بڑھتے ہوئے موسمیاتی چیلنجز کے پیش نظر پاکستان موسمیاتی مشکلات کے خلاف ایک بڑی جنگ کا سامنا کر رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنا بھرپور کردار کر رہا ہے۔ تاہم موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کو درپیش خطرات واضح طور پرنمایاں ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق ملک کو شدید موسمی چیلنجز سے نبرد آزما ہونا پڑرہا ہے جن میں ڈرامائی انداز میں اضافہ ہوا اور خطرات بڑھ گئے، بلوچستان میں حالیہ سیلاب اس کی بڑی مثال ہے۔ حالیہ سیلابوں نے نہ صرف مقامی آبادیوں کو بڑے پیمانے پر تباہی سے دوچار کیا بلکہ موسمیاتی مزاحمتی حکمت عملیوں کی فوری ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔ پاکستان پر عالمی موسمیاتی تبدیلی کے اس غیر متناسب اثرات نے کوپ۔ 28(کانفرنس آف دی پارٹیز28) جیسے بین الاقوامی فورمز کی اپنی جانب توجہ مبذول کروائی ہے، جہاں قوم کی کوششوں اور چیلنجز کو عالمی سطح پر جانچا جائے گا۔گیسوںکے عالمی اخراج میں اپنے کم ترین حصہ کے باوجود پاکستان عالمی حدت کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنے میں سب سے آگے ہے۔
پاکستان کے ردعمل کا مرکز نیشنل اڈاپٹیشن پلان (نیپ (2023 ایک جامع فریم ورک ہے جس کا مقصد لچک اور پائیداری کو فروغ دینا ہے۔ وزارت منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات پاکستان کے مستقبل کو ایک پائیدار مستقبل کے لائحہ عمل کے ساتھ ترتیب دے رہی ہے، جسے وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری نے پیش کیا ہے۔ نیپ 2023 چھ اہم ستونوں کے گرد تشکیل دیا گیا ہے، جس کا ہر ستون آب و ہوا کے موافقت اور لچک کے ایک اہم شعبے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ان ستونوں میں آبی وسائل کا انتظام شامل ہے، جس کے تحت آب و ہوا کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر پانی کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے آبی وسائل کے پائیدار انتظام، زراعت اور خوراک کی حفاظت، غذائی تحفظ کو یقینی بنانا اور موسمیاتی جدید زرعی طریقوں کو فروغ دینا، جنگلات اور حیاتیاتی تنوع جیسے عوامل شامل ہیں تاکہ آب و ہوا سے آنے والے سیلاب، گرمی کی لہر اور خشک سالی جیسی آفات کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔ بنیادی ڈھانچے اور تعمیر شدہ ماحول کے حوالے سے آب و ہوا کے خطرات اور اثرات کے خلاف لچکدار ہونے کے لیے شہری اور دیہی آبادیوں سمیت بنیادی ڈھانچے کی تشکیل اور مضبوطی، صحت عامہ کے حوالے سے صحت عامہ پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنا اور صحت کے نظام کی لچک کو یقینی بناناہے تاکہ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے صحت کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔
ان ستونوں کا مقصد اجتماعی طور پر پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے زیادہ لچکدار اور موافق بنانے کے لیے ایک جامع اور مربوط نقطہ نظر بنانا ہے۔ نیپ 2023-کے تحت اہم منصوبے موسمیاتی کارروائی کے حوالے سے پاکستان کے فعال مؤقف کو اجاگر کرتے ہیں۔ عالمی بینک کی 213 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ بلوچستان انٹیگریٹڈ فلڈ ریزیلینس اینڈایڈیپٹیشن پروجیکٹ (IFRAP) کا مقصد سیلاب سے متاثرہ کمیونٹیز کی تعمیر نو کرنا ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کرتا ہے بلکہ مستقبل میں موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے مقامی صلاحیتوں کو بھی مضبوط کرتا ہے۔ سندھ میں، کوسٹل ریزیلینس پروجیکٹ سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح اور ساحلی کٹائو کی وجہ سے درپیش چیلنجز سے نمٹتا ہے۔ یہ اقدام کمزور ساحلی ماحولیاتی نظاموں پر منحصر آبادیوں کے روزگار اور معاش کے تحفظ کے لیے اہم ہے۔ یہ آب و ہوا کی تبدیلی اور سماجی و اقتصادی ترقی کے درمیان پیچیدگیوں سے نمٹنے کی ایک اسٹریٹجک تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔ جیسا کہ عالمی برادری کوپ۔ 28 کے لیے یکجا ہو رہی ہے، پاکستان کی کہانی بہت زیادہ مشکلات کے باوجود عزم و عمل کی مثال ہے۔
نیپ۔ 2023کی رہنمائی میں ملک کی کوششیں پائیدار ترقی اور موسمیاتی کارروائی کے عزم کو ظاہر کرتی ہیں۔اگرچہ مستقبل کا راستہ چیلنجز سے بھرا ہوا ہے مگر پاکستان کا سفر لچک اور موافقت کے حوالے سے باعث اطمینان اورقابل قدرہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ ایک عالمی جنگ ہے، جس کے لیے تمام اقوام کی جانب سے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اخراج اور اثرات میں تفاوت عالمی ماحولیاتی پالیسیوں میں مساوات اور انصاف کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ جہاں دنیا قیادت اور عزم کے لیے کوپ28 کی طرف دیکھ رہی ہے ، پاکستان کی کہانی ایک یاد دہانی ہے کہ ہر عمل کا شمار ہوتا ہے۔ بڑے پیمانے پر منصوبوں سے لے کر کمیونٹی کی سطح کے اقدامات تک، ایک پائیدار اور لچکدار مستقبل کی طرف سفر ایک اجتماعی کوشش ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نیشنل کلائمیٹ فنانس سٹریٹجی (این سی ایف ایس)تیار کر لی گئی ہے جبکہ پائیدار فنانس بیورو(ایس ایف بی)کا قیام بھی عمل میں آگیا ہے۔ اس سٹریٹجی کا مقصد شعبہ جاتی ترجیحات کی نشاندہی کرنا اور موسمیاتی مالیات کی پیمائش کرنا ہے جبکہ یہ پالیسی پیرس معاہدے کے لیے پاکستان کے عزم کا سنگ بنیاد ہے، جس سے نجی شعبے کی شمولیت، بین الاقوامی موسمیاتی مالیات اور کاربن مارکیٹوں کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو موسم/آب و ہوا سے متعلقہ خطرات جیسے سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، خشک سالی، گرمی کی لہروں، شدید سردی اور طوفان وغیرہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پائیدار فنانس بیورو، موسمیاتی مالیات میں انقلاب لانے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ یہ بیورو پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی)کو پائیدار فنانس کی طرف دوبارہ گامزن کرے گا۔ مالی سال 2023-24 میں 20 فیصد (925 بلین روپے) نئی PSDP سکیموںکے لیے رکھا گیا ہے جبکہ توقع ہے کہ یہ اقدام رعایتی کلائمیٹ فنڈز کے لیے کوالیفائی کرے گا، جس سے پاکستان کی آب و ہوا کے اہداف کو پورا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ عالمی بینک کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق ایک اہم اقدام میں، پاکستان کو 2023 اور 2030 کے درمیان نظامی لچک حاصل کرنے کے لیے 348بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ یہ سرمایہ کاری آب و ہوا سے پاک پاکستان کی ترقی کی رفتار کو آگے بڑھانے اور اس کے لوگوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہے۔ ان اقدامات نے ایک کلائمیٹ ریسپانسیو پبلک انویسٹمنٹ فریم ورک کی اہمیت پر بھی زور دیا، جو کہ تمام ترقیاتی منصوبوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد میں آب و ہوا کے تحفظات کو یکجا کرتا ہے جبکہ یہ نقطہ نظر قومی موافقت کے منصوبے (NAP)اور قومی سطح پر طے شدہ شراکت(NDCs) کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جو موسمیاتی سمارٹ پالیسیوں اور طریقوں کے لیے پاکستان کی کوششوں کو ظاہر کرتا ہے۔ قومی موسمیاتی مالیاتی حکمت عملی (NCFC)، موسمیاتی سرمایہ کاری کا منصوبہ اور پائیدار مالیاتی بیورو (SFB) بھی اس کوشش میںشامل ہیں۔ ان اقدامات کے تحت کثیرالجہتی اور دو طرفہ اداروں کی طرف سے قائم کردہ ماحولیاتی فنڈز تک رسائی حاصل ہوگی۔ جو تمام وزارتوں اور صوبوں کو پائیدار مالیاتی فنڈز تک رسائی اور بانڈز، انشورنس، کریڈٹ بڑھانے اور دیگر آپشنز جیسے فنانسنگ وغیرہ کو فروغ دینے کے لیے مشاورتی خدمات فراہم کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔واضح رہے کہ حال ہی میں، کابینہ نے نیشنل اڈاپٹیشن پلان (NAP) 2023 کی منظوری دی ہے جس کا مقصد ان کمیونٹیز کی حفاظت کرنا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کا شکار ہیں۔ NAP کے تحت، حکومت دیگرسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کمزور کمیونٹیز کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے اقدامات کرے گی اور ان اقدامات میں قبل از وقت وارننگ سسٹم اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات شامل ہیں۔
مضمون نگار ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان(اے پی پی) کے ساتھ وابستہ ہیں۔
تبصرے