پانی وہ نعمت ہے جسے ہم لاپروائی سے استعمال کرتے ہیں۔ گویا اس کی کوئی قیمت ہی نہیں اور پانی ہی وہ چیز ہے جو ہماری زندگی کے لیے سب سے قیمتی ہے۔ ہمارا دین ہمیں پانی ضائع کرنے سے منع کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے جو نعمتیں ہمیں دی ہیں ان میں پانی سب سے قیمتی نعمت ہے۔ انسان خود زیادہ تر پانی پر مشتمل ہے اور ہماری خوراک کا انحصار بھی پانی پر ہے۔ مرد میں، جسم کا تقریباً 60 فیصد خواتین میں تقریباً 55 فیصد پانی ہوتا ہے۔
بنیادی طور پر دیکھا جائے تو ہمارے پاس وافر پانی موجودہے، ہمارے پاس بہتے دریا ہیں لیکن ہم اس پانی کو اپنی زراعت اور بجلی کی پیداوار کے لیے ذخیرہ نہیں کر رہے ہیں۔ پن بجلی دیگر تمام ذرائع کے مقابلے میں سستی پڑتی ہے۔
ہمارے پاس پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کا بہت کم حصہ ہے۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ اگر ہم پانی سے 100 فیصد بجلی پیدا کریں تو یہ کتنی سستی دستیاب ہو گی اور ہمیں کتنے کم بل ادا کرنے پڑیں گے۔ پاکستان کی توانائی کا مرکب 64 فیصد فوسل فیول مطلب مہنگا فرنس آئل، 27 فیصد پن بجلی ہائیڈرو پاور اور 9 فیصد دیگر قابل تجدید ذرائع اور جوہری توانائی سے بنتا ہے۔
اپنی بجلی کی پیداوار اور زراعت کے لیے ہمیں پانی کے ذخائر کی ضرورت ہے۔ ایک اور بات جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم کبھی خشک سالی دیکھتے ہیں اور کبھی سیلاب میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہ سب پانی کے تحفظ اور مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
اگر ہم اپنے آبی ذرائع جو کہ بنیادی طور پردریائوں، گلیشیئرز اور بارشوں پر مشتمل ہیں، ان کا بہتر انتظام کر سکتے ہیں، تو ہم نہ صرف خشک سالی سے بچ سکتے ہیں بلکہ ہم اپنے نشیبی علاقوں کو سیلاب سے بھی بچا سکتے ہیں۔ سیلاب جو ہماری ترقی کو تباہ کرتا ہے، سیلاب جو گھروں کو منہدم کرتا ہے، سیلاب جو سڑکوں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیتا ہے اور سیلاب جو قیمتی جانیں لے جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر سیلاب جو ہر دو تین سال بعد ہمارے بجٹ میں خلل ڈالتاہے اور ہم مجبورہو جا تے ہیں کہ ہم اپنا سفر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور زندگی کو بحال کر نے کے ساتھ دوبارہ شروع کریں۔
ہمارے ہاں پانی پربھی سیاست ہو رہی ہوتی ہے جو ایک اور مسئلہ ہے۔ مثلاًکالا باغ ڈیم جو صوبوں کے درمیان ایک تنازع ہے۔ یہ مسئلہ ہماری قومی سالمیت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہاں ہمیں اپنے ہم وطنوں کو متحد رکھنے کے ساتھ ساتھ پانی کا انتظام بھی ضرور کرناہے۔
پانی بین الاقوامی تعلقات کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر دریائے جہلم اور چناب پر بھارتی ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر -بھارت نے انڈس واٹر ٹریٹی میں جہلم اور چناب پر پاکستان کی ملکیت منظور کی تھی۔ اس کے باوجودبھارت نے ان پر وولر بیراج، کشن گنگا ڈیم اور بگلیہار ڈیم بنائے - اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں ملکوں کے درمیان تصادم اور جنگوں کا بنیادی سبب پانی ہوگا۔
بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں پانی کے 5 بڑے منصوبے سندھ طاس معاہدے کی روح کے خلاف ہیں۔ اگر بھارت نے ان منصوبوں کو نہ روکا تو یہ منصوبے پاکستان میں خشک سالی کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہاں ہمیں بانی ِ ٔ پاکستان قائداعظم کا یہ قول یاد آتا ہے کہ 'کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔' انہوں نے یہ بات بجا طور پر کہی کیونکہ ہمارے پنجاب اور سندھ کے زیادہ تر علاقے جہلم اور چناب سے آنے والے پانی سے کاشت ہوتے ہیں اور بھارت نے وہاں ڈیم بنا کر پاکستان کا پانی روک دیا ہے۔
انڈس واٹر ٹریٹی بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک معاہدہ ہے، جسے عالمی بینک نے دریائے سندھ اور اس کی معاون دریائوں میں دستیاب پانی کو استعمال کرنے کے لیے ترتیب دیا۔اس پر 19 ستمبر 1960 کو کراچی میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور صدر ایوب خان نے دستخط کیے تھے۔
یہ معاہدہ بھارت کو تین مشرقی دریائوں بیاس، راوی اور ستلج کے پانی پر کنٹرول دیتا ہے - تین مغربی دریائوں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی کے استعمال کا حق پاکستان کو دیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر پر اپنے غیر قانونی کنٹرول کو پاکستان میں واٹر ایمرجنسی کے لیے استعمال کیا۔ پاکستان میں آبی دہشت گردی شروع کر دی- پانی روک کر خشک سالی پیدا کردینا یاوارننگ دیئے بغیر اچانک پانی چھوڑ کر پنجاب میں سیلاب جیسی صورتحال پیدا کردینا بھارت کا وتیرہ بن گیاہے ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے اندر پانی کی حفاظت کی کیا صورتحال ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس، اسلام آبادکے مطابق پانی کی شدید کمی ہے اور صورت حال خوفناک ہے ۔ دنیا کے انتہائی خطرے والے 17 ممالک میں پاکستان 14ویں نمبر پر ہے۔فہرست میں سعودی عرب جیسے گرم اور خشک ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک میں آبادی کو سال کے کم از کم ایک ماہ تک پانی کی شدید قلت کا سامنا رہتا ہے۔ پاکستان کو 2025 تک 'پانی کی کمی' کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اب یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اس خطرناک صورتحال پر قابو پانے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے۔ چند اقدامات ہیں جو ہمیں جلد از جلد اٹھانے کی ضرورت ہے اور یہ اقدامات اسی وقت اٹھائے جا سکتے ہیں جب تمام سٹیک ہولڈرز مرکزی، صوبائی حکومتیں، محکمے، تمام سیاسی رہنما ایک قوم کی طرح کام کریں اور اس چیلنج کو مشترکہ قومی ذمہ داری کے طور پر لیں۔ صرف پچھلی حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرانے سے کوئی حل نہیں نکلے گا۔ماہرین کا مشورہ ہے کہ پاکستان میں حکومتوں کو پانی کی تقسیم پر ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے جو پانی کے زیادہ منصفانہ استعمال کو فروغ دے۔بنیادی ڈھانچے کی دیکھ بھال، پانی کے تحفظ کی ٹیکنالوجیز اورپانی کے معاملے پر بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔پالیسی ساز استعمال شدہ پانی کی ری سائیکلنگ پر زور دیتے ہوئے پانی کی پالیسی پر نظر ثانی کریں جیسا کہ اسرائیل اور سنگاپور میں کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے آبی وسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ نئے ڈیمزکی جلد از جلد تعمیر کو یقینی بنایا جائے تاکہ پاکستان کے آبی اور توانائی کے مسائل کا کچھ تدارک ہو سکے۔ یہ ایک قومی معاملہ ہے جس کے لیے تمام شراکت داروں کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے۔
تمام متعلقہ اداروں اور پالیسی سازوں کو اسے انتہائی اہم قومی ایشو گردانتے ہوئے اس کے لیے ٹھوس اقدامات عمل میں لانے ہوں گے تاکہ وطنِ عزیز پاکستان اس چیلنج سے نبرد آزما ہو کر خوشحالی اور بہتری کی جانب گامزن ہو سکے۔
مصنف اسلام آباد میں اردو اخبار اور انگریزی بین الاقوامی میگزین کے ایڈیٹر ہیں اور ان سے
[email protected]
تبصرے