سرکارِ دوعالمۖ مسجد نبوی میں صحابہ کرام کے ساتھ موجود تھے جب ایک شخص آیا اورعرض کی '' یا رسول اﷲ ! میرا باپ میرا مال خرچ کردیتا ہے اور مجھ سے پوچھتا بھی نہیں۔'' آپ ۖنے فرمایا'' اُسے بلائو'' جب اُسے پتہ چلا تو اس نے پوچھا ''مجھے اﷲ کے رسولۖ نے کیوں بلایا ہے۔'' جواب دیاگیا ''آپ کے بیٹے نے رسولِ کریم ۖسے آپ کی شکایت کی ہے۔'' انہیں اس بات کا اتنا دُکھ ہوا کہ انہوں نے بارگاہ ِ رسالت مآبۖ کی جانب آتے ہوئے راستے میں دل ہی دل میں چند اشعار پڑھے، وہ اشعار اُن کی زبان پر نہ آئے مگر جب وہ مجلس میں پہنچے تو اُن سے پہلے جبریل علیہ السلام آگئے اور کہا '' یارسول اﷲ! اﷲ تعالیٰ کہہ رہے ہیں کہ ان کا مسئلہ بعد میں سنیں پہلے ان سے کہیں کہ وہ شعرسنائیں جو اُنہوں نے اپنے بیٹے کے شکوے میں کہے ، جو اُن کی زبان سے ادا تونہیں ہوئے مگرآپۖ کے اﷲ نے سُن لیے ہیں''۔ توآپ ۖنے اُن سے فرمایا '' تمہاری بات تو میں بعد میں سنوں گا، پہلے وہ شعر سنائو '' انہوں نے عرض کی''اَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلَ اﷲ(میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اﷲ کے رسول ہیں) یا رسول اﷲ میں نے دُکھ میں چند اشعار دل ہی دل میں دہرائے تھے آپۖ کے رب نے عرشوں پہ سنا، واقعی آپ کا رب بھی سچا اور آپ بھی سچے ہیں''۔ آپۖ نے پوچھا ''تم نے کیا کہا تھا''، اُس نے کہا : ''میرے بیٹے جس دن تُو پیدا ہوا میں نے اُس دن اپنی ذات کے لیے جینا چھوڑ دیا تھا، میں نے سب کچھ تیرے لیے وقف کردیا تھا۔ تیری ایک مسکراہٹ کے لیے میں ساری ساری رات تڑپا، سارا سارا دن تیرے لیے محنت کی، میں بوڑھا ہوتا گیا توُ پروان چڑھتا گیا،میرے ہاتھ کانپنے لگے، تیرے ہاتھ مضبوط ہوگئے۔ میں لڑکھڑانے لگا توُ اِترانے لگا۔ جب توُ جوان ہوا مجھے بڑھاپے نے نگل لیا، جب جوانی نے تجھ میں رنگ بھرا بڑھاپے نے میرا رنگ چھین لیا، جب جوانی نے تجھے سیدھا کیا بڑھاپے نے میری کمر جھکا دی تو توُ مجھے یوں دیکھنے لگاجیسے میں نوکر ہوں تو مالک ہے ۔ چل میرے بیٹے میں تیرا نوکر، تو میرا آقا ہی سہی۔'' آقا کریمۖ نے جب یہ اشعار سُنے تو روتے روتے آپ ۖ کی ہچکی بندھ گئی۔ آپۖ نے اس شخص سے فرمایا: ''اَنْتَ وَ مَالُکََ لاَِبِیْکَ'تو اور تیرا مال سب کچھ تیرے باپ کا ہے۔''
اولاد کے لیے جہاں والدہ کا مقام بہت اعلیٰ ہے وہیں والد کا مرتبہ بھی بہت افضل ہے۔ ہم جہاں والدہ کے قدموں میں اپنی جنت تلاش کرتے ہیں وہیں اپنے والدکی رضا اور خوشنودی کے ذریعے دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز بھی پاتے ہیں۔ فرمانِ مصطفی ۖ ہے کہ ''طَاعَةُ اﷲِ طَاعَةُ الْوَالِدِوَ مَعْصِیَةُ اﷲِ مَعْصِیَةُ الْوَالِد''ِ یعنی والدکی اطاعت اﷲ کی اطاعت اور والد کی نافرمانی اﷲ کی نافرمانی ہے۔
تپتی دھوپ میں اولاد کے لیے محنت مزدوری کرنے والا، بارش میں خود ٹھٹھرتے ہوئے اپنی اولاد کو سائبان بخشنے والا، سارا دن بھوکا رہ کر اپنی اولاد کو پیٹ بھر کے کھلانے والا،اپنی آرزوئوں کا گلا گھونٹ کر اولاد کے منہ سے نکلنے والی ہر خواہش پوری کرنے والا مضبوط سہارا، گھنیرا سایہ اور ایثار کا پیکر والد کے سوا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ سردی، گرمی، خزاں، بہار،پت جھڑ، بارش ، جاڑے کا موسم، کڑکتی بجلی، الغرض موسموں کا کوئی روپ ہو، سختی کا کوئی رنگ ہو، باپ ایساایک قوی رشتہ ہے جس کے ہوتے ہوئے ہر غم ، ہر تکلیف، ہر کڑا وقت چپ چاپ اپنا رستہ بدل کے ہماری راہ سے دور ہوجاتا ہے۔ ہمیں والد کی موجودگی کا احساس جہاں اک پر سکون محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتا ہے وہیں ہماری شخصیت کو اعتماد کے رنگ میں رنگ کر مزید نکھارتا ہے اور زندگی کے نشیب و فراز سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نبرد آزما ہونے کا فن بھی سکھاتا ہے۔حضور اکرمۖ کا ارشاد ہے کہ ''باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے، چنانچہ تمہیں اختیار ہے خواہ( اس کی نافرمانی کرکے) اس دروازے کو ضائع کردو یا (اس کی فرمانبرداری کرکے ) اس دروازے کی حفاظت کرو'' ۔
دنیا کے سب ہی رشتوں میں چاشنی اور مٹھاس کا عنصر پایا جاتا ہے مگر جو بے لوث محبت خالق ِ کائنات نے ماں باپ کے دل میں اولاد کے لیے رکھی ہے اس کی کوئی اور مثال ممکن نہیں۔ ماں کے پیار کا تذکرہ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں اورمرتے دم تک سنتے رہیں گے مگر ماں کے ساتھ ساتھ والد کی محبت بھی اتنی ہی بے لوث ہوتی ہے۔ مائیں جہاں گھر میں رہ کر ہماری تربیت اور کردار کی تعمیر میں حصہ ڈالتی ہیں وہیں ہمارے والد ہمارے سُکھ چین کے لیے اپنا آج ہمارے کل پہ قربان کرنے کا وہ جذبہ رکھتے ہیں جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔ اگر یوں کہا جائے کہ دنیا کی سب سے خوبصورت چھت باپ کا سایہ ہے تو یقینا یہ ایک سچ ہے۔
میرے بابا کے دم سے ہے وہ بھی
ماں کے پائوں تلے جو جنت ہے
ہمیں کامیاب مستقبل کی بنیا د فراہم کرنے والا ہمارا باپ چپ چاپ اپنے نحیف کاندھوں پر وہ بوجھ لادتا ہے جو اُس کے لیے اُٹھانا آسان نہیں ہوتا۔ اُس کی محبت اور دعائیں ہمیں دنیا کے ہر امتحان اور حالات سے لڑنا سکھاتی ہیں۔باپ کے دل میں اللہ کریم نے وہ جذبہ رکھا ہے کہ دنیا کا واحد رشتہ جو اپنی اولاد کو خودسے زیادہ کامیاب دیکھ کر خوش ہوتا ہے وہ باپ ہے۔
میں نہ ہوتا جو آج ہوں بابا
تم نے محنت اگر نہ کی ہوتی
پوری کائنات میں ایک والد ہی وہ شخص ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے اولاد ہر ڈر سے ناآشنا ہوتی ہے۔ ادھر کوئی خواہش دل میں ابھری ادھر والد نے پوری کردی۔ یقینا خا لقِ کائنات نے والد کے رشتے کو ایثار اور قربانی کی معراج بخشی ہے۔ اپنے لیے زندگی کی ہر رعنائی، آسائش اور سکون سے کنارہ کشی اختیار کرکے دن رات محنت کرنے والا باپ جب رات کو تھک ہار کر بستر کو لوٹتا ہے تو اس کا انگ انگ درد اور تکلیف کی عملی تصویر ہوتا ہے پھر بھی وہ ایک مضبوط چٹان کی مانند اپنا درد کسی سے بیان نہیں کرتا۔ اُسے بھی اپنا بچپنا یاد آتا ہے اپنے ماں باپ یاد آتے ہیں بہن ،بھائی اوردوست احباب یاد آتے ہیں جو اس سے بچھڑ گئے مگر وہ اولاد کے سامنے روتا نہیں اُسے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے کمزور پڑنے کا احساس اس کی اولاد کو بھی کھوکھلا کر دے گا۔ لہٰذا وہ کبھی اپنی ذمہ داریوں سے غفلت نہیں برتتا، چاہے اس فرض کی ادائیگی کے لیے اُسے اپنا آپ بھی قربان کرنا پڑے وہ اولاد کی خوشیوں کے لیے ہر حد سے گزر جاتا ہے۔
ہماری خواہشات پوری کرتے کرتے ہمارے والد بھول جاتے ہیں کہ ان کے دل میں اپنی ذات کے لیے بھی کچھ حسرتیں تھیں۔ نہ تو کبھی کسی نئی آسائش کی تلاش کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے لیے اچھا پہننے اوڑھنے کی تمنا کرتے ہیں۔ ہمارے آرام کے لیے اور ہماری ضروریات کو پورا کرتے ہوئے کبھی ان کے ماتھے پہ کوئی بل نہیں پڑتا۔کبھی وقت ملے تو اپنے والد کاہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دیکھیے آپ کے ہاتھوں کی لکیریں ابھارنے کے لیے ان کے اپنے ہاتھوں کی لکیریں مٹ چکیں۔ ان کے چہرے پہ سجی جھریاں دیکھیے جو گواہ ہیں کہ آپ کا مستقبل بناتے بناتے وہ کن آزمائشوں سے گزرے۔ ان کے لبوں پہ جاری دعائوں کے ورد سے پوچھیے آپ کی کامیابیوں کے لیے دعائوں کے یہ سلسلے کتنے شب و روز کی منازل طے کرچکے۔ شاید آپ کو احساس ہوجائے کہ تمام دنیاوی کامیابیاں ان کی دعائوں کا ثمر ہیں۔آپ کا پُرسکون آج ان کی شبانہ روز کاوش اورگزرے ہوئے مشکل کل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
وہ باپ میراجو مری ضد پہ ہر ایک حد سے گزر گیا ہے
پرانے کپڑے پرانے جوتے پہن کے کہتا ہے سب نیا ہے
وقت کا پہیہ گھومتا ہے اور پھر اچانک اولاد کے سر سے والد کا سایہ اُٹھالیاجاتا ہے جو اولاد کو زمانے کا اصل روپ دکھاتاہے۔ پہلی دفعہ احساس ہوتا ہے کہ والد کے بغیر زندگی کتنی بے امان ہیں۔ ایک ہلکی سی آہٹ ،کسی کی زبان سے نکلا کوئی سخت لفظ، دھوپ کی حدت، جاڑے کی سختی' اولاد کے لیے ناقابلِ برداشت عذاب بن جاتے ہیں۔ تب علم ہوتا ہے کہ وہ گھنا سایہ جس کے ہوتے ہوئے انہیں کبھی اس کی موجودگی کا احساس نہ تھا کتنی مضبوط اور محفوظ پناہ گاہ تھی۔ پھر بچپن سے لے کر اس کے بچھڑنے کی آخری لمحے تک اس کی باتیں، اس کی یادیں اس کی قربانیاں، پچھتاوا بن کر روح کے گرد نوحے گاتی سناتی دیتی ہیں اور انسان کے پاس صرف آنسو ہی باقی بچتے ہیں۔
ارشادِ خداوندی ہے''ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو، اگر تمہارے ہوتے ہوئے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کے آگے اُف تک نہ کہو، نہ اُنہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام اور ادب سے بات کرو اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھو اور دعا کرتے رہو کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسے ہی کرم فرما جیساانہوںنے میرے بچپن میں میری پرورش کرتے ہوئے میرے ساتھ کیا''۔
دعا ہے آپ پہ رحمان کا رحم برسے
وہی رحم جو میسر تھا مجھ کو بچپن میں
والد کو یہ فضیلت دی گئی ہے کہ جب وہ اولاد کے حق میں دعا کے لیے اپنے ہاتھ ربِ کائنات کی بارگاہ میں اٹھاتا ہے تو اس کے اور اللہ کریم کے درمیان سب فاصلے سمٹ جاتے ہیں اور کوئی پردہ قائم نہیں رہتا۔ رسول اللہ ۖ کا ارشاد ہے کہ '' والد کی دعا اللہ کے خاص حجاب تک پہنچتی ہے (یعنی بلا توقف قبول ہوتی ہے )''
یاد رکھیے گا کہ ہمیں بحیثیت اولاد جہاں ماں کے قدموں تلے جنت کو ڈھونڈنا ہے وہیں والد کی رضا اور خوشنودی حاصل کر کے اس دنیا کوبھی جنت بنانا ہے۔کامیابیوں کا دارومدارماں باپ دونوں کی اطاعت اور فرمانبرداری پر ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی برتیں اور جب ان کا سایہ ہمارے سر سے اُٹھا لیا جائے تب ساری زندگی پچھتاوے میں گزار دیں۔ جن کے سر پر والدین کا سایہ موجود ہے انہیں چاہیے کہ اپنی مصروفیات میں سے روازانہ وقت نکال کر ان کے ساتھ وقت گزاریں۔ انہیں احساس دلائیں کہ وہ بہت خاص ہیں بہت قیمتی ہیں۔ان کی دعائوں سے اپنی زندگی اور عاقبت کو سنواریں ، انہیں کوئی دکھ نہ دیں۔ یقینا اگر ماں ٹھنڈی چھائوں ہے تو باپ وہ سایہ دار درخت ہے جو سخت موسموں کی حدت اپنی کمر پہ برداشت کرتا ہے اور ماں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اولاد کو ٹھنڈی چھائوں مہیا کرسکے۔ حرفِ آخر صرف یہ کہ اپنے والد کا ہاتھ پکڑنا سیکھیے ساری عمر کسی کے پائوں پکڑنے کی نوبت نہیں آئے گی۔
پاک ہے عکسِ ذات بابا کا
تا قیامت ہو ساتھ بابا کا
میری کل کائنات ہے راشد
میرے ہاتھوں میں ہاتھ بابا ک
بابا کی دعا
میں سمجھتا تھا میری محنت
مُجھ کو اپنے مقابلے میں کوئی
دور تک جو نظر نہیں آتا
رات دیکھا عجیب سا منظر
سر بسجدہ خدائے برتر سے
اپنے اشکوں کی بھیگی بارش میں
میرے بابا نے بس مجھے مانگا
کامیابی کی وسعتیں مانگیں
روشنی کا حسین سفر مانگا
رات مجھ کو سمجھ میں آیا کہ
دیرپا کامیابیوں کے لیے
کیوں ضروری ہے ساتھ بابا کا
وسعتوں کی بلندیوں کے لیے
میں نے تھاما ہے ہاتھ بابا کا
تبصرے