جنگ محض ہتھیاروں سے نہیں بلکہ غیرت ،جرأت اور قوت ایمانی سے جیتی جاتی ہے اور مسلمانوں میں یہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔انہیں مرنے کا بھلا کیا خوف جو خود شہادت کے خواہش مند ہوں۔پاک افواج کا ہر جوان ہر لمحہ اپنے ملک کی سلامتی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دینے کے لیے تیار رہتاہے اور جودھرتی ایسے بہادر بیٹے جنم دیتی ہواس پر کبھی زوال نہیں آسکتا ۔وطن کا ایک اور بیٹا وطن سے وفا اور محبت کا حق ادا کرگیا ۔پاک فضائیہ کے کاپل ٹیک محمد یونس شہید 21جون 1994کو ضلع میانوالی کے ایک گھرانے میں پید اہوئے ۔ ان کے والد محمد رستم خان مرحوم پاکستان آرمی سے بطور حوالدارریٹائرڈ تھے، جبکہ ان کے سگے ماموں پاک فضائیہ سے بطور چیف ٹیک ریٹائرڈ ہیں۔ان کے خاندان کے بہت سے افراد پاک فضائیہ سے منسلک ہیںاور رہے ہیں جبکہ شہید کاپل ٹیک محمد یونس کے چھوٹے بھائی محمد ذیشان خان بطور جے ٹی (جونیئر ٹیکنیشن) اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔ شہید کے چھوٹے بھائی محمدذیشان خان بتاتے ہیں کہ محمد یونس نے اپنے گائوں کے سکول منہاج القرآن ہائی سکول سے اچھے نمبروں سے میٹرک کاامتحان پاس کیا اور اس کے فوراً بعد پاک فضائیہ میں جانے کا جنون انہیں پاک فضائیہ بھرتی سنٹر میانوالی لے گیا ،جہاں وہ 2011میں بطور ایروٹیکنیشن سلیکٹ ہوگئے، جس پر وہ بے انتہا خوش تھے گویا ان کا خواب پورا ہوگیا۔ محمدذیشان خان بتاتے ہیں کہ محمد یونس کو پاک فضائیہ میں جانے کا شوق بچپن سے ہی تھا جس کی وجہ سے وہ زیادہ تر ماموں کے پاس رہتے جوکہ پاک فضائیہ سے ریٹائرڈ ہیں اور ان سے پاک فضائیہ کے جوانوں کی بہادری کے قصے سنا کرتے تھے ۔ایم ایم عالم سے انہیں والہانہ عشق تھا وہ موبائل پر پاک فضائیہ کی شاندار کاردگی پر مبنی ڈرامے اور ڈاکو منٹریزدیکھا کرتے تھے۔
محمد یونس نے اپنی پہلی6ماہ کی ٹریننگ کوہاٹ سے حاصل کی۔ اس کے بعد دوسال کے لیے ٹریڈ ٹریننگ اور ایجوکیشن کے حصول کے لیے کراچی چلے گئے ۔دوسال چھ ماہ کی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد2013میں ان کی پہلی پوسٹنگ کوئٹہ میں ہوئی جہاں وہ 2017تک اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے ۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ محمد یونس ایک نہایت ہی محبت کرنے والے انسان تھے،پانچ وقت کے پکے نمازی تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہر وقت باوضو رہیں ۔ہم پانچ بہن بھائی تھے۔ تین بہنیں اور دو بھائی تھے جن میں محمد یونس شہید ہوچکے ہیں۔شہیدسے بڑی دو بہنیں ہیں وہ تیسرے نمبرپر تھے مگر سبھی گھر والے ان کا احترام کرتے تھے، اس کی وجہ ان کا اخلاق تھا۔ وہ جب بھی چھٹی پر آتے توگھرمیں شادی کا سماں ہوتا، رشتہ دار عزیز واقارب تو الگ، انہیں ملنے کے لیے تقریباً پورا گائوں اُمنڈ آتا جس پر کبھی کبھار والدہ کہہ دیتیں کہ ''یونس تمہارے پاس تو اپنے ماںباپ کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا ،کبھی ماں کے پا س بھی بیٹھ جایا کر، تو ہمیںملنے آتا ہییا گائوں والوں سے ملنے آتا ہے''جس پر ان کے والد،والدہ کو کہتے کہ'' ساری بہاریں ہمارے یونس پتر کی وجہ سے ہیں، اس پر غصہ نہ ہوا کر۔ دیکھ لینا کہ میرے یونس کو بہت بڑا مقام ملے گا۔''
شہید کے چھوٹے بھائی بتاتے ہیں کہ 2017میں بھائی کی شادی ہوگئی ،وہ انتہائی خوش تھے اور دعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ انہیں پہلی اولاد بیٹی عطا فرمائے کیونکہ وہ کہتے تھے کہ میں نے علمائے کرام سے سنا ہے کہ جس سے اللہ راضی ہوتا ہے اسے پہلی اولاد بیٹی عطا فرماتا ہے۔ 2017ء کے آخر میں بھائی کی پوسٹنگ پشاور ائیر بیس ہوگئی ۔محمد ذیشان بتاتے ہیں کہ محمد یونس ایک درد دل رکھنے والے انسان تھے ۔جب بھی چھٹی پرگھر آتے تو کبھی کسی بیمار کولے کر ہسپتال جارہے ہوتے تو کبھی کسی گائوں کی بیٹی کی شادی کے انتظامات کر رہے ہوتے ،کبھی کسی غریب بچے کو سکول کی کتب خرید کردے رہے ہوتے۔ ایک دن والدہ سے کہنے لگے کہ اگر میرے بس میں ہو تو میں کسی بھی انسان کو تکلیف میں نہ رہنے دوں ۔ان کے بھائی بتاتے کہ محمد یونس نے اپنے علاقے سے لے کر تحصیل کی سطح پر تھیلیسمیاکے موذی مرض کا شکار بچوں کے لیے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک فری بلڈ ڈونیشن سینٹر بنایا ہوا تھاجہاں وہ خود بھی اپنا بلڈ ڈونیٹ کرتے تھے اور دوسرے لوگوں سے بھی بلڈ ڈونیٹ کرواتے تھے ۔آج بھائی کی شہادت کے بعد ان کے دوستوں نے''شہید محمد یونس خان فری بلڈ ڈونیشن سینٹر برائے تھیلیسمیا'' کے نام سے ان کے اس عظیم مشن کو جاری رکھا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ نے بھائی کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور ان کو پہلی اولاد بیٹی سے نوازا جس کا نام میں نے وانیہ نور رکھاکیونکہ میں نے بھائی سے کہا تھا کہ پہلے بچے کانام میں رکھوں گا جوکہ اس وقت پانچ سال کی ہے ۔بیٹی کی پیدائش پر سبھی خوش تھے ۔ہم نے سارے گائوں میں موتی چو ر کے لڈو بانٹے۔ بعض دقیانوسی سوچ کے مالک لوگ آج بھی بیٹی کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو بیٹوں کو دیتے ہیں اورجس شخص کی بالخصوص پہلی اولاد بیٹی ہو اسے منحوس مانا جاتا ہے ،چند لوگوں نے یہ کہا کہ لڈو تو بیٹوں کی پیدائش پر بانٹا کرتے ہیں جس پر بھائی نے انہیں بیٹیوں کی وجہ سے جنت میں جانے والی حدیث سنائی اور کہا بیٹیاں تو اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔
2018ء میں ہمارے والد محترم اللہ تعالیٰ کوپیارے ہوگئے۔ ان کی وفات کے بعد بھائی نے ہمیں کسی بھی صورت ان کی کمی کااحساس نہ ہونے دیا ۔وانیہ نور کے بعد بیٹا شہیر عبداللہ پیدا ہوا جس کی عمر اس وقت تین سال ہے اس کے بعد محمد شمیر خان پیدا ہوا جو اس وقت نو ماہ کا ہے۔2017سے 2022کی آخر تک یعنی پانچ سال بھائی نے پشاور ائیر بیس پر اپنی ڈیوٹی سرانجام دی ۔
2023 میں محمد یونس کی پوسٹنگ میانوالی ائیر بیس پرہوگئی ،گھر سے قریب ہونے کی وجہ سے بھائی ہر ویک اینڈ پر گھر آجاتے تھے ۔میرا پاک فضائیہ میں جانا بھی بھائی کی خواہش تھی ۔4نومبر2023رات تین بجے کا وقت تھا، جب محمد یونس دفتر میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے کہ اچانک باہر سے دھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں ،معلوم ہوا کہ دہشت گردوں نے تربیتی ائیر بیس پر حملہ کردیا ہے ۔ محمد یونس دشمن کو دیکھتے ہی ان پر جھپٹ پڑے۔ دہشت گردوں نے بھائی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کی وجہ سے وہ موقع پر ہی جام شہادت نوش فرماگئے۔ (اناللہ واناالیہ راجعون)
پاک فوج کے مؤثر جواب نے دہشت گردوں کے اس حملے کو ناکام بنادیا اور اس حملے میں شامل تمام 9دہشت گرد مارے گئے ۔ محمد ذیشان بتاتے ہیں کہ 4نومبر صبح پانچ بجے بھائی شہید ہوئے اور مجھے تقریباً صبح سات بجے کال آئی کہ آپ کے بھائی محمد یونس خان شہید ہوگئے ہیں۔میرے لیے یہ بات والدہ اور بھابھی کو بتانا اس قدر مشکل تھی کہ میں اس کیفیت کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ یہ میرا پیغام ان افراد کے نام ہے جو پاک فوج کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ ان کو کیا علم کہ بوڑھے والدین کے لیے جوان بیٹے کی لاش اٹھانا کتنا مشکل ہوتا ہے ،ایک بیوی کا اپنے شوہر کو اور بچوں کا اپنے باپ کو کھو دینا کتنا بڑا دکھ ہوتاہے ۔ دنیا کی ہر چیز مل جاتی ہے مگر بوڑھے ماںباپ کو ان کا بیٹا ،بہنوں کو ان کا بھائی ،بیوی کو اس کاشوہر اور بچون کو ان کا باپ کبھی نہیں ملتا ،کبھی ایک دن گولیوں کے سائے میں سرحد پر پہرہ دے کر تو دکھائیں ؟پھر ان کو احساس ہوگا ۔ محمد ذیشان بتاتے ہیں کہ ماموں کو بھی بھائی کی شہادت کاعلم ہوچکا تھا انہوں نے والدہ کو بتایا ،امی جان نے بڑی ہمت سے یہ خبر سنی اور بے ساختہ کہا کہ ''اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے شہید کی والدہ ہونے کا اعزاز بخشا''رونا تو ایک فطری عمل ہے ۔
ایک اہم بات جو بھائی نے 2022 کے ماہ محرم میں مجھ سے اس وقت کی تھی جب ہم والد کی قبر پر فاتحہ کے لییگئے تھے۔ محمد یونس کہنے لگے کہ ذیشان ہمارے پورے قبرستان میں کسی بھی قبر پر پاک وطن کا پاک جھنڈا نہیں لہرارہا (کیونکہ جھنڈا شہدا ء کی قبروں پر لگایا جاتا ہے)میری اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ وہ یہ سعادت میرے نصیب میں لکھ دے کہ میری قبر پر پاکستان کا جھنڈا لہرائے ۔اللہ تعالیٰ نے بھائی کی اس خواہش کو پورا کردیا۔ شہید کاپل ٹیک محمد یونس خان کا جسد خاکی سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا گھر لایا گیا، پورے گائوں نے اشک بار آنکھوں سے پھولوں کی پتیوں کے ساتھ شہید کاوالہانہ ستقبال کیا اور 5نومبر 2023کو انہیں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سیکڑوں سوگواران اور عسکری وسیاسی قیادت کی موجودگی میں آبائی قبرستان ترگ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ وطن کا بیٹا وطن پر قربان ہوگیا اور ترگ گائوں کے قبرستان میں بھی ایک قبر پر پاکستان کا جھنڈا لہرانے لگا ۔شہید کاپل ٹیک محمد یونس خان علاقے کا پہلا شہید ہے۔ اللہ تعالیٰاُن کی شہادت کو قبول فرمائے۔آمین ۔
مضمون نگارمختلف قومی اخبارات ا ور رسائل کے لیے لکھتے ہیں ا ور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے