اس دن حمزہ بےحد خوش تھا۔ اس کی خوشی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اگلے دن اسکول میں نئی جماعت کا پہلا دن تھااور نئی جماعت کے ساتھ ساتھ اسے نئی کتابیں بھی ملنے والی تھیں۔ کتابیں اسے ہمیشہ سے پسند تھیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بستر پر آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا ۔ جلد ہی وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ اس نے دیکھا استاد محترم کلاس میں آکرکہہ رہے ہیں،’’ بچو! نئی جماعت میں خوش آمدید! نئی جماعت، نئی کتابیں اور نیا جوش و جذبہ ...آج کا دن بہت خاص ہے۔ آج سے آپ کی ایک نئی تعلیمی زندگی کا آغاز ہو رہا ہے۔‘‘
استادمحترم نے کتابیں تقسیم کرنا شروع کیں۔ جیسے ہی حمزہ کو اپنی کتابیں ملیں،اس نے فوراً انہیں کھول کر دیکھنا شروع کر دیا۔رنگین تصاویر،نئے مضامین اور دلچسپ کہانیاں؛ یہ سب دیکھ کر اس کی خوشی دوگنی ہو گئی۔مگر جیسے ہی اس نے اردو کی کتاب کھولی، اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
کتاب کے پہلے صفحے پر اس کا اپنا نام لکھا ہوا تھا’’حمزہ احمد‘‘۔
’’اس نے جلدی سے صفحہ پلٹا اور مزید حیران رہ گیا۔ کتاب میں اس کے بارے میں ایک کہانی لکھی تھی۔ کہانی کا عنوان تھا، ’’علم کی روشنی‘‘ اور مرکزی کردار کا نام بھی حمزہ ہی تھا۔یہ کیسے ممکن تھا کہ کتاب میں اس کا نام اور کہانی پہلے سے موجود ہو؟یہ کوئی اتفاق ہے۔‘‘ اس نے سوچا۔ اس کے دل میں بےچینی بڑھ رہی تھی۔ اس نے کہانی پڑھنا شروع کی جس میں لکھا تھا کہ حمزہ ایک محنتی اور ذہین بچہ... اپنی کتابوں سے بے حد محبت کرتا تھا۔ ایک دن اچانک اس کی کتابیں غائب ہو گئیں۔وہ بہت پریشان ہوا۔اس نے ادھر اُدھر تلاش کیں مگر وہ اسے کہیں نہ ملیں ،البتہ ایک کاغذ مل گیا جس پر لکھا تھا ، ’’اگر تم واقعی علم کی روشنی کے بارے میں جاننا اور اس کی اہمیت کو سمجھنا چاہتے ہو، تو ایک ایسا دروازہ تلاش کرو جس پر کوئی نام نہ ہو۔ یہ راز تمہیں وہاں ملے گا۔‘‘
یہ پڑھ کر حمزہ کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ وہ جا نتا تھا کہ اس کے اسکول میں ایک پرانی لائبریری ہے جس کے ایک دروازے پر کوئی نام نہیں لکھا ۔ کیا یہ محض اتفاق تھا یا واقعی کوئی راز، وہ اس کے ظاہر ہونے کا انتظار کر رہا تھا؟ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس دروازے کو ضرور دیکھے گا۔
چھٹی کے بعد جب سب بچے گھر جا رہے تھے، وہ چپکے سے اسکول کی پرانی عمارت کی طرف بڑھا۔ اس نے اس کے دروازے کو دھیرے سے دھکیلا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا، اس نے دیکھا کہ کمرہ گرد و غبار سے بھرا ہوا تھا۔ وہ آگے بڑھا اور ایک الماری سے ٹکراگیا۔ الماری پیچھے سرک گئی جس کے پیچھے اسے ایک اور چھوٹا سا دروازہ نظر آیا۔حمزہ نے ہمت کرکے دروازہ کھولا۔اس نے جو کچھ وہاں دیکھا،اس نےاسے دنگ کردیا۔
وہ ایک وسیع کتب خانہ تھاجہاں ہر طرف روشنی پھیل رہی تھی۔ دیواروں پر بڑی بڑی الماریاںبنی ہوئی تھیں جن میں ہزاروں کتابیں رکھی تھیں۔ ہر طرف ہلکی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی جیسے ستارے جھلملا رہے ہوں۔
حمزہ نے سب سے پہلے انگریزی کی کتاب اٹھائی۔ جیسے ہی اس نے ورق پلٹا، اس کے ارد گرد کا ماحول بدل گیا۔ اب وہ کسی دوسری دنیا میں تھا۔ اس کے سامنے ایک بوڑھا مصنف کچھ لکھ رہا تھا۔وہ جیسے ہی لکھتا، الفاظ ہوا میں روشن ہو جاتے۔مصنف نے مسکرا کر کہا، ’’حمزہ!الفاظ میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ یہ ایک اچھی کہانی پڑھنے والے کا دل بدل سکتے ہیں۔ تم بھی اچھی کہانیاں لکھ سکتے ہو۔‘‘یہ جان کر حمزہ حیران رہ گیا۔ جیسے ہی اس نے کتاب بند کی، وہ واپس کتب خانے میں تھا۔
اب اس نے سائنس کی کتاب اُٹھائی۔ اس نے یکدم، خود کو خلا میں معلق پایا۔ اس کے سامنے سیارے، کہکشائیں اور نیچے زمین گھوم رہی تھی۔ایک خلا باز اس کے قریب آیا اور کہنے لگا، ـ’’کیا تم جانتے ہو کہ ہر چیز قوانین فطرت کے تحت چلتی ہے؟ اگر ہم سائنس کو سمجھ لیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں رہے گا۔تم اور تم جیسے کچھ اور بچے آئندہ سائنس کو قرآن کے ذریعے سمجھ کر انقلاب لا سکتے ہیں۔‘‘حمزہ کی آنکھیں حیرت سے چمکنے لگیں۔
پھر اس کے ہاتھ ریاضی کی کتاب آئی۔ اچانک وہ ایک بڑے تختے کے سامنے کھڑا تھا جس پر بڑے بڑے اعداد اور فارمولے چمک رہے تھے۔ ایک ریاضی دان نے مسکرا کر کہا،’’اگر تمہیں ریاضی سمجھ آجائے تو تم دنیا کے بڑے بڑے رازوں کو سمجھ سکتے ہو۔ ہر چیز میں ریاضی پوشیدہ ہے۔‘‘
ایک بڑی میز پر بوسیدہ کتابوں کا ڈھیر تھاجن کے درمیان ایک قدیم کتاب رکھی تھی۔ اس پر سنہری حروف میں لکھا تھا؛’’وقت کے سفر کی کہانیاں‘‘
اس نے کتاب کھولی توپہلی سطر نے ہی اس کے ہوش اڑا دیے۔
’’یہ کہانیاں ان بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں جو واقعی علم کی جستجو رکھتے ہیں۔ اگر تم یہ کہانی پڑھ رہے ہو تو تمہیں ایک راز تلاش کرنا ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو صرف تمہارے لیے لکھی گئی ہے۔‘‘ حمزہ کو لگا جیسے کتاب براہِ راست اس سے بات کر رہی ہو۔اچانک، ہوا کا ایک جھونکا آیا اور کتاب کے صفحات تیزی سے پلٹنے لگے۔ کمرے کی ہر چیز دھندلی ہوتی جا رہی تھی۔ پھر ایک لمحے میں سب کچھ بدل گیا۔
اب وہ کسی اور جگہ کھڑا تھا۔وہ ایک قدیم مدرسہ تھاجہاں بچے قلم دوات کی مدد سے کچھ لکھ رہے تھے۔ استاد انہیں پڑھا رہے تھے۔حمزہ حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔’’یہ میں کہاں ہوں؟‘‘ وہ بڑبڑایا۔
اچانک، ایک بزرگ استاد نے اس کی طرف دیکھا اور کہا، ’’بیٹا! علم وہی ہے جو دل و دماغ میں اتر جائے۔ تم وہ خوش نصیب ہو جو کتابوں کی حقیقت جاننے آئے ہو۔ جاؤ اور اپنے ساتھیوں کو سکھاؤ کہ علم صرف کتابوں میں نہیں، بلکہ عمل میں ہے۔ علