اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2024 04:06
اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے اداریہ : مارچ 2024 یہ وطن امانت ہے  اور تم امیں لوگو!  وطن کے رنگ    جادوئی تاریخ مینارِپاکستان آپ کا تحفظ ہماری ذمہ داری پانی ایک نعمت  ماہِ رمضان انعامِ رمضان سفید شیراورہاتھی دانت ایک درویش اور لومڑی پُراسرار  لائبریری  مطالعہ کی عادت  کیسے پروان چڑھائیں کھیلنا بھی ہے ضروری! جوانوں کو مری آہِ سحر دے مئی 2024 یہ مائیں جو ہوتی ہیں بہت خاص ہوتی ہیں! میری پیاری ماں فیک نیوزکا سانپ  شمسی توانائی  پیڑ پودے ...ہمارے دوست نئی زندگی فائر فائٹرز مجھےبچالو! جرات و بہادری کا استعارہ ٹیپو سلطان
Advertisements

ہلال کڈز اردو

سوچ کے گلاب

فروری 2024

سرسبزوشاداب وادی سناٹے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کھڑکی سے ایک آنکھ لگائے گل لالہ باہر جھانک رہی تھی۔ سڑک پر فوجی اپنی بندوقوں کو کندھوں پرلٹکائے دکھائی دے رہے تھے۔ صرف فوجی بوٹوں کی دھمک تھی جو سنائی دے رہی تھی۔
’’گل لالہ! کھڑکی بند کردو، اِدھر آجائو میرے پاس۔‘‘ بی جان نے آواز دی۔ گل لالہ نے کھڑکی بند کردی۔ وہ افسردگی سے بی جان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ بی جان نے گرم گرم یخنی کا پیالہ اس کے آگے رکھ دیا۔
 ’’میری شہزادی! کیوں اُداس ہے؟‘‘بی جان نےپیار سے اس کے سنہری بال سہلائے۔
’’مجھے نیند آرہی ہے۔ میں سونے لگی ہوں۔‘‘گل لالہ نے یخنی کے چند گھونٹ بھرے اور باقی رکھ د ی۔ بی جان اسے جاتا ہوا دیکھتی رہیں۔
’’گل لالہ بہت اُداس اور خاموش رہنے لگی ہے۔ ‘‘بی جان نے گل لالہ کے بابا سے کہا۔
’’ پاس بٹھا کر سمجھائو۔ ‘‘ بابا نے بی جان سے کہا۔
’’جی انشاء اللہ! صبح بات کروں گی۔‘‘ دس سالہ گل لالہ سنہری بالوں اور سرخ وسفید رنگت والی بے حد حسین بچی تھی۔ اس کا چھوٹا پیارا سا گھر مقبوضہ کشمیر میں تھا۔ وہ بے حد ذہین تھی اور اپنی جماعت میں ہمیشہ اول آتی تھی۔ سکول کی استانیاں اس سے بہت محبت کرتی تھیں کیونکہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی ہمیشہ سب سے آگے ہوتی تھی۔ وادی میں جب سے کرفیو لگا تھا، وہ اپنے گھر میں قید تھی۔
گل لالہ اپنے کمرے میں اپنی کتابیں اور کاپیاں پھیلا کر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ کچھ لکھ رہی تھی اور نہ ہی پڑھ رہی تھی ،بس اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے وہ کتابوں کو دیکھے جارہی تھی۔ سنجیدہ چہرہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی ہے۔
’’میری بیٹی کیا سوچ رہی ہے؟ ‘‘بی جان اس کے پاس ہی جگہ بناکر بیٹھ  گئیں تھیں۔ 
’’کچھ نہیں بی جان۔ ‘‘ گل لالہ نے کتابیں بند کرکے سمیٹ دیں۔
’’بچے کبھی جھوٹ نہیں بولتے اور گل لالہ تو میری سب سے پیاری بیٹی ہے۔ ‘‘انہوں نے اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا تھا اور پیار سے اس کے بال سہلانے لگیں۔
’’بتائو پیاری بیٹی! کیا بات ہے؟‘‘
’’بی جان! اتنے دن سے کرفیو لگا ہواہے۔ ہم سکول نہیں جاسکتے۔ میں کشمالے اور گل رخ سے بھی نہیں ملی۔ کوئی کام بھی نہیں کرسکتی۔ میری سب پنسلیں ختم ہوگئی ہیں۔ کچھ بھی تو نہیں کرسکتی۔‘‘ وہ دھیمی آواز میں بول رہی تھی۔ا س کی  آنکھوں میں نمی تھی۔
