زندگی اپنی رعنائیوں کے ساتھ اپنی منازل طے کررہی تھی۔ بزرگوں کی حکایات، ماں کی آغوش، والد کی نصیحتیں، جہاں زندگی کے ہر سہل اور کٹھن مرحلے میں ہماری راہنما تھیں، وہیں رب ذوالجلال کی رحمتیں اور برکتیں بھی شاملِ سفر تھیں۔ صبح آنکھ کھلنے پر دعائوں سے شروع ہونے والا دن، ماں کے ہاتھ سے بنا ہوا ناشتہ، سکول کی اسمبلی میں پڑھی جانے والی ''لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری'' اساتذہ کا تعلیم کے ساتھ تربیت پر دھیان، ظہر کی باجماعت نماز، سکول کے بعد گھر آکر ماں سے دو پہر کے کھانے پر سکول میں گزرے دن کی مکمل رُو داد ، شام کو عصر سے مغرب تک کھیلنے کے لیے گھر کے قریب کرکٹ گرائونڈ میں بلاناغہشمولیت، مغرب کی اذان ہوتے ہی نماز کے لیے مسجد کی طرف ہم سب ہم جماعت اورہم عمر لڑکوںکی دوڑ، رات کو بابا کے گھر لوٹنے کا انتظار، ان کے آنے پر گھر میںجشن کاسماں ، زمین پر دستر خواں کا چنائو، دعا سے کھانے کا باضابطہ آغاز اور دعا پر ہی اختتام ۔ پھر رات کو بابا سے ہم سب بہن بھائیوں کی اجتماعی نشست اور رات کا سب سے خوب صورت لمحہ جب دادی جان ہمیں اکٹھا کرکے سونے سے پہلے کہانی سناتی تھیں اور پھر ماں ہم سب بہن بھائیوں کو رات کی آخری دعا پڑھ کر سلاتی تھیں۔ ماں کی عادت تھی کہ رات کو ہمیں سلانے سے پہلے وہ ایک ہی دعا پڑھتی تھیں اور ہم بہن بھائی اُسے دُہراتے تھے۔ ''رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ'' (اے ہمارے ر رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرمااور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے) ماں کی طرف سے ہمیں ہدایات تھیں کہ اس دعا کو پڑھنے کے بعد کوئی بچہ دوبارہ بات نہیں کرے گا اور ہم خاموشی سے سو جائیں گے اور اگر کسی وجہ سے کوئی بات کرنی ناگزیر ہوگی بھی تو وہ بات مکمل کرکے یہ دعا دوبارہ پڑھی جائے گی۔ رات کو یہ دُعا ہماری زندگی کا اتنا ہی لازمی مرحلہ تھا جتنا کہ زندگی کے دوسرے اُمور۔ ہم اگلے دن ہشاش بشاش اُٹھتے۔
ہمارے خاندان میں آج کے عام گھرانوںکی طرح دو عیدیں نہیں ہوتی تھیں۔ ہم تین عیدیں مناتے تھے۔ عیدالفطراور عیدالاضحی کے ساتھ 14 اگست کا دن ہمارے لیے عید کا دن ہوتا تھا۔ ہم سب کزنز اگست کا مہینے کے شروع ہوتے ہی اس تہوار کی تیاری شروع کردیتے تھے۔ والہانہ محبت اور ایک پُرکیف جذبے سے ہم پاکستان کا جھنڈا خود سلواتے، اُس میں چاند ستارہ خود پینٹ کرتے اور ہم سب کی کوشش ہوتی کہ اس سال سب سے اونچا جھنڈا ہمارے ہی گھر کی پہچان بنے۔ اسی طرح ہم اپنی گلی محلے کو رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجاتے، ان جھنڈیوں کی خاص بات یہ ہوتی کہ ہم بازار سے موٹے دھاگے خریدتے، پھر رنگ برنگی جھنڈیوں کو گوند کی مدد سے ان دھاگوں میں پروتے اور پورے محلے کو سب بچے مل کر سجاتے۔ 13 اور 14 اگست کی درمیانی رات ہم اپنے گھروں کی منڈیر پر مٹی کے دیؤں میں تیل ڈال کر چراغاں کرتے اور ہماری تیسر ی عید کا تہوار اپنے عروج کو پہنچتا۔ ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ ہم یومِ آزادی کے ختم ہوتے ہی تمام جھنڈیاں پوری عقیدت و احترام سے اتارتے اور اگر اس دوران کوئی جھنڈی لڑی سے ٹوٹ کر زمین پر گرتی تو ہم اُسے بڑے پیار سے اٹھاکر چومتے اور اپنی آنکھوں سے لگالیتے۔ یہ عقیدت و احترام ہمیں ہمارے بڑوں سے ورثے میں ملا تھا، یہ والہانہ محبت اور پُرکیف جذبے جو حب الوطنی سے سرشار تھے ہمارے اجداد سے سینہ بہ سینہ ہمیں منتقل ہوتے آئے تھے۔ ان جذبوں کو دوام ہمارے بزرگوں کی ان کہانیوں سے عطا ہوا تھا جو وہ ہمیں رات کو سونے سے پہلے سناتے تھے۔ ان کہانیوں کی خاص بات یہ تھی کہ ہمارے بزرگوں نے آزادی کی قیمت اپنے پیاروں کے خون سے ادا کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دادی جان جب جب پاکستان کے قیام کی کہانی سناتیں، ان کی آنکھوں کے ترکنارے اُن کے حرف حرف کی صداقت کی گواہی دیتے نظر آتے۔
ماں کی عادت تھی جب بھی رات کا کھانا تیار ہوجاتاسب سے پہلے دوروٹیاں اورایک پلیٹ سالن ٹرے میں رکھتیں اور چونکہ میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مجھے حکم دیتیں کہ خالہ آمنہ کے گھر جا کردے آئوں۔ خالہ آمنہ ہمارے محلے میں رہتی تھیں۔ انکے شوہر کے اچانک انتقال اور اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ماں کا حکم تھا کہ میں دن میں سکول سے واپسی پر اُن کے دروازے پر دستک دے کر ان کے سودا سلف یا کسی اور ضرورت کی چیز کادھیان رکھا کروں۔ اسی طرح رات کے کھانے پر ہمیں حکم تھا کہ ہم سب بہن بھائی ایک نوالہ بچائیں گے اور اُسے خالی پلیٹ میں رکھ دیں گے۔رات کے کھانے کے بعد جب ہم بابا جان کی اجتماعی نشست میں ان سے اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے زریں اصول سیکھ رہے ہوتے، ہماری ماں ان روٹی کے نوالوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں تقسیم کرکے صحن میںمٹی کے برتنوں میں ڈال دیتیں اور بتاتیں کہ یہ آخری نوالہ ہماری خوراک میں سے معصوم چڑیوں کا حصہ ہے اور اس سے رزق میں برکت ہوتی ہے۔ اکثر میں سکول جاتے ہوئے دیکھتاکہ چھوٹی چھوٹی چڑیا اور دوسرے پرندے روٹی کے ان ٹکڑوں کو اپنی چونچ میں دبائے ہمارے گھر سے یوں رخصت ہوتے گویااپنی معصوم آنکھوں سے ہمارا شکریہ ادا کررہے ہوں۔
ہمارے دور میں ہر سال کتابوں کا سلیبس تبدیل نہیں ہوا کرتا تھا۔ میری کتاب پر ماں جب بھی کوئی نشان دیکھتیں تو کہتیں''تم اپنے چھوٹے بھائی زاہد کو گندی کتابیں دو گے؟'' زاہدہمارے محلے میں رہنے والا یتیم بچہ تھاجو مجھ سے ایک کلاس پیچھے تھا۔ ہر سال جب میںاگلی کلاس کے لیے فائنل امتحان پاس کرتا تو ماں میری ساری کتابیں اکٹھی کرتیں اور ان پہ لگے تمام نشانات صاف کرکے نئی نوٹ بکس خرید کر زاہد کے حوالے کردیتیں۔ اس طرح ہر سال کتابوں کی منتقلی کا یہ عمل میری بارہویں کا امتحان پاس کرنے تک جاری رہا۔ یقینا میری تعلیمی کارکردگی میںزاہد کا بھی کلیدی کردار ہے کہ وہ بھی دن رات میری کامیابی کی دعائیں اس آس پہ کرتا تھا کہ میری کتابیں اُس کو منتقل ہونی تھیں۔
ماضی کے قصے سالہا سال بیان کیے جاسکتے ہیں خلاصہ بس اتنا ہے کہ اس زمانے میں غربت تھی مگر برکت بھی تھی۔ گھروں کی دیواریں اونچی نہ تھیں مگر عزتیں محفوظ تھیں۔ ہم خون کے رشتوں میں بندھے نہ تھے مگر خلوص سے جُڑے وہ رشتے آج کے رشتوں سے زیادہ مضبوط تھے۔ ہمارے والدین کتابی اور نظریاتی زندگی سے بالاتر عملی زندگی میں ہمارے لیے مشعل ِراہ تھے۔
پھر زندگی کا یہ پہیہ پہلے تیز ہوا ، پھر تیز تراور پھر اتناتیز کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ ہم کب خود بال بچے دار ہوگئے۔ لیکن زندگی کی اس بھاگ دوڑ میں ہم سے کچھ غلطیاں ہوئیں۔ ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہونے میں کامیاب ضرور ہوئے مگر بدقسمتی سے وہ اخلاقیات اور معاشرت کے تقاضے اپنے بچوں میںمنتقل نہ کرسکے جو ہمیں ہمارے ماں باپ نے ورثے میں تحفتاً بخشے تھے۔
موبائل فونز کے انقلاب سے پہلے ہم اپنے والدین اور کتابوں سے راہنمائی حاصل کرتے تھے یہ رابطے کا اور سیکھنے کا ایک خوبصورت سفر تھا۔ موبائل فونز کی افادیت سے انکار کرنا حماقت کی بات ہے مگر شاید ہم اس افادیت کو ضرورت سے زیادہ اہم سمجھ بیٹھے اور اسی ناسمجھی میں ہم اس انقلاب سے ملحق نقصانات کو بھول گئے۔ مائوں کی آغوش جو اولاد کی پہلی تربیت گاہ تھی، وہاں سے ہی مائوں نے روتے بلبلاتے بچوں کو چُپ کرانے کے لیے ان کے ہاتھوں میں فونز پکڑا دیئے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب برکتیںرخصت ہوگئیں۔ قدریں ختم ہوگئیں اور ہم اس دوڑ میں یوں شامل ہوئے کہ نہ دعائیں یاد رہیں اور نہ ہی قضائیں۔ نہ بابا کے گھر لوٹنے کا انتظار رہا نہ ہی چڑیوں کے لیے چھوڑا جانے والا وہ برکت بھرا آخری نوالہ ۔
ہمیں ماننا ہوگا کہ ہم سے غلطیاںہوئیں لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ ہم نے جو اپنے بڑوں سے سیکھا تھا وہ اب بھی ہماری صورت میں زندہ ہے ،ہاں اگر ہم نے یہ اخلاقیات اپنے بچوں میں منتقل نہ کیں تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہم اگر اخلاقیات کے تمام درس اپنے بچوں کو سونپ کر نہ گئے تو اسلامی تعلیمات سے جُڑے یہ اسباق آہستہ آہستہ منہدم ہو جائیں گے اور پھر صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گے۔
تبصرے