(قدرت کے حسین مناظر کے تناظر میں لکھی گئی تحریر)
غیر دریافت علاقوں کی جھلک انسانی لمس سے محروم ہونے کے باوجود فسوں خیز ہوتی ہے۔جس طرح ہر خطے میں کششِ ثقل ایک جیسی نہیں ہوتی، کچھ دیار بھی اپنی آب و تاب میں امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔جہانِ ہزار شیوہ و رنگ کی داستان غضب ناک ہے۔انسانی بستیوں میں پری خانہ ڈھونڈنے والے شاہراہوں کے جنگل میں گم ہوجاتے ہیں اور پربتوں کی سطح پر اجنبی سیاحوں کو اپسرائوں کے جھنڈ نظر آتے ہیں۔پرتھوی کے سمتی رخ سے مشرق کے جنوبی ایشیاء میں پاکستان جیسا ایک حسین ملک بھی ہے جس کے دامن کو کردگار نے برف پوش کہساروں،پھوٹتے چشموں، جھرنوں کی قطاروں، درختوں کے لشکر اور پربتوں سے باتیں کرنے والے بادلوں کی آماجگاہوں سے بھر دیا ہے۔جب تک تجسس سے بھرے انسان موجود رہیں گے ان علاقوں کی لطافت و غنائیت بھی قائم و دائم رہے گی۔پرشور زندگی کے چلن سے بیزار ہم جیسے لوگ ایسی سرزمین میں جینے کے لیے تڑپتے ہیں۔ہمارے اضطراب کو قرار بخشنے کے لیے گنگا چوٹی ہمیں اپنی طرف بلاتی ہے۔
کوہ ہمالیہ کے پہلو بہ پہلو پیر پنجال کا بلند و بالا پہاڑی سلسلہ ہے۔گنگا چوٹی سطح سمندر سے دس ہزار فٹ کی بلندی پر اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔گنگا ضلع باغ کی تمام چوٹیوں کی سردار چوٹی ہے۔مظفر آباد سے ضلع باغ میں ساٹھ کلومیٹر کی مسافت پر متنوع ثقافت کی سرخیل یہ چوٹی مذاہب کے پیروکاروں کے لیے کسی چلہ گاہ سے کم نہیں۔ ہم تین گھنٹوں میں اسلام آباد سے مظفر آباد اور پھر وہاں سے ایک گھنٹے میں سدھن گلی پہنچ گئے۔سر راہ ہم نے فطرت کے دلآویز نظاروں سے خود کو نہال کیا۔کشمیر، جنگلوں،سبزہ زاروں،دریائوں، آبشاروں،پھولوں اورپھلوں کے باغات، سرسبز کھیتوں اور فطری حسن سے مالا مال خوبصورت وادی ہے۔چراگاہوں میں پھیلے دیار، تونگ اور بیاڑ کے سدا بہار درخت ہیں۔بہتی ندیاں ہیں اور رسیلی گھاس پر پرندے نغماتے ہوئے رقص کرتے ہیں۔یہ سفر وجود سے زیادہ روح کی سرشاری کا سفرہے۔روحانی طراوت کا ذریعہ ہے۔ان وادیوں میں آکر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیر پنجال کسی گُرو یا مرشد کی طرح گنگا چوٹی کو اپنا خلیفہ مقرر کر چکا ہے۔
ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ سینما کی کھڑکی میں ٹکٹ بیچنے والا صرف ہاتھوں سے بات کرتا ہے۔وہ انتہائی رش میں بھی آواز سے ہاتھوں کی طلب کا اندازہ لگا کر ٹکٹ تھما دیتا ہے۔اسے علم ہے کتنی ٹکٹیں کس ہاتھ کو دینی ہیں۔وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے تکلف سے آزاد ہے۔فطرت بھی انسانوں کی بھیڑ میں اسی کی طلب پوری کرتی ہے جو قطار میں کھڑا ہو کر ہاتھ پھیلاتا ہے۔پروردگار کوئے فردوس کی ٹکٹ تھما کر ایسی اقامت گاہوں کی چھب دکھاتے ہیں جو خُلد سے متصل ہیں۔فطرت انسانوں کی ذات پات اور مذاہب سے بالاتر ہوکر عشاق سے ہم کلام ہونا چاہتی ہے ، پامال راستوں کے راز اور ناپید پھولوں کے اسرار کھولنا چاہتی ہے۔