حوالدار قیصر غفور بھٹی شہید کے بارے میں عبدالستار اعوان کا مضمون
15فروری2015ء کی شام کوئٹہ میں سکیورٹی فورسز کو اطلاع ملی کہ دہشت گردی کی کئی خطرناک وارداتوںکا ماسٹر مائنڈ انتہائی مطلوب دہشت گرد اپنے ساتھیوں سمیت سریاب روڈ کے ایک ہوٹل میں پہنچنے والا ہے۔ اداروں کو ایک عرصہ سے اس دہشت گرد کی تلاش تھی۔یہ خفیہ اطلاع ملتے ہی جواں ہمت حوالدار قیصر غفور بھٹی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مذکورہ ہوٹل پہنچ گئے۔ وہ جس ٹیبل پر بیٹھے ان سے کچھ ہی فاصلے پر وہ دہشت گرد بھی اپنے گروپ کے ساتھ موجود تھا۔حوالدار قیصر غفور شہید نے بغور جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ وہی دہشت گرد ہے ۔ جب دہشت گرد کھانا کھا کر باہر نکلنے لگے تو موقع ملتے ہی فورسز کے جوانوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ دوطرفہ فائرنگ شروع ہوئی اور دہشت گرد اپنے ایک ساتھی سمیت موقع پر ہی ہلاک ہو گیا جبکہ اس کے دو دیگر ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔اسی دوران دہشت گردوں کے ساتھیوں کی فائرنگ سے حوالدار محمد قیصر غفور بھٹی جام شہادت نوش کر گئے۔
قارئین !اس اہم انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے ہیرو حوالدار قیصر غفور بھٹی شہید 19فروری1977ء کو ضلع سیالکوٹ کے ایک گائوں بجوات میں عبدالغفوربھٹی کے ہاں پیدا ہوئے۔ 1989ء میں آپ کے والدین سمبڑیال منتقل ہوگئے تھے ۔شہید کے والد عبدالغفور بھٹی بھی پاک فوج کی ای ایم ای (الیکٹریکل اور مکینکل کور)میں فرائض انجام دیتے رہے اور نائیک کے رینک سے ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ حوالدار قیصر غفور بھٹی نے ابتدائی تعلیم عوامی ہائی سکول سمبڑیال سے حاصل کی اور انٹر میڈیٹ کا امتحان مرے کالج سیالکوٹ سے پاس کیا ۔ اس سخت جاںاور بہادرمحافظ وطن نے 1998ء میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی اور آرڈننس کور میں بطور ایس ایم ٹی کلرک بھرتی ہوگئے۔ انہوں نے پانچ سال سروس کے بعد انٹیلی جنس کا امتحان پاس کیا اور مستقل طور پرآرڈننس کور سے آئی ایس آئی میں آگئے۔قیصر غفورنے ارض وطن کی خاطر اندرون ملک متعدد خطرناک اورمشکل آپریشنز میں حصہ لیا اور بہترین کارکردگی دکھائی۔وہ کراچی،پشاور ،ملتان اورکوئٹہ میں خدمات انجام دیتے رہے۔پاک فوج میں کھیلوں کی سرگرمیوں میں خوب حصہ لیتے ،انہیں کرکٹ کھیلنے سے خاص دلچسپی تھی۔
شہید کے بھائی فیصل غفوربھٹی نے بتایا کہ قیصر غفور بڑے ہنس مکھ انسا ن تھے۔وہ شہادت سے تین ماہ قبل دسمبر2014ء میں چھٹی پر گھر آئے اور اہل خانہ سے ڈھیروں باتیں کیں۔ ان کی ہمارے ساتھ آخر ی بار 15فرور ی 2015ء کو صبح 11بجے فون پر بات ہوئی او ر اسی روز وہ جام شہادت نوش کر گئے۔فیصل غفور بتارہے تھے کہ آج پورے سمبڑیال میں ہماری ایک الگ پہچان ہے اور ہر شخص ہمارا احترام کرتا ہے اور ہمیں یہ ساری عزت قیصر غفور کی وجہ سے اللہ نے عطا کی ہے۔علاقہ کے لوگ ان کا نام بہت احترام سے لیتے ہیں۔گورنمنٹ ایلیمینٹری سکول سمبڑیال سے قیصر شہید نے مڈل تک تعلیم حاصل کی تھی ،ان کی شہادت کے بعد پنجاب حکومت نے اس سکول کو گورنمنٹ قیصر شہید سکول کے نام سے منسوب کیا ہے۔14اگست ،6ستمبر یا کسی بھی قومی دن کے موقع پر آرمی والے ہمارے پاس ضرورآتے ہیں اور قیصر شہید کے مزار پر پھول چڑھاتے ہیں ۔ہمیں فخرہے کہ ہم قیصر شہید جیسے بہادر سپوت کے بھائی اور بہنیں ہیں اور پاک فوج کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں آج بھی نہیں بھولی۔ فیصل غفور نے بتا یا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے چاند سابیٹا عطا فرمایااور ہم نے اس کا نام شہید کی یاد میں محمد مرتضی قیصر رکھا ہے ۔ہم نے یہ پیارا سابیٹا شہید کی بیوہ اور بیٹیوں کو دے دیا ہے کہ اب یہ آپ کا بیٹااور بھائی ہے۔ہم جب بھی مرتضی قیصر کودیکھتے ہیں ہمیں اپنا شہید بھائی یاد آجاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ شہید ایک مشن اور نظریے کے تحت فوج کا حصہ بنے تھے۔ یہ ان کا اخلاص اور پیشہ ورانہ عسکری مہارت ہی تھی کہ آرمی جوائن کرنے کے مختصر عرصہ بعد انہیں دنیا کی مایہ ناز انٹیلی جنس ایجنسی میں مستقل طور پر شامل کر لیا گیا ۔آپ نے جلد ترقی حاصل کی اورشہادت سے کچھ عرصہ پیشتر حوالدار کے رینک پر فائز ہوئے ۔ عسکری قیادت نے انہیں جو ذمہ داریاں تفویض کی تھیں انہوںنے اس کا حق ادا کیا اور وطن عزیز کے دفاع و سلامتی کی خاطر ہرمشکل ٹاسک کو کامیابی سے طے کیا ۔شہید نے آخری دو سال کوئٹہ میں خدمات انجام دیں اوروطن دشمنوںکے خلاف ہر مہم میں سرگرم عمل رہے ۔
شہید کے والد حوالدار عبدالغفور مرحوم کوبیٹے کی شہادت کی اطلاع ملی تھی تو انہوں نے کہا تھا :'' مجھے بیٹا کھو جانے کا بہت افسوس ہے لیکن میں چونکہ خود بھی فوجی ہوں تو ہم جب فوج میں جاتے ہیں تو وطن کی حفاظت کی خاطر اپنی جان بھی قربان کرنے کاعہد کرتے ہیں ،یوں میرے بہادر بیٹے نے اپنی قسم کی لاج رکھتے ہوئے وطن کی خاطر اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہ کیا اور پاک فوج کی بہادری اور جواں مردی کی روایت بھی برقرار رکھی۔ حالانکہ اسے سوفیصد معلوم تھا کہ اس آپریشن میں اس کی جان بھی جا سکتی ہے لیکن اس نے ڈیوٹی اور فرض کو ترجیح دی اور اپنی جان کی پرواہ نہ کی۔''فیصل غفور نے بتایا کہ جس وقت شہید بھائی کو اسلام آباد کی ایک پروقار تقریب میں ''تمغہ بسالت ''دیاگیاتو والد صاحب نے یہ تمغہ فوجی قیادت سے وصول کیا تھا۔قیصر شہید کو بلوچستان حکومت کی جانب سے نمونے کا بڑا سول اعزاز'' بلوچستان ایکسی لینس ایوارڈ'' بھی دیا گیا ۔
شہید کی والدہ بتاتی ہیں کہ قیصر ایک شرارتیں کرنے والا ذہین بچہ تھا۔چونکہ وہ سب سے بڑا تھا تو ہمارا لاڈلہ بھی تھا۔اس کے دوست بھی بہت زیادہ تھے۔ وہ جہاں بھی گیااس نے اپنے بہت سارے دوست بنائے۔اس کے گائوں کے دوست اب بھی اسے بہت یاد کرتے ہیں۔شہید کی والدہ کا کہنا تھا کہ قیصر کی شہادت کے بعدجب ہمیں سابق سپہ سالارجنرل راحیل شریف کی جانب سے خط موصول ہوا تو ہمارے حوصلے اس قدر بلند ہوئے جوہم الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے ۔ اس خط میں انہوں نے ہمارے بیٹے کے درخشاں کارناموں کا بھرپور اعتراف کرتے ہوئے لکھا:
''حکومت پاکستان نے آپ کے شہید بیٹے کی شجاعت ، بہادری ،فرض شناسی اور اپنی جان قربان کرنے کے جذبے کا اعتراف کرتے ہوئے بعد از شہادت انہیں تمغہ بسالت کا اعزاز عطا کیا ہے ۔ شہادت کا بلند مقام حاصل کر کے آپ کے بیٹے نے مسلمانوں کی شجاعت اور قربانی کی عظیم روایات کی آبیار ی کی ہے۔ان کی یہ قربانی اور شہادت ہمیشہ دوسروں کے لیے بھی مشعل راہ ہوگی ۔اللہ عزوجل آپ کے شہید بیٹے کی عظیم قربانی کوقبول فرمائے اورا نہیں ابدی راحتیں عطا فرمائے۔آمین۔ میں آپ کے شہید بیٹے کی کارکردگی پر فخر محسوس کرتاہوں اور اس بات سے مطمئن ہوں کہ حکومت پاکستان نے شہید کے درخشاں کارنامے کااعتراف کیا ہے''۔
حوالدار قیصر غفور شہید کی بڑی بیٹی زہرہ قیصر سکینڈ ایئر کی سٹوڈنٹ ہیں۔ انہوںنے میٹرک اور فرسٹ ایئر میڈیکل میںنمایاں پوزیشن حاصل کی جبکہ شہید کی چھوٹی بیٹی فائزہ قیصرنویں کلاس میں زیرتعلیم ہیں۔انہوں نے ''ہلال''سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ''ہمارا عزم ہے کہ ہم تعلیم حاصل کر کے پاک فوج کی میڈیکل کور جوائن کریں اور اپنے بہادر والد کی طرح اس ملک کی خدمت کریں۔ ہم جہاں بھی جاتی ہیں بڑے فخر کے ساتھ بتاتی ہیں کہ ہم شہید کی بیٹیاں ہیں اورلوگ بہت شفقت سے ہمارے ساتھ پیش آتے ہیں۔جب والد صاحب شہید ہوئے تو اس وقت ہم بہت چھوٹی تھیں لیکن ہم دونوں کا اپنے بابا کے ساتھ بہت لگائو تھا ۔آج بھی بابا یاد آتے ہیں تو ہمارا صبر کاپیمانہ لبریز ہوجاتاہے ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری ماما ، داداجان ، دادی جان اور پیارے چاچو فیصل غفور نے ہمیں کسی محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا اور وہ بہت زیادہ شفقت کے ساتھ ہماری پرورش کررہے ہیں''۔
پنجاب حکومت نے گورنمنٹ مڈل سکول سمبڑیال اور دھانانوالی روڈسمبڑیال کو شہید کے نام سے منسوب کیا۔شہید کے بھائی فیصل غفور بھٹی نے ان کے نام سے ایک ویلفیئر ٹرسٹ بھی قائم کیا ہے جس کے تحت علاقہ کے غریب و نادار لوگوں کی داد رسی کی جاتی ہے اور فلاح و بہبود کے کام کیے جاتے ہیں ۔قیصر غفور بھٹی شہید ویلفیئر سوسائٹی کے تحت فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد بھی کیا جاتاہے جس میں میڈیکل سپیشلسٹ ،آئی سپیشلسٹ، گائناکالوجسٹ،سکن سپیشلسٹ،چائلڈسپیشلسٹ اور دیگر پروفیسر ڈاکٹرز کی نگرانی میں مریضوں کا فری معائنہ کیا جاتا ہے اور انہیں مفت ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔ شہید کے ورثاء '' قیصر غفور بھٹی شہید ویلفیئر سوسائٹی'' کو بالکل اسی جذبے کے تحت چلارہے ہیںجس کا بہترین مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے بہادر بیٹے نے اپنی جان دھرتی پر قربان کی تھی ۔حوالدار قیصر غفور بھٹی شہید کی نماز جنازہ 16 فروری 2015ء کو سہ پہر تین بجے ادا کی گئی جس میں فوجی ، سیاسی شخصیات اور عام شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ شہید کوایک مستعد فوجی دستے نے سلامی پیش کی اور انہیں قبرستان پیر زین العابدین سمبڑیال میں سپرد خاک کیاگیا۔ اس موقع پر قومی پرچم اورشہید کے زیر استعمال فوجی کیپ اور دیگر فوجی اشیاء اور اعزازات ان کے والد کے سپرد کیے گئے ۔
مضمون نگار شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک ہیں اور اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں۔
تبصرے