پاکستان کی ریاستی بقا کا ایک بڑا چیلنج انتہا پسندی اور دہشت گردی سے جڑا ہوا ہے ۔ کوئی بھی ریاست یا اس کا ریاستی نظام سیاسی اور معاشی سطح پر استحکام کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے او راسی بنیاد پر داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنی سیاسی ساکھ بھی قائم کرتا ہے ۔ کیونکہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ اپنی نئی خارجہ پالیسی یا علاقائی پالیسی کی بنیاد پر جیو معیشت یا جیو اسٹرٹیجک کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتا ہے او رکسی بھی سطح پر وہ خود کو جنگوں اورتنازعات میں الجھائے بغیر معاشی ترقی کے اہداف کو بنیاد بنانا چاہتا ہے۔ اگر ہم اس نقطہ کو بنیاد بناتے ہیں تو ہمیں اپنے داخلی محاذ پر ایک مضبوط ،مربوط اور شفاف سیاسی ومعاشی نظام درکار ہے ۔اس لیے داخلی استحکام کی بنیاد ہی ہمیں سکیورٹی سمیت معیشت کی ترقی کی طرف لے کر جاسکتی ہے اور یہی ہماری اہم ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے ۔
لیکن اس تناظر میں دیکھیں تو ہمیں پچھلی کچھ دہائیوں سے بطور ریاست، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سامنا ہے ۔ یہ انتہا پسندی اور دہشت گردی محض مذہبی نوعیت کی ہی نہیں بلکہ اس کی بنیاد سیاسی ، لسانی اور علاقائی معاملات سے بھی جڑی ہوئی ہے ۔ پچھلے دنوں نوشکی میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا جہاں زبان کی بنیاد پر لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا وہ سنجیدہ نوعیت کا واقعہ ہے اور بڑے خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ ماضی میں ہم نے لسانی بنیادوں پر یا مذہبی بنیادوں پر دہشت گردی یا انتہاپسندی کا بڑی جرأت سے مقابلہ کیا ہے ۔ اس پوری جنگ میں ہمیں فوج سمیت تمام سکیورٹی اداروں اور عوام کی بھرپور حمایت حاصل رہی ۔کیونکہ حمایت یامدد کے بغیر دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنا ممکن نہ تھا ۔لیکن پچھلے کچھ برسوں سے ہم ایک بار پھر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے اہم واقعات کا نشانہ بنتے جارہے ہیں ۔
پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت سب کا ایک ہی مؤقف ہے کہ ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے او راس پر ہماری بطور ریاست زیرو ٹالرینس ہوگی لیکن اس کے باوجود ہمیں تسلسل کے ساتھ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس عمل نے ہمارے پورے سکیورٹی نظام کو بھی چیلنج کیا ہوا ہے ۔اس وقت ہماری کوشش ہے کہ ہم سیکورٹی اداروںاور حکومت سے جڑے دیگر اداروں کی حمایت اور مدد سے حالیہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو روک سکیں اور جو بھی عناصر اس کھیل میں شریک ہیں ان کو ہر سطح پر قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ کیونکہ اگر ہم نے اس موقع پر مصلحت یا سیاسی سمجھوتوں کو بنیاد بنا کر معاملات سے نمٹنے کی کوشش نہ کی تو دہشت گرد اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کی مدد سے ریاستی نظام کو مزید کمزور کرنے یا اس میںاور زیادہ خرابیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے ۔
ہم نے ریاستی سطح پر انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کئی اہم پالیسیوں اور قانون سازی کی طرف پیش رفت کی ہے ان میں ہماری نیشنل سکیورٹی پالیسی،نیشنل ایکشن پلان ، پیغام پاکستان ، دختران پاکستان شامل ہیں ۔ ان تمام پالیسیوں کی بنیاد ہی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ او رایک پرامن بیانیہ کی طرف پیش رفت ہے۔ اسی طرح ہم نے نیکٹا سمیت اپنے موجودہ سکیورٹی اداروں اور پولیس کے نظام میں بڑی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں اور سرمایہ کاری بھی کی ہے ۔ ہم نے مجموعی طور پر امن امان کی صورتحال اور دہشت گردی کو علیحدہ علیحدہ سمجھنے کی کوشش کی ہے تاکہ بہتر حکمت عملی کے تحت مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے ۔ سارے تناظر میں وفاقی ، صوبائی اور ضلعی سطح پر وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ اور ضلعی انتظامیہ کی مدد سے اپیکس کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ۔ ان کمیٹیوں میںانتظامی اور سکیورٹی اداروں کے تمام اہم سربراہان کی شمولیت اور مؤثر اقدامات پر مبنی ایکشن کی مدد سے دہشت گردی کے خاتمہ کا علا ج تلاش کیا گیا ۔ مدارس کی اصلاحات اور خاص طور پر نفرت انگیز اور تعصب پر مبنی اشاعتی مواد ، رسمی میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر منفی مہم کے خاتمہ پر بھی زور دیا گیا یا دیا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود ہم ابھی بھی اس جنگ سے باہر نہیں نکل سکے ۔
پاکستان اس وقت معاشی بنیادوں پر آگے بڑھنے کے لیے نئے معاشی امکانات کو تلاش کررہا ہے ۔ کوشش کی جارہی ہے کہ برادراسلامی ممالک سمیت، عالمی ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سمیت سرمایہ کاروں کو ہم اپنی طرف متوجہ کرسکیں تاکہ یہاں بڑی سرمایہ کاری کے نئے امکانات پیدا ہوں۔لیکن کوئی بھی یا کوئی بھی عالمی ادارہ یا سرمایہ کار کسی بھی ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرتے ہیں جہاں امن وامان کی صورتحال میں خرابی سمیت سکیورٹی اور دہشت گردی کا خطر ہ موجود ہو۔یہی وجہ ہے کہ بردار اسلامی ممالک ہوں یا علاقائی سمیت عالمی ممالک، سب ہی ہمیں اسی نقطہ کی طرف لارہے ہیں کہ ہمیں دہشت گردی سے خو دکوبھی بچانا ہے اور سرمایہ کاروں کو بھی تحفظ فراہم کرنا ہے ۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جو بھی باہر سے سرمایہ کاری یا ملکی سطح پر کاروبار ہوگا اس کا براہ ارست تعلق ملک کی داخلی سکیورٹی سے جڑا ہوا ہے اور اس مسئلہ کو حل کیے بغیر معاشی ترقی یا اس کے اہداف کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔
داخلی سکیورٹی کا ایک براہ راست تعلق ملکی استحکام سے بھی جڑاہوتا ہے ۔دوسری جانب ایک بڑا چیلنج ہمیںنئی نسل یا نوجوانوں کی سطحپر ہورہا ہے جو سوشل میڈیا کو بنیاد بنا کر ایسی مہم کا حصہ بن رہی ہے جو ریاستی نظام میں بھی مشکلات کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔ ہماری نئی نسل میں غصہ ، تعصب اور نفرت کا عمل نمایاں ہے ۔ اگرچہ ہم نے سابئر کرائم کی بنیاد پر کچھ پالیسیوں کو ترتیب دیا ہوا ہے مگر اس کے عملی نتائج وہ نہیں مل رہے جو ہمیں ملنا چاہیے تھے ۔ایک دوسرے کے خلاف مذہبی فتوے جاری کرنا او رلوگوں پر ملک دشمنی یا غداری جیسے الزامات سے باہر نکلنا ہوگا اور مسائل کا حل جذباتیت کے بجائے عملی و فکری بنیادوں پر تلاش کرکے ایک مؤثر حکمت عملی کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہوگا۔اہل دانش کی سطح پر اس نقطہ پر غوروفکر ہونا چاہیے کہ نئی نسل میں کیونکر انتہا پسندی پر مبنی رجحانات بڑھ رہے ہیں او راس کے پیچھے کیا اصل اسباب ہیں ۔کیونکہ جب تک ہم سیاسی حکمت عملی سے آگے نہیں بڑھیں گے مسائل میں اور زیادہ شدت کا پیدا ہونا فطری امر ہوگا۔
انتہا پسندی اور دہشت گردی کایہ بیانیہ محض اسٹیبلشمنٹ تک محدود نہیں ہونا چاہیے او رنہ ہی اس کی ذمہ داری بھی محض ان ہی پر عائد ہو بلکہ اس کی کامیابی تمام فریقوں سے جڑی ہوئی ہے ۔ میڈیا ، علمی و فکری ادارے ، شاعر ، ادیب، مصنف، صحافی استاد یا وکلاء سمیت دیگر ادارے جو رائے عامہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، سب کو مل کر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا اور یہی ہماری حکمت عملی ہونی چاہیے ۔کیونکہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے خلاف بیانیہ اسی صورت میں بنے گا جب ہم قومی سطح پر تمام فریقوں کی مدد سے اس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کرسکیں گے ۔لیکن اگر اس کے برعکس ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ الجھاؤ، ٹکراؤ کا رویہ اپنانا یا ایک دوسرے پر سبقت کے لیے نیچا دکھانا ہے تو پھر کھیل خراب ہی ہوگا۔
یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جو بھی انتہا پسند عناصر ہیں یا جو دہشت گردی کو اپنے ایجنڈے کے لیے بطور ہتھیار استعما ل کرتے ہیں ان کی سب سے بڑی طاقت ریاستوں کے داخلی مسائل او رانتشار ہوتے ہیں ۔جب کوئی خلاء رہ جاتا ہے تو اس کا فائدہ ملک دشمن عناصر اٹھاتے ہیں یا یہ عناصر کسی دیگر ممالک کے آلہ کار بن کر داخلی استحکام کو چیلنج کرتے ہیں ۔
مصنف معروف سیاسی تجزیہ نگار اور کئی اہم کتابوں کے مصنف ہیں ۔کئی اہم تھنک ٹینک سے وابستگی رکھتے ہیں اور قومی و علاقائی موضوعات پر دسترس رکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے