تاریخ عالم کے سیاہ ترین ابواب میں ایک اور بھیانک اضافہ تب ہوا جب غاصب بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت والی آئینی شق 370 کو بیک جنبش قلم ختم کر دیا اور مقبوضہ وادی کو بھارتی آئین کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت ، علیحدہ پرچم اور اپنے قوانین بنانے کا حق یکایک چھین کر ایک کروڑ پچیس لاکھ نفوس پر مشتمل پوری وادی کو عملاً ایک جیل کی صورت میں بدل دیا۔ 5اگست 2019ء کا سورج اپنے پہلو میں ایک تاریک ترین دن لے کر طلوع ہوا۔ اس دن بھارتی حکومت کے بھیانک چہرے پر مزید کالک ملی گئی اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت (آرٹیکل 370) کا خاتمہ کر دیا گیا۔ مقبوضہ وادی کی تنظیم نو کے عنوان سے نیا قانون پاس کر لیا گیا اور وادی بھر میں ہزاروں افراد کو قیدکرکے ان کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ پورے خطے کو لاک ڈائون کا شکار کیا گیا اور تمام تر ذرائع نقل و حرکت اور مواصلات معطل کر دیے گئے۔ کارگل و لداخ کے دو اضلاع کو پہلے ہی ایک ''ہل کونسل'' کے ذریعے چلایا جا رہا تھا جس کے تحت ان علاقوں کو ریاست مقبوضہ کشمیر سے زیادہ خود مختاری حاصل تھی۔ بھارتی حکومت کے اس وحشیانہ اقدام کے تحت 5اگست 2019ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں افراد کو گرفتار کیا تھا۔ سیکڑوں کو نہایت بے دردی سے شہید کرکے اپنی سفاکیت کا سر عام مظاہرہ کیا گیا۔
کم عمر معصوم بچوں کو بھی پابند سلاسل کیا گیا اور ایسے افراد گنتی سے باہر ہیں جنہیں ایسے کالے قانون کی زد میں لایا گیا جس کی رو سے کسی بھی شخص کو بغیر کسی الزام کے دو ماہ کی قید میں رکھنے کی اجازت ہے۔ یعنی درندگی اور وحشت کو بر سر عام ناچنے کا اذن حاصل ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہسپتالوں میں ادویات اور دیگر ضروری وسائل کی قلت کے سبب ان گنت مریض اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر بھی بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔کوئی پرسان حال نہیں۔ اقوام عالم کی بے حسی پر انسانیت نوحہ کناں ہے اور ضمیرِ انساں دم بخودماتم کرنے پر مجبورہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ جنگ زدہ خطہ ہے۔ یہاں کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے۔ تقسیم ہند کے وقت جموں و کشمیر پر ایک ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کی کٹھ پتلی حکومت تھی۔ خودمہاراجہ کو انڈیا سے ریاست کے الحاق پر تحفظات تھے۔ کشمیری مسلمانو ں کی اکثریتی آبادی واضح طور پر اپنی مذہبی، دینی، سیاسی، اخلاقی، نظریاتی ، سرحدی ، فطری اور قدرتی حالات اور بنیادوں کے تناظر میں وادی کا الحاق نوزائیدہ مملکت پاکستان سے چاہتی تھی لیکن ڈوگرہ مہاراجہ نے کشمیری عوام کی خواہشات کے برعکس اور ہندوستانی حکومت کی دھونس دھاندلی اور در اندازی کی زد میں آکر وادی کا الحاق کچھ شرائط کے ساتھ بھارت سے کر دیا۔ تب سے یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر حل طلب ہے۔ عالمی فورم پر یہ معاملہ لے کر جانے والا بھی خود بھارت تھا اور وہی بھارت اب تک خود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ تاریخ عالم میں سب سے پرانا مسئلہ ہے جس کو حل کرانے میں اقوام متحدہ تاحال ناکام ہے کیونکہ اس مسئلے کے براہ راست شکار صرف اور صرف مسلمان عوام ہیں۔ ورنہ کسی اور قومیت کے لوگوں کا یہ مسئلہ ہوتا تو تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ یہ مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا۔یہی تلخ ترین حقیقت ہے اور کڑوا ترین سچ بھی۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ 1953ء میں مقبوضہ کشمیر کے پہلے نام نہاد وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے معزول کرکے جیل بھیج دیا تھا اور کشمیر میں دلی کے حامی بخشی غلام محمد کو حکمران بنا دیا۔ 1949میں انڈین آئین میں شق 370کو شامل کر دیا گیا تھا۔ اس شق کی رو سے مقبوضہ وادی کا آئین الگ تھا۔ ٹیکس کا نظام الگ تھا۔ یہاں کی نوکریاں صرف کشمیر کے ہی باشندوں کا حق تھا۔ کشمیر کے علاوہ باقی ساریبھارت کے کسی بھی علاقے سے لوگ یہاں آ کر یہاں ملازمت حاصل نہ کر سکتے تھے لیکن ہندو انتہا پسند تنظیم نے سالوں پہلے سے یہ ٹھان رکھا تھا کہ وہ اپنے مکروہ عزائم کو عملی جامہ پہنائے گی اور جونہی اقتدار کی صورت موقع ملا تو وہ ان عزائم کی تکمیل کرتے ہوئے اس مسلم اکثریتی وادی کو ہڑپ کرجائے گی۔لہٰذا 2014ء میں بی جے پی کے نریندر مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی ہندو انتہا پسند تنظیم نے اعلان کیا کہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنائے گی اور اس کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دے گی۔ لہٰذا 2019ء میں دوبارہ اقتدار حاصل کرتے ہی صرف دو ماہ کے قلیل عرصے میں بھارتی پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ نے جموں و کشمیر تنظیم نو کے عنوان سے بل پیش کیا جسے اکثریت سے پاس کرا لیا گیا۔ اس کی رو سے جموں کشمیر سے لداخ کا خطہ الگ کرکے اسے بغیر اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنا دیا گیا اور جموں کشمیر کو اسمبلی والی ٹیریٹری سے بدل دیا گیا۔
ستم تو یہ ہے کہ اس اعلان سے دو روز قبل ہی پوری وادی میں سخت کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا اور تمام مواصلاتی ذرائع معطل کر دیئے گئے۔ پوری وادی کو بدترین معاشی بحران میں جھونک دیا گیا۔ فیکٹریاں بند ہوگئیں۔ خوف و ہراس، غیر یقینی صورت حال، بے روزگاری، کرفیو کا سنگین نفاذ جیسے خوفناک عوامل تو اپنی جگہ، لوگوں کے دل و دماغ میں جو سب سے بڑا ڈر تھا اور ہے وہ یہ کہ یہاں کی مسلم اکثریتی آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے پورے بھارت سے کم و بیش پچاس لاکھ افراد کو یہاں لا کر آباد کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاکہ کشمیر کا مسلم اکثریتی کردار بدلا جا سکے۔ اس فیصلے کے پیچھے بدنیتی کا عنصرواضح ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں مقامی آبادی کی عددی برتری کو ختم کرناچاہتا ہے۔ یہ ہوبہو وہی ماڈل ہے جوفلسطین پر قبضہ کرنے کے لیے صیہونیوں نے اپنایا تھا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سبھی سیاسی لیڈروں کو قید کر دیا گیا اور یہ بھی لکھا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو چاہے کتنے سال گزر گئے اور شق 370آئین سے خارج کر دی گئی مگر یہ شق دلوں میں بس گئی۔
ان سب کے باوجود بھارتی سرکار کو اس وحشیانہ اقدام کے نتائج کا اس قدر خوف دامن گیر تھا کہ اس نے بوکھلاہٹ میں دیگر سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ خود بھارت نواز نام نہاد سیاسی لیڈران کو بھی سرکاری گیسٹ ہائوسوں میں نظر بند کر دیا۔ پوری وادی میں کرفیو کے نفاذ سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوگئے۔ تعلیمی ادارے بند ہو جانے سے لاکھوں طلباء کا مستقبل دائو پر لگ گیا۔ لاکھوں لوگ بیروزگاری کا شکار ہوئے۔ مریضوں کا کوئی پرسانِ حال نہ رہا۔ کمسن بچے اشیائے خورونوش کی کمیابی اور عدم دستیابی کے سبب ایڑیاں رگڑنے لگے۔ مائوں کے سینے بچوں کے غم سے چھلنی ہوگئے۔ باہرہو کا عالم اور گھروں میں زندگی ہار جانے کا خوف۔ ہر طرف بے پناہ افسردگی اور سراسیمگی کا عالم چھا گیا۔ کہیں پر ایک خام خیال پنپ رہا تھا کہ بھارتی حکومت کے اس جابرانہ اقدام یعنی آئینی شق کی منسوخی کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جائے تو امید ہے کہ وہاں سے حق و انصاف کی فتح حاصل ہوگی۔