گنگا چوٹی بھی فطرت کا عظیم شاہکار ہے اور ہم اسی شاہکار کے درشن کے طالب ہیں۔ہمارے لیے سفر ایک نعمت ہے۔سفر زندگی کا استعارہ ہے۔سفر ایک جنگلی پھول ہے جو زمانے کی چال میں الجھے ہوئے انسانوں کے گملوں میں مرجھا جاتا ہے۔یہ پھول سیلانی روحوں کے لیے کِھلتا ہے۔دید باز جو زیست کے کروفر سے بے پروا ہوکر نیند میں بھی فطرت کی تپسیا کرتے ہیں اُن کے لیے ایسے جنگلی پھول کسی نعمتِ کبریٰ سے کم نہیں۔
ضلع باغ اور مظفر آباد کے دلآویز راستوں سے گزرتے ہوئے ہم سدھن گلی پہنچے۔ کشمیری زبان میں درّے کو گلی کہتے ہیں۔ سدھن گلی ضلع باغ کے چھوٹے سے درّے پر آباد ہے۔مغرب میں سنہرا سورج اپنی نرم کرنیں لپیٹ رہا تھا۔ہم نے ایک ریسٹ ہاؤس میں قیام کیا۔قیام گاہ زیادہ پُرسہولت تو نہیں تھی لیکن جن منزلوں کے ہم مسافر تھے اتنی سہولت بھی کافی تھی کہ سستانے کو پلنگ اور سر پر چھت میسر تھی۔ورنہ ہمارے پیش رو پیدل سفر کرتے ،خیموں میں رہتے تھے اور موسموں کی حدت سے ان کے ہاتھ پائوں زخمی ہوجاتے تھے۔ہم نے لذیذ لوبیا اور چپاتی کے ساتھ رات کا کھانا کھایا۔ تھکن سے چُور بدن شب کی آغوش میں گرتے ہی سو گیا۔سحر دَم بلند ہوتے سورج کی کرنیں بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہی تھیں۔کہیں کہیں دھند کی لہر ماحول کو خواب ناک کررہی تھی۔گلابی ،سبز ،نارنجی، قرمزی اور آبی رنگوں سے سجی گلوں کی کیاریاں مہک رہی تھیں۔تازہ پھولوں کی روئیدگی کا ایک مسحور کن احساس اُبھرتا ہے اور ہم رختِ سفر باندھتے ہیں۔یہاں سے گنگا چوٹی تک پہنچنے میں صرف آدھا گھنٹہ لگتا ہے۔بل کھاتی سڑک ملکی وے کی جانب جاتی ہے۔پرخطر راستہ اچانک سامنے سے غائب ہوجاتا ہے اور گاڑی چلانے والے کو سمجھ نہیں آتی کہ اس اونچائی کے بعد کھائی ہے یا بدستور راستہ باقی ہے۔ہم نے گنگا چوٹی پر جب پہلی نگاہ ڈالی تو سانس رک گئی تھی۔آنکھوں کو چندھیا دینے والی فطرت کی جمالیات اس وادی میں ظہور پذیر ہورہی تھی اور دھند چھٹ چکی تھی۔ گنگا چوٹی تک پیدل پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔جولائی کے گرم دنوں میں بھی جاڑے کا لحاف اوڑھے ہم نے ضروری سامان باندھا اورچل پڑے۔
ضلع باغ کا یہ علاقہ ہزاروں برس سے ہندومت کے زیرِ اثر رہا ہے۔گنگا چوٹی کے متعلق پراسرار کہانیاں ہیں جو مقامی قصہ گو ذوق و شوق سے سناتے ہیں۔گنگا چوٹی کے متعلق مشہور کہانیوں میں سے ایک کہانی یہ بھی ہے کہ گنگا چوٹی کا قدیم نام گل بانو تھا۔گل بانو ایک چرواہے کی بیٹی تھی۔لوگ گل بانو کے حُسن سے اتنے متاثر تھے کہ گنگا چوٹی کو ہی'' گل بانو کی پہاڑی'' پکارنے لگے تھے۔بلغاریہ کے کسی شہزادے نے اس چوٹی پر اپنا خیمہ لگایا اور گل بانو کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔دھیرے دھیرے دونوں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے لیکن سماج کے رسم و رواج نے دونوں کو ایک نہ ہونے دیا اور شہزادے نے خودکشی کرلی۔گنگا چوٹی کے متعلق من گھڑت کہانیاں سنائی جاتی ہیں اور ان لوک داستانوں پر یقین بھی آجاتا ہے۔
سیاحوں کے لیے اپریل سے اکتوبر کا موسم موزوں ہے۔یہاں دسمبر سے مارچ تک خوب برف پڑتی ہے اور درجہ حرارت کسی بے مروت انسان سے بھی زیادہ نیچے تک گر جاتا ہے۔ کہیں بادلوں کے بھورے گالے اور کہیں سورج کی تیکھی کرنیںہمیں منزل کی طرف کھینچے چلی جا رہی تھیں توکہیں تتلیوں کے غول پھولوں کی کیاریوں پر پنکھ پھیلائے ہمارا استقبال کر رہے تھے۔یہاںپل پل بدلتے موسموں کا ایک خوش کن تجربہ بھی ہوا تھا۔چوٹی پر پہنچ کر ہم نے چہار جانب پھیلی وادی کے نظر آفریں حسن سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا۔بادل، پہاڑ، دریا اور انسانی بستیاں نشیب کی جانب تھیں اور ہم سرفراز تھے۔مطلع صاف ہوا تو ہم نے جموں وکشمیر سے آتے ہوئے پیر پنجال سلسلے کی اونچی چوٹیوں کا نظارہ کیا۔گنگا چوٹی کے ایک طرف ضلع باغ کا خوبصورت نظارہ اور دوسری طرف چکار اور مظفر آباد دکھائی دیتا ہے۔گنگا کے جھرنے دریائے جہلم کے پانیوں میں جاگرتے ہیں۔گنگا کے اطراف میں بکھری زندگی کا جاہ و جلال دل افروز ہے۔ہم نے اس چوٹی پر بیٹھ کر خود کو خوش بخت تصور کیا ہے۔یہاں فطرت سے کھلواڑ کرنے والے انسانوں کی آمد ورفت کم کم رہی ہے۔بس خدا ہے جو ہر طرف پھیل کر دلوں کو سکون بخشتا ہے۔گنگا چوٹی انتہائی دلکش و حسین تھی۔ہماری آنکھیں ہر گھڑی حرکت میں تھیں ۔یہ وادی کے تمام حُسن کو اپنی گرفت میں لے کر بہت سارے خواب بُننا چاہتی تھیں اور ہر خواب گنگا چوٹی سے شروع ہوکر اِسی پر ختم ہونا تھالیکن بے قراری کا وہ عالم تھا کہ کائناتی وسعت دیکھ کر تنگی ِداماں کا احساس ہورہا تھا۔پاس ہی آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے بلند و بالا پرشکوہ پہاڑ موتیوں کی طرح چمک رہے تھے اور بادل کسی گوری کے سرمئی آنچل کی طرح لہرا رہے تھے۔کہیں دور نیچے دھواں دھار بارش ہورہی تھی۔کہیں دھند سفید بادلوں پر سیاہ رِبن باندھے رقص کررہی تھی۔ہم مخملی گھاس پر دم بھرکو لیٹے مگر بے خبری میں نیند نے آلیا۔
میدانی کوہ نورد کوہستانی مٹی پر سجدہ ریز ہوتا ہے اور عربی زبان میں جتنی دعائیں یاد ہیں وہ گنگا چوٹی کے دائمی حُسن کی نذر کرتا ہے۔آوارہ ہرن کی طرح جنگل میں بے خوف گھومنا اور زیرِ آسمان کھلی فضائوں میں آزاد و من چاہی اڑان بھرنا کسے پسند نہیں۔مگر ہم نہ تو گھوم رہے تھے اور نہ ہی اُڑ رہے تھے بلکہ بدحواس تھے۔بدحواسی کی ایک صورت ماورا ہونا بھی ہے۔ماحول سے بے نیاز اورماورا ہوکر کسی ایک وجود یا ذات پر عاشق ہوجانا بھی بدحواسی ہے۔گنگا چوٹی پر ہمارا بدحواس ہونا والہانہ پن کی ایک صورت تھی۔ہم بیک وقت اداسی اورخوشی کے حال سے گزررہے تھے ۔ہم چاہ رہے تھے کچھ ایسا ہوجائے جو اسی چوٹی پر قیام کو بڑھادے مگر ایسا نہ ہو سکا۔گنگا چوٹی کے ہر دلنشین منظرکو اپنی آنکھوں میں اُتار کر اور دل میں بسا کر ہمیں اگلی منزل کے لیے روانہ ہونا تھا۔
مضموں نگار، شاعر، سفرانچہ نگاراور دو کتابوں کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے