ایک بار جب برطانوی میگزین ٹائمز ہائر ایجوکیشن نے پچاس نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں سے سوال کیا کہ بنی نوع انسان کے لیے سب سے بڑا خطرہ کون سا ہے؟ توان کا ایک ہی جواب تھا۔۔۔۔ تیزی سے بڑھتی آبادی ۔ ماہرین کی نظرمیں تیزی سے بڑھتی آبادی اور قدرتی ماحول کا انحطاط انسانیت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ کیونکہ یہی امر دوسرے مسائل کو جنم دینے کی بنیادی کڑی ہے۔
کسی بھی ملک کی پائیدار ترقی اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ آبادی کو وسائل کے مطابق کنڑول میں رکھا جائے۔ اس پسِ منظر میں اگر وطن عزیز پاکستان کی بات کی جائے تو یہ بیک وقت مختلف چیلنجز سے نبردآزما ہے۔ جن میں سے ایک ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک اور دنیا کی کل آبادی کا تین فیصد ہے۔ یہاں شرح پیدائش 3.6 فیصد ہے۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو کی ایک رپورٹ کے مطابق آبادی کے لحاظ سے چار بڑے ممالک جن میں چین، بھارت، امریکہ اور انڈونیشیا شامل ہیں، ان میں سے پاکستان کی آبادی میں اضافے کی رفتار سب سے زیادہ ہے۔ اگر 3.1فیصد کی سالانہ شرح سے افزائش نسل کا یہ رحجان اسی طرح جاری رہا، تو 2045 تک اس کی آبادی دو گنا ہو جائے گی۔
اس تناظر میں اقوام متحدہ کی طرف سے ہر سال 11 جولائی کو منائے جانے والے آبادی کے عالمی دن کا مقصد بھی یہی ہے کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل، فیملی پلاننگ اور انسانی حقوق سے متعلق آگہی پھیلائی جائے۔ بڑھتی ہوئی آبادی پاکستان کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے ۔ اس خطرے پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر ایک متفقہ نقطہ نظر، مربوط ہوم ورک اور آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے کی لیے جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم اس بڑھتی آبادی کے بارے میں سوچتے ہیں توایک خوفناک تصویر ذہن میں ابھرتی ہے۔ کیا اتنے زیادہ لوگ پاکستان میں اپنے لیے خوراک، پانی، رہائش اور روزگار حاصل کر پائیں گے؟ پاکستان اس وقت پانی کی قلت کے شکار، تین سرِفہرست ممالک میں شامل ہے جہاں اتنی بڑی آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہی ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس پر کوئی خاطر خواہ کام بھی نہیں ہو رہا ۔ دوسرا بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی کے حساب سے رہائش اور روز گار کی فراہمی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سنہ 2040 تک پاکستان کو ایک کروڑ نوے لاکھ مزید گھروں اور گیارہ کروڑ ستر لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت ہو گی۔ کیا پاکستان اس کو پورا کر پائے گا؟ یہ آبادی پاکستان کے دستیاب محدود وسائل اور معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی صلاحیت کو کم کر رہی ہے۔ اس سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ ملکی معیشت دباؤ کا شکار ہے۔ہمارے پاس کثیر افرادی قوت موجود ہے لیکن بدقسمتی سے دستیاب ملازمتیں اس افرادی قوت کو جذب کرنے سے قاصر ہیں۔ مزید یہ کہ تعلیم کے شعبے اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی کئی مسائل کا شکار ہے جبکہ صحت کی سہولیات محدود ہیں۔ شہروں کا بنیادی ڈھانچہ، شہری سہولتیں اور ٹرانسپورٹیشن کی سہولیات روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ کو برداشت کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
وطن عزیز کو درپیش اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے آبادی کو کنڑول کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی عملی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے پختہ ارادے کے ساتھ تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملاکر پالیسی بنانا ہو گی۔ ایسے ہمارے ہاں معاشرتی رویے اور اقدار بھی ہیں جو عام گھرانوں میں انفرادی سطح پر فیملی پلاننگ کی سوچ کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ آبادی کے کنٹرول کیلئے ایسا قومی بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں آبادی کو معاشی اور معاشرتی ترقی کا بنیادی جزو قرار دیا جائے۔محکمہ صحت کے تمام مراکز فیملی پلاننگ سے متعلقہ سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ خواتین کی معاشی خود مختاری اور لڑکیوں کی تعلیم پر وسائل خرچ کیے جائیں۔ نئے شہر آباد کرنے کے علاوہ قصبوں اور دیہاتوں میں جہاں ترقی کی رفتار سست ہے،روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ کوئی بھی علاقہ وسائل کی کمی کا شکار نہ ہو۔
آبادی میں تیزی سے اضافہ اس لحاظ سے بھی تشویش ناک ہوتاہے کہ آبادی اور وسائل کے درمیان توازن نہیں رہتا۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے قدرتی اور معدنی وسائل بہترانداز میں بروئے کار نہیں لائے جاسکتے ۔ آبادی میں ہوشربااضافے کی وجہ سے کوئی بھی ملک اپنے تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور سڑکوں کی مناسب تعداد مہیا نہیں کرسکتا۔
یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ وطنِ عزیز پاکستان میں بڑھتی آبادی کو کنٹرل کرنے کی خاطر حکومتی سطح پر کچھ اقدامات اٹھائے بھی جا رہے ہیں جن میں خاندانی منصوبہ بندی اولین ترجیح ہے۔ دیہاتوں میں زچہ بچہ کے بنیادی طبی مراکز قائم کیے گئے ہیں تاکہ وہاں آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے آگاہی پھیلائی جائے ۔ ان مراکز کے قیام کا مقصد دیہی علاقوں میں بنیادی طبی سہولتیں پہنچانا بھی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلائی جائے۔عوام کے اندر شعور و آگاہی پھیلانے میں اگر علمائے کرام اور دیگر مذہبی شخصیات اپنا کردار ادا کریں تو آبادی کنٹرول کرنے میں کافی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ہر ضلع میں بہبود آبادی کے ذمہ دار ادارے موجود تو ہیں، لیکن وہ عوامی آگہی مہمات، مقامی سطح پر عوامی اجتماعات یا عام شہریوں کو تحریک دینے کے کام سے حتی المقدور اجتناب کرتے ہیں۔ جبکہ وقت کی ضرورت یہی ہے کہ اس چلنج پر قابو پانے کے لیے تمام ادارے حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ آبادی اور وسائل کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے۔ پاکستان کی پائیدار ترقی اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ آبادی کو ہنگامی بنیادوں پر کنڑول کیا جائے ۔
مضمون نگار قومی وسماجی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
تبصرے