دنیا بھر میں اور ملکوں ملکوں تو فاصلے قربتوں میں بدل رہے ہیں۔
مگر گھر گھر قربتیں کم ہورہی ہیں اور فاصلے بڑھ رہے ہیں۔
محلات ہوں، بنگلے یا چھوٹے چھوٹے گھر، سب اپنے اپنے اسمارٹ فون کی اسکرین میں کھوئے ہوئے ایک دوسرے سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔بیسویں اور اکیسویں صدی کے انسان نے زندگی کو آسان سے آسان تر کرنے کے لیے جتنی بھی ایجادات کی ہیں، ان کا مثبت استعمال بھی ہو رہا ہے اور منفی بھی۔ ان ایجادات کے استعمال کی نوعیت ہر علاقے کے مزاج اور حالات کی مناسبت سے ہوتی ہے۔ اپنے بنیادی مسائل حل کر کے ایک سسٹم بنا کر زندہ رہنے والی قومیں ان ایجادات اور جدید ٹیکنالوجی سے زندگی کو مزید سہل بنانے کی کوشش کرتی ہیں ۔ ہر ٹیکنالوجی کو اچھی طرح سمجھتی ہیں۔ اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتی ہیں۔ اس کے براہ راست اثرات اور ذیلی اثرات کا جائزہ لیتی ہیں۔
ٹیکنالوجی کو پوری طرح سمجھ کر استعمال کرنا ضر وری ہے۔ ورنہ ٹیکنالوجی آپ کو استعمال کرنے لگتی ہے۔ آپ اس کے ہاتھوں میں ایک کٹھ پتلی بن کر رہ جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں سوشل میڈیا کی آمد کے بعد سے بعض اینکر پرسنز، ٹک ٹاکرز وغیرہ کی ذاتی زندگیاں توسنور رہی ہوں گی مگر معاشرے کو ملک کو ان ڈالروں سے کچھ فائدہ نہیں ہورہا ۔ کاش یہ لوگ سنسنی پھیلانے کی بجائے اس طاقت ور ذریعے کو ملک میں یکجہتی، تخلیقی قوت میں اضافے اور شہریوں کی صلاحیتیں اجاگر کرنے کے لیے استعمال کرتے۔
سوشل میڈیا کا آغاز ہمارے ہاں ویب سائٹ اور ای میل سے ہوا تھا۔ صنعتی ملکوں نے اسے اپنے کاروبار کو مستحکم بنانے کے لیے استعمال کیا۔ پھر ایک تواتر سے نئے نئے رابطے آرہے ہیں۔فیس بک ،ٹوئٹر، پوڈ کاسٹ، انسٹا گرام، پن انٹرسٹ، یو ٹیوب، واٹس ایپ، چین نے اپنیWe Chat بنائی ہے، متحدہ عرب امارات میں BOTIMہے۔ گوگل معلومات کی نئی نئی دنیاؤں کے دروازے کھولتا ہے۔ کسی ٹکٹ، کسی پاسپورٹ، کسی طیارے، کسی سہارے کے بغیر آپ مختلف اقالیم اورسلطنتوں میں سفر کرتے ہیں۔ آپ پر نئے نئے آفاق طلوع ہوتے ہیں۔ اس نشریاتی برقی طرز زندگی کی اپنی اصطلاحات ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ، وڈیو واچنگ کمیونٹی، اپ لوڈنگ، اپ لنکنگ ۔اب پوری دنیا میں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ایسی کمیونٹی قائم ہوچکی ہے جو آپس میں بہت جڑی ہوئی ہے۔ ہر لحظہ با خبر ہے۔ ایک دوسرے کی مددگار ہے۔ آن لائن اربوں ڈالر کا کاروبار ہورہا ہے۔
ترقی یافتہ دنیا میںسائنسدان اپنے اپنے شعبے میں خوب سے خوب ترکی جستجو میں رہتے ہیں۔ ایک کشمکش ہے، ایک عزم ہے کہ انسان نامعلوم کائناتوں کو تسخیر کرے اور زندگی کی اب تک کی پوشیدہ جہات کو اپنی گرفت میں لے۔ میں تو ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ یہ نئی دنیا ئیں، نئی تکنیک، جدید صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے مقسوم توکر رکھی ہیں لیکن یہ کس عہد میں، کس علاقے میں تفویض ہوں گی، اس کا تعین قادر مطلق نے اپنے پاس رکھا ہے۔ دنیا کے حرکت میں آنے کا آغاز پہیے سے ہوتا ہے۔ گھو متادائرہ۔ گھوڑے کے ساتھ ہو، گدھے کے یا بیل کے، یہ انسان کے اپنے سفر میں اور مختلف اشیا کی نقل و حمل میں معاون ہوا ہے۔ سائیکل ،ریل گاڑی ،کا ر، بس اورپھر ہوائی جہاز تک پہنچا ہے اور پھر بیسویں صدی کے آخر میں حضرت انسان پر عجیب خبط سوار ہوا کہ وہ ایک جگہ بیٹھے ہی مختلف علاقوں کے لوگوں، دفتروں، کمپنیوں اور حکومتوں سے مربوط رہنا چاہتا ہے۔یہ تکنیک کم خرچ بھی ہے اور تیز رفتار بھی۔ اسے مواصلاتی دنیا کے علوم کہہ لیں یا سماجی رابطے یا ڈیجیٹل دنیا۔ ان ایجادات نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ سب سے زیادہ مؤثر پہلو اس کا یہ ہے کہ اس سے حکو متیں، کمپنیاں،تنظیمیںیاسیاسی جماعتیں مضبوط نہیں ہوئی ہیں بلکہ اس سے ایک فرد کو طاقت ملی ہے۔ یہ ایک فرد دنیا کے کسی بھی علاقے میں ہو وہاں کس قسم کی حکومت ہو، کوئی بھی نظام معیشت ہو، صدارتی یا پارلیمانی نظام، بادشاہت یا عوامی راج، فوجی حکومت یا منتخب سرکار، کسی قسم کی پابندیاں ہوں، ایک فرد اپنے خیال کا، عزائم کا اظہار کرسکتاہے۔ ہر شخص کے پاس آئیڈیاز کا ایک بینک ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا نے یہ ثابت کردیا کہ شہری یاعام لوگ زیادہ طاقت ور ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کے عوام کے لیے سوشل میڈیا دو دھاری تلوار بن جاتا ہے۔ مگر ریاست اور حکومت بروقت اقدامات کرے تو وہ اس طاقت بخش میڈیا کے ذریعے آگے بڑھنے کا ایک ایجنڈ ا دے سکتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ یہ دوسرے ذرائع اور حالات کی طرح بہت زیادہ مہنگا طریقہ نہیں ہے۔ متوسط طبقوں کے افراد کی قوت خرید میں بھی ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والی ہزاروں کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں۔ موبائل فون کمپنیاں آپس کی مسابقت میں وائی فائی اور دیگر متعلقہ خدمات نسبتاً ارزاں مہیا کررہی ہیں۔
اس سہولت کو ہم دو دھاری اس لیے کہہ رہے ہیں کہ جن سرزمینوں میں پہلے سے اقتصادی سماجی بحران ہوں اور جو معاشرے ابھی اپنی تشکیل اور تعمیر کے مراحل سے گزر رہے ہوں، جہاں بے سمتی زیادہ ہو، سماج مختلف گروہوں، فرقوں، قبیلوں اور برادریوں میں بٹا ہوا ہو، جہاں تعصبات کی جڑیں پھیلائی جارہی ہوں، جہاں دشمن ممالک بھی ریشہ دوانیوں میں سرگرم ہوں، وہاں اطلاعات کی یہی مشینیں بلڈوزر کا کام انجام دیتی ہیں۔ ایک محقق نے کہا ہے۔
It is clear that when human and machine have access to the same data, machine will beat the human.