’’ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ کیا ہے جو ہم نہیں کرسکتے؟‘‘ بی جان نے کہا۔
’’ بی جان! ہم اپنے گھر میں قید ہیں۔ اس بند گھر میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟‘‘
’’گل لالہ، ایک بات بتائو ...کیا میری بیٹی کی سوچ کی پرواز اتنی کم ہے کہ اس گھر کی چار دیواری تک محدود رہے گی؟کیا وہ اس گھر کے اندر ہی بھٹکتی رہے گی؟ میری بیٹی تو بہت بہادر ہے۔ کیایہ معمولی کرفیو آپ کے راستے کی رکاوٹ بن سکتا ہے؟ ‘‘ بی جان اس سے پوچھ رہی تھیں۔
’’ میری بیٹی اتنی اچھی سکیچنگ اورپینٹنگ کرتی ہے۔ تو ابھی تم وہ کرو۔‘‘ یہ سنتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھی ۔ بیگ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس کے اندر سے دو کلر پنسلیں نکالیں ، سیاہ اور سرخ۔
’’میرے سارے کلر ختم ہوچکے ہیں۔ بس یہ دوہی ہیں،میں ان کا کیا کروں؟‘‘ وہ مایوسی سے بولی۔ بی جان نے ایک کلر اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
’’میری بیٹی اتنی ذہین اور قابل ہے کہ اگر اس کے پاس صرف ایک کلر بھی ہو تو وہ بہترین تصویر بناسکتی ہے۔ مجھے آپ پر یقین ہے ۔‘‘بی جان نے کہا۔
’’بی جان! وہ دن جلد آئے گا نا جب ہم بھی آزاد فضائوں میں سانس لیں گے۔ کشمیر صرف ہمارا ہوگا۔ اس پر کوئی دوسرا اپنا حق نہیں جمائے گا۔‘‘    گل لالہ پوچھ رہی تھی۔
’’کیا آپ نے وہ شعر سنا ہے!
یاران جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی
کشمیر صرف ہمارا ہے، کوئی زبردستی اسے اپنا نہیں بنا سکتا۔‘‘ بی جان یقین سے کہنے لگیں ۔
 بی جان کی بات سن کر گل لالہ خوش ہوگئی ۔ اس نے ان دو رنگوں کی مدد سے بہت سی تصویریں بنائیں۔ وقت مشکل تھا مگر گزر گیا۔ کرفیو بدستور جاری تھا مگر  گل لالہ کی زندگی رنگوں سے رواں دواں تھی۔ ایک دن اس کے بابا نے گل لالہ کی بنائی ہوئی تصویریں دیکھیں تو وہ اسے داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔
’’ننھی شہزادی! یہ سب تم نے بنائی ہیں؟‘‘ وہ حیرت سے دنگ رہ گئے۔ گل لالہ نے اقرار میں سر ہلادیا۔
بابا نے گل لالہ کی بہت سی تصاویر مختلف عالمی جرائد کو بجھوا دیں تھیں۔ایک عالمی فوٹوگرافر نے اس کے ہنر کو دیکھا تو اسے خوب سراہا ۔ وہ یقین ہی نہیں کر پارہا تھا کہ ایک دس سالہ بچی اتنا خوبصورت کام کرسکتی ہے۔ کچھ وقت اور گزرا تو     گل لالہ سکول جانے لگی، تب ہی بی جان کو ایک ای میل موصول ہوئی۔ ای میل اسی فوٹوگرافر کی تھی جس میں اس نے لکھا تھا کہ اس نے گل لالہ کی ایک تصویر کو ایک انٹر نیشنل مقابلے میں بھیجا تھا تو وہ اوّل آئی ہے۔
 تصویر بے حد خوبصورت تھی۔ ایک کتاب سیاہ رنگ کی زنجیروں سے جکڑی ہوئی تھی اور اسے ایک بڑا سا سیاہ رنگ کا تالہ لگا ہوا تھا۔ تالے کے سوراخ کے اندر سے سرخ رنگ کے ننھے ننھے پھول نکل رہے تھے۔ تصویرکے نیچے درج تھا :
’’سوچ کے گلاب ‘‘
وہ سب بہت خوش تھے۔ گل لالہ نے پوری دنیا کو اپنی تصویر کے ذریعے دکھا دیا تھا کہ حق اور سچ کی آواز کو جتنا بھی دبالیں، لاکھ تالے لگا لیں یا زنجیروں میں جکڑ لیں، سچائی اپنا راستہ خود بنالیتی ہے۔ تالے کے سوراخ سے نکلنے والے پھول گواہی دے رہے تھے کہ منزل بہت قریب ہے۔
 

مضمون 1170 مرتبہ پڑھا گیا۔