الغرض کشمیری سیاسی پارٹیوں نے بھارتی حکومت کے آئینی شق 370کی منسوخی والے فیصلے کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں متعدد درخواستیں دیں اور استدعا کی کہ اس فیصلے کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جائے کیونکہ اس میں کشمیریوں کی رائے شامل نہیں تھی۔ ایک سال کے بعد ان درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوا تو یہ معاملہ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ کے رو برو عمل میں آیا۔ 10دسمبر 2023ء کو بالآخر اس معاملے کا فیصلہ سنایا گیا۔ انڈین سپریم کورٹ جو پورے بھارت میں عدل و انصاف کی سب سے بڑی عدالت کہلاتی ہے، نے اپنے اس فیصلے سے عدل و انصاف کی دھجیاں اڑا دیں اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی ساری درخواستوں کو مسترد کر دیا اور فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 370، آئین کی ایک عارضی شق تھی اور یہ کہ ''جموں وکشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے''۔ اس فیصلے کے بے حد اثرات مرتب ہوں گے۔ وطن عزیز کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے بجا طور پر ردعمل دیا کہ پاکستان اس فیصلے کو مسترد کرتا ہے کیونکہ انڈین سپریم کورٹ کے دیے گئے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیںجبکہ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی نفی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان یہ معاملہ اقوام متحدہ ، یورپی یونین اور او آئی سی کے پلیٹ فارموں پر اٹھائے گا۔
بظاہر غاصب بھارتی حکومت اپنے ننگِ انسانیت عزائم کی تکمیل پر بغلیں بجا رہی ہے لیکن وہ بھول بیٹھی ہے کہ تاریخِ اقوام عالم کے اوراق واشگاف الفاظ میں اور ببانگِ دہل گواہی دے رہے ہیں کہ جب بھی دنیا کے کسی خطے میں کسی بھی حریت پسند قوم کو جابرانہ ہتھکنڈوں سے کچلنے کی کوشش کی گئی اور انہیں ان کے جائز حق سے محروم کرنے کی مکروہ سازشیں رچائی گئیں تو اس قوم کے بہادر مرد وزَن اور بچے اپنی آزادی کے حصول کی خاطر سیسہ پلائی دیوار میںتبدیل ہوگئے اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید منظم و مربوط ہوکر کامیاب و کامران ٹھہرے، چاہے اس کے لیے انہیں کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ چکانا پڑی ہو۔ آج بھی اقوام عالم انگشت بدنداں ہیں کہ کس طرح معصوم و مظلوم کشمیری، مقبوضہ وادی میں بھارتی جبر و استبداد کا پوری بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں اور بھارتی قابض افواج کی شعلہ اگلتی بندوقوں کے سامنے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سینہ سپر ہیں۔ یورپی اقوام دنگ ہیں کہ کس طرح معصوم کشمیری بچے بھارتی بندوقوں سے نکلتے چھروں کے سبب اپنی قیمتی آنکھوں کو چھلنی کرا کر بھی اپنے بلند و بالا مقصد سے پیچھے ہٹنے کو قطعاً تیار نہیں۔ اور وہ غاصب قوتوں کو سر عام للکار رہے ہیں۔انہیں یقین کامل ہے کہ وہ عزم و ہمت کے لشکروں سے بتانِ ظلمت کو توڑ دیں گے اور ہر ایک زنجیرِ آہنی کو کاٹ دیں گے۔ مثالِ کوہِ گراں ثابت قدم رہیں گے۔ انہیں یقین ہے کہ لہو لہو وادی ایک بار پھر جنتِ ارض کا نقشہ پیش کرے گی اور وفا کے پھولوں کا رنگ ایک دن پھر پوری ریاست میں جلوئوں کو افروز کرے گا اور شہادتوں کو امر کر دے گا۔ انہیں یقین ہے کہ بھارتی استبداد انہیں کبھی بھی جھکا نہیں سکتا اور انہیں یہ مکمل یقین بھی ہے کہ باطل کا سر اللہ کے فضل و کرم سے نگوں ہوگا اور فتح کا سورج ان کے حق میں طلوع ہوگا۔ بھارتی سامراج کے حصے میں رات آئے گی اور مظلوم کشمیریوں کے آنگنوں میں دن چڑھے گا اور پوری دھرتی پر رحمتِ سکینہ کا نزول ہوگا۔ ان شاء اللہ!
مضمون نگارمختلف قومی وملی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے