 بلوچ طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ اس کیڈٹ کالج سے پاس آؤٹ 9 سے زائد کیڈٹ پاکستانی فوج کا حصہ ہیں ۔
کیڈٹ کالج نوشکی: یہ کالج سال 2017 میں شروع کیا گیا۔ اس وقت اس کالج میں 220 بلوچ طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ اس کیڈٹ کالج سے پاس آؤٹ 23سے زائد کیڈٹ پاکستانی فوج کا حصہ ہیں ۔ اس کیڈٹ کالج کے چھ سے زائد طلباء نے ایس ایس سی کے امتحانات میں نوے فیصدنمبرلے کر نہ صرف کالج بلکہ بلوچستان کا نام روشن کیا ہے
کیڈٹ کالج قلعہ سیف اللہ
یہ کالج سال 2009 میں شروع کیا گیا۔ اس وقت اس کالج میں90 بلوچ طلباء زیر تعلیم ہیں۔ اس کیڈٹ کالج سے پاس آؤٹ 20سے زائد کیڈٹ پاکستانی فوج کا حصہ ہیں ۔
کیڈٹ کالج جعفر آباد: یہ کالج سال 2009 میں شروع کیا گیا۔ اس وقت اس کالج میں 160 بلوچ طلباء زیر تعلیم ہیں۔
کیڈٹ کالج پنجگور: یہ کالج سال 2012 میں شروع کیا گیا اس وقت اس کالج میں 174 بلوچ طالب علم زیر تعلیم ہیں۔اس کالج کے 38 پاس آؤٹ ڈاکٹرز، انجینئرز اور وکیل بن کر ملک کی خدمت کررہے ہیں۔ اس کیڈٹ کالج سے پاس آؤٹ 4 کیڈٹ پاکستانی فوج کا حصہ ہیں ۔
بلوچستان ریذیڈینشل کالج لورا لائی:
یہ کالج سال 2012 میں شروع کیا گیا۔ اس وقت اس کالج میں 174 بلوچ طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ اس کیڈٹ کالج کے انتیس سے زائد طلبہ نے ایس ایس سی کے امتحانات میں ٹاپ ٹوئنٹی پوزیشن لے کر نہ صرف کالج بلکہ بلوچستان کا نام روشن کیا ہے ۔
شیخہ فاطمہ بنت مبارک گرلز کیڈ ٹ کالج تربت:
بلوچستان کے شہر تربت میں متحدہ عرب امارات کے تعاون سے جدید سہولیات سے آراستہ گرلز کیڈٹ کالج بھی قائم کیاگیاہے ۔ تربت گرلز کیڈ ٹ کالج میں سالانہ 400 طالبات 8ویں تا12ویں جماعت تک تعلیم حاصل کر رہی ہیںیاد رہے کہ ان کیڈٹ کالجز میں پورے صوبہ بلوچستان سے بڑی تعداد میں طلباء زیورِ تعلیم وتربیت سے بہرامند ہو رہی ہیں، ان کیڈٹ کالجز کو دورِ حاضر کے جدید تقاضوں کے مطابق ہر سہولت سے آراستہ کیا گیا ہے۔ان میں جدید آلات و سہولیات سے آراستہ لیبارٹریز سمیت جدید طرز کی لائبریری اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی کمپیوٹر لیبز موجود ہیں۔غیر نصابی سرگرمیاں اور کھیلوں کے لیے وسیع کھیل کے میدان، گھڑسواری کے لیے صحت منداورتربیت یافتہ گھوڑے اور سوئمنگ پول موجود ہیں۔
اس کے علاوہ چمالنگ بلوچستان ایجوکیشن پروگرام (سی بی ای پی)سے ہزاروں طلبا فارغ التحصیل ہوچکے ہیں جبکہ چارہزار سے زیادہ طلباء زیر تعلیم ہیں۔ بلوچستان میں تعلیمی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو آرمی پبلک سکول اینڈ کالج اے پی ایس اینڈ سی، سیون سٹریمز کوئٹہ کو پورے پاکستان میں آرمی پبلک سکولز اینڈ کالجز سیکرٹریٹ اے پی ایس اینڈ سی ایس کے تحت کام کرنے والے معروف اور متحرک تعلیمی اداروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اے پی ایس اینڈ سی بلوچستان میں ایک بہترین جگہ ہے جہاں طلبا پاکستان آرمی اور مسلح افواج کی دیگر شاخوں میں شمولیت کے لیے داخلہ لے سکتے ہیں۔ اے پی ایس اینڈ سی سیون اسٹریمز ایک ایسی جگہ ہے جہاں فوجی جوانوں اور سویلینز کے بچے مساوی سہولیات پر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔آرمی پبلک سکولز اینڈ کالجز سسٹم کی پورے ملک میں کل 168 برانچز ہیں۔یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ اس کی شاخیں بلوچستان میں بھی موجود ہیں ۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دورہ بلوچستان کے موقع پر پاک فوج کے حوالے سے یہ یقین دہانی کرائی کہ پاک فوج بلوچستان کے روشن مستقبل کے لیے پرعزم ہے۔ بلوچستان کی سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ معاشی اور معاشرتی زندگی میں بھی بہتری لانے کی امید دلائی گئی۔یہی وجہ ہے کہ پاک فوج صوبے کے روشن مستقبل میں حکومت اور عوام کی معاونت کو اپنی اہم ذمہ داری سمجھتی ہے۔ کیونکہ پڑھے گا بلوچستان تو بڑھے گا پاکستان ۔
مضمون نگار معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔
[email protected]
تبصرے