ترجمہ: یہ واضح ہے کہ جب ایک مشین اور انسان کو ایک ہی ڈیٹا(معلوماتی اعداد و شُمار) تک رسائی ہو تو مشین انسان کو پیچھے چھوڑ جائے گی۔
سوشل میڈیا ہو یا ٹی وی چینلز اپنے ہاں یہ گزشتہ دو تین دہائیوں کے درمیان فعال ہوئے ہیں۔ پہلے تو پرائیویٹ ٹی وی چینلوں نے 24گھنٹے نشریات جاری کرکے پرنٹ میڈیا، کو بے اثر کیا۔ حالانکہ اخبارات اور قارئین میں رشتہ ایک مصنوع اور صارف کا نہیں تھا۔ قارئین کو اخبارات نے مصنوعات کی طرح تیار کیا تھا۔ پھر بھی یہ رشتہ پہلے منقطع ہوا پھر پوری طرح ختم ہوتا رہا۔ پھر پرنٹ کے ہاتھ سے دولت بھی جاتی رہی ہے اور اثر و رسوخ بھی۔ اب ہمارے ہاں وہی اخبار مالکان با اثر ہیں جن کے اپنے ٹی وی چینل بھی ہیں۔ مگر سوشل میڈیا سے اسمارٹ فون کی جادو کی ڈبیا نے پرنٹ کے ساتھ ساتھ ٹی وی چینلز سے بھی غلبہ اور نفوذ چھین لیا ہے۔ ایک ایڈیٹر کے ادارے کی وجہ سے پرنٹ کے ہاں متانت اور وقعت ہوتی تھی، ساری چیزیں اس کی نظر سے گزرتی تھیں۔ اسے اندازہ ہوتا تھا کہ اخبار یا رسالے کا بالآخر امپیکٹ(اثر) کس حد تک ہوگا۔ پھر ٹی وی چینلوں میں کسی حد تک یہ مرکزیت ٹی وی کے سربراہ، ڈائریکٹر نیوز اور میڈیا ہائوس کے مالک کی وجہ سے تھی کہ وہ ملک کے مفاد، معاشرے کی رسوم و قیود، مذہب کی حدود کو پیش نظر رکھتے ہوئے نشریات کی اجازت دیتے تھے۔ رپورٹرز، نمائندگان، اینکر پرسنز کی باقاعدہ تربیت کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اینکر پرسنز مقبول ہونے لگے تو انہوں نے اپنی شرائط پر کام شروع کردیا۔ اپنے اپنے ملک کے با اثر حلقوں اور طاقت ور شخصیات سے ان کے قریبی تعلقات ہونے لگے۔ پھر ان کی ماہانہ اجرتیں اور مراعات بھی غیر معمولی تھیں۔ اس سے معاشرے میں اطلاع کی فراہمی کا توازن خراب بھی ہوا۔ لیکن سوشل میڈیا کا استعمال جو بھی کررہا تھا اس کی تربیت تھی نہ کوئی ایڈیٹر، نہ مالک۔ یہاں یہ بھی تعین نہیں تھا کہ کونسی اطلاع عام ہونی چاہیے کونسی نہیں۔جیسے ٹی وی چینل پر ''پہلے ہم نے خبر دی'' کی دوڑ تھی۔ سوشل میڈیا پر ''چونکانے'' کا مقابلہ تھا۔ سچ یا جھوٹ۔ ایسی ایسی شہ سرخیاں جن کا متن میں یا پوری وڈیو میں کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔
سوشل میڈیا نے یہ قیامت پوری دنیا میں برپا کر رکھی ہے۔ حکومتیں، بیورو کریسی، فوجیں اور کاروباری حلقے سخت پریشان ہیں۔ لیکن جن ملکوں میں حکمرانی کے سسٹم مضبوط اور مستحکم ہیں وہاں سوشل میڈیا سے اٹھائی گئی جھاگ جلد بیٹھ جاتی ہے۔ جہاں سسٹم میں نقائص ہوں جہاں بند میں شگاف پڑ سکتے ہوں وہاں سوشل میڈیا ایک اضطراب اور طوفان لے آتا ہے۔ اس کا انحصار اس سر زمین کے ذہنوں کی قبولیت اور عدم قبولیت پر بھی ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا ایک مصنوعی ذہانت ہے انسان کی پیدا کردہ۔ انسان کو ذہانت رحیم و کریم بصیر و خبیر کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے۔ انسان جب مشینوں کو ذہانت دیتا ہے تو وہ اس کی گرفت سے آزاد ہوجاتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کا اس وقت غلبہ ہے۔ اب چیٹ جی پی ٹی بھی آگئی ہے جو آپ کو کسی بھی موضوع پر مضمون لکھ کر دے سکتی ہے۔ آپ کے لیے کسی اہم سے اہم اورمشکل سے مشکل شعبے پر لیکچر بھی تیار کرکے دے سکتی ہے اور تواور، یہ غزلیں نظمیں بھی تخلیق کررہی ہے۔ کتابیں بھی وجود میں لارہی ہے۔
اتنا اہم طاقت ور نتیجہ خیز و سستا اور ہر ایک کی رسائی میں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انتہائی تیز رفتار ذریعۂ ابلاغ۔ اگر ٹیکنالوجی کا ہمہ جہت جائزہ لیا جائے تو یہ پاکستان جیسے ملک ایک جادوئی مجموعی تبدیلی لاسکتا ہے یہ خیال رہے کہ اطلاعاتی ٹیکنالوجی میں ہر لمحے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ بڑی بڑی قیمتی مشینیں ناکارہ ہورہی ہیں۔ نئے نئے چھوٹے آلات آرہے ہیں۔ چین اس صلاحیت میں سب سے آگے ہے۔ اقبال کہہ گئے ہیں۔
جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہوگا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی، اسی کا مشتاق ہے زمانہ
ہمیں ٹیکنالوجی کی ان ہر پل تبدیلیوں کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ضرورت یہ ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ہر فرد کی مطلوبہ تربیت ہو۔ ملک کے سیاسی اور اقتصادی حالات نے اکثر پاکستانیوں کے ذہن میں یہ بات بٹھادی ہے کہ اپنے ارد گرد کے سرکاری دفاتر، سرکاری حکام، حکمرانوں کی کرپشن، شہ خرچیوںاور عیش و عشرت کو بے نقاب کرنا ہی افضل ترین جہاد ہے۔پھر جب اس پر Views بھی بہت آئیں ڈالرز کی بارش بھی ہونے لگے تو یہ روش ہی قبول عام حاصل کرتی ہے۔ مگر اس سے کیا ہم اپنا سسٹم بہتر کرپارہے ہیں؟ کیا اس سے ملک کے اقتصادی مسائل حل ہورہے ہیں؟ کیا اس سے فی ایکڑ پیداوار بڑھ رہی ہے؟ کیا اس سے ہم آئندہ کے لیے کسی روڈ میپ کی بنیاد رکھ رہے ہیں؟
سوشل میڈیا کے تقاضے ایک معاشرے کی برقی طور پر تنظیم بھی ہے، گردش خون کو برقرار رکھنا بھی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد چھوٹی چھوٹی ریاستیں وجود میں آئی ہیں۔ ان میں ایک استونیا بھی ہے جو شمال یورپ میں واقع ہے۔ 1500جزیروں پر مشتمل جنگل ہیں، پرانے قلعے ہیں، عجائب گھر، آبادی تیرہ لاکھ کے قریب۔ یہاں یورو چلتا ہے۔ اس کی اپنی کرنسی کا نام کردن ہے۔یہاں ایک یورو اب 296 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ استو نیا بہت غریب ملک تھا۔ زیادہ تر نادار تھے۔ لیکن ڈیجیٹلائزیشن سے وہاں غربت کی شرح کم کی گئی۔ زیادہ تر خدمات آن لائن مہیا کی گئیں۔ ڈیجیٹل ماہرین زیادہ تر استونیا کی مثال دیتے ہیں جس نے گور نمنٹ آن لائن، کا روبار آن لائن سے اپنے آپ کو ترقی دی۔
موجودہ پاکستان کو تو اللہ تعالیٰ نے بے حساب قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ ہمارے پاس کئی سو میل لمبا قدرتی ساحل ہے۔ سمندری حدود بھی ماشاء اللہ بہت وسیع بھی اور بہت گہری بھی ہیں۔ دریا بڑے طویل اور پانی سے مالا مال، سر سبز پہاڑ، خشک پہاڑ، قیمتی پتھر، سونا تانبا،پورے سال چاروں پانچوں موسم بیک وقت دستیاب۔زرخیز زمینیں، جفاکش، توانا پاکستانی۔ ملک کی 60 فیصد آبادی نوجوان ہے۔ 15سے 30سال کے درمیان۔ ان کی سیکھنے کی صلاحیت کئی ملکوں کے باشندوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ہماری جغرافیائی حیثیت بھی خاص ہے۔ مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کے درمیان زمینی، فضائی اور سمندری رابطہ ہے۔ ہماری تاریخ د س ہزار سال پرانی ہے۔ آج سے آٹھ ہزار سال پہلے پاکستان میں مہذب رہن سہن تھا۔ جس سر زمین کے پاس اتنا 'دولتمند ڈیٹا' ہو، اتنے وسائل ہوں وہاں جب جدید ترین ٹیکنالوجی کا ذہانت اور معروضیت پر مبنی استعمال ہو تو بہت بڑی سماجی اور اقتصادی تبدیلی آسکتی ہے۔
ہمارا ہر فرد اپنے ذہن میں صدیوں کا ڈیٹا رکھتا ہے۔ اس کو ایک سمت دینے کی ضرورت ہے۔ اس سمت میں سوشل میڈیا یعنی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اب تک آن لائن ٹیکنالوجی سے بعض کاروباری افراد، بعض کارپوریٹ حلقے اپنی ترقی تو کررہے ہیں لیکن پاکستانی سماج اور قوم کو ڈیجیٹلائزیشن سے آگے لے جانے میں کلیدی کردار ادا نہیں کررہے ۔ موبائل فون انڈسٹری ایک واضح مثال ہے۔ بلوچستان کے دور دراز علاقے ہوں یا پنجاب کے گنجان آباد شہر، سندھ کے ریگ زار ہوں، کراچی جیسا بہت زیادہ آبادی والا صنعتی و تجارتی مرکز، کے پی جیسے پہاڑی علاقے، آزاد کشمیر کے کوہستانی شہر، گلگت بلتستان کی بلندیاں، موبائل فون بھی ہر جگہ موجود ، اسکے رابطے اور نیٹ بھی موجود۔ بیسویں صدی میں یہ سہولتیں نہیں تھیں۔ آپ کرائے کی گاڑیوں کا نیا پیشہ دیکھ لیں۔ یہ سہولت صرف انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا سے ہی حاصل ہوئی ہے۔ ملک میں بھی کئی ہزار ڈرائیور ہوں گے جو اس نیٹ ورکنگ سے روزانہ معقول پیسے کماکر اپنے گھر کا چولہا روشن رکھ رہے ہیں۔
سماجی تبدیلی، ملکی خوشحالی اور اقتصادی ترقی میں مرکزی کردار ہمارے سکول کالج اور یونیورسٹیاں ادا کرسکتے ہیں۔ ہماری اولادیں، نئی نسلیں،سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے طالب علم اپنے طور پر سوشل میڈیا کا استعمال سیکھ رہے ہیں اور یہ زیادہ تر تفریح کی خاطر ہورہا ہے، معاشرے میں مثبت پیش رفت کے لیے نہیں ۔ ہمارے ثقافتی، علمی، تہذیبی اور ہنر مندی کے ڈیٹا کو پوری طرح بروئے کار نہیںلایا جارہا ہے۔ دیہات سے معزز مائیں بہنیں۔ بزرگ نوجوان اپنے طور پر یو ٹیوب چینل بناکر کوشش کررہے ہیں کہ اپنی زراعت، باغبانی، کھانے پکانے کی ترکیبوں کو پھیلا سکیں۔ موسیقی کے فروغ کے لیے یہی مساعی ہورہی ہیں۔ شاعر اپنا کلام سناکر داد حاصل کررہے ہیں۔ مگر بنیادی طور پر شہرت اور مقبولیت پیش نظر ہے۔ اپنا مستقبل ،اپنی اولادوں کے لیے محفوظ معاشرہ اور ترقی پسند سماج سامنے نہیں رکھا جارہا، ڈیجیٹل کمپنیاں، فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ ہماری لایعنی اور بے مقصد اچھل کود سے ہزاروں منٹ کمارہی ہیں۔ موبائل فون کمپنیاں رات رات بھر کے پیکیج دے رہی ہیں۔ جس سے ہمارے نوجوان محنت کش، ڈرائیور، مزدور پہروں باتیں کرتے ہیں اور یہ کمپنیاں اس سے اربوں ڈالر کمارہی ہیں۔ ہم صرف باتیں بناتے ہیں یہ کمپنیاں ڈالر بناتی ہیں۔25 کروڑ پاکستانیوں میں سے 18 کروڑ کے پاس موبائل فون ہیں۔ پاکستان بہت زیادہ Teledepth رکھنے والے چند ملکوں میں سے ہے۔ اس لیے موبائل فون کمپنیوں نے اپنی پوری توجہ اس غریب ملک پر مرکوز کررکھی ہے۔ کئی برس سے ہم اقتصادی انحطاط کا شکار ہیں لیکن موبائل فون کی فروخت اور اس پر پیکیج کے حصول میں کمی نہیں آئی۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی انسانی وسائل یعنی افراد ڈیجیٹل سماج کے لیے بہت مثبت رجحان رکھتے ہیں۔ اگر یہ موبائل کمپنیاں، سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیاں، محکمہ تعلیم، تحقیقی ادارے، ہائرایجوکیشن کمیشن، ماہرین تعلیم، ایجوکیشن فائونڈیشنیں۔ ڈیجیٹلائزیشن اور سوشل میڈیا کے لیے باقاعدہ تربیتی نصاب بنائیں، جدید تر ڈیجیٹل اصولوں کے مطابق پاکستان کے سماجی، تہذیبی، اقتصادی، زرعی، صنعتی ڈیٹا کے ذخائر قائم کریں، نوجوانوں کو ان روایات اور اقدار کی بنیاد پر ٹک ٹاک، کہانیاں، وڈیوز، وی لاگ بنانے کا ماحول تشکیل دیں اور نوجوان اس جہت میں مسابقت کریں، پاکستان کے چاروں صوبوں کے تاریخی اور قابل دید مقامات، جزیروں، سمندر، دریائوں کی وڈیوز بنائی جائیں، اپنی لوک کہانیوں اور لوک گیتوں کو یو ٹیوب چینلوں پر بہتر رنگوں اور سُروں کے ساتھ پیش کیا جائے، تاریخی مقامات کی سیاحت روحانی مراکز کے دوروں کی بات کی جائے، علاقے کے مقامی ہیروز کو مختلف زبانوں میں دلچسپ کہانیوں کی صورت میں فلمایا جائے، امید اور آگہی کا امتزاج ہو، اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور طبعزاد رجحانات کا سوشل میڈیا پر امتزاج پیش کیا جائے تو ہم ملک پر مسلط مافیاز کاغاصبانہ غلبہ بھی ختم کرسکتے ہیںاور مفاد پرست طبقوں کی گرفت بھی کمزور کرسکتے ہیں۔ صوبہ بلوچستان جہاں آبادی کم ہے اور فاصلے بہت ہیں۔ وہاں تو نیٹ ورکنگ اور زیادہ مددگار ہوسکتی ہے۔ آن لائن تعلیم دی جاسکتی ہے۔
یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اب اشاعت اور فروغ کے قدیم طریقے کارگر نہیں ہیں۔ اب پرنٹ کا ہنر اور صلاحیت کمزور اور رفتہ رفتہ معدوم ہورہی ہے لیکن خواب اور خیال تخلیق اور تحقیق کی اب بھی ضرورت ہے۔ پاکستان میں افسانہ نگار بہت ہیں جن سے ایسی کہانیاں اور پیکج لکھوائے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کو قدرت کی طرف سے اتنے مناظر،حسن فطرت، بلند پہاڑی چوٹیاں، سمندر کی گہری رنگین تہیں، دریائوں کے آس پاس گھنے اور حسین جنگل اور عشق و محبت سے بھری لوک داستانیں میسر ہیں جو پہلے پرنٹ کے ذریعے بین الاقوامی دنیا کی دلچسپی کا مرکز بنتی رہی ہیں۔ اب یہی ثقافتی ذخائر، سماجی مظاہر، جدید ترین ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے مختلف مقامات آہ و فغاں فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ، ای میل، انسٹا گرام، ٹک ٹاک کے ذریعے بین الاقوامی توجہ اپنی طرف مبذول کرواسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر برپا طوفانوں کو ایک سمت دینے کی ضرورت ہے۔ پہلے بھی ہم بڑے ڈیم بناکر میٹھے پانی کو محفوظ نہیں کرسکے ۔ اب یہ وائی فائی یہ صدائی لہریں یہ وڈیوز بھی ہر لمحے ضائع ہورہی ہیں۔ پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں۔ پرانی وڈیوز کو نئی اطلاع کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے۔ ان سے مستقبل کی صورت گری ہوسکتی ہے۔ ہمارے بیٹے بیٹیوں کی اچھل کود سے ٹیکنیکل کمپنیاں اربوں ڈالر کمارہی ہیں ۔ ہمیں صرف طنزو تشنیع اور مایوسی مل رہی ہے۔ یہ خیال رہے کہ دنیا بھر میں یونیورسٹیاں ہمیشہ ذہانت اور دانش کی فراہمی کے لیے تعمیر کی جاتی تھیں۔ اب بھی ان کی ذمہ داری ہے کہ مصنوعی ذہانت کی اس ٹیکنیک کو عوامی مفاد میں استعمال کرنے کے لیے نصاب تشکیل دیں۔ آن لائن ہونے سے ایک معاشرہ زیادہ آفاقی، زیادہ جدید شکل اختیار کرتا ہے جہاں حقائق اور اعداد و شُمار یعنی ڈیٹا کو اولیت حاصل ہوتی ہے۔ اب مستقبل اسی ٹیکنالوجی کا ہے۔ اگر ہم اس ٹیکنالوجی کے حصول میں تاخیر کریں گے تو مستقبل ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔
مضمون نگارنامورصحافی' تجزیہ نگار' شاعر' ادیب اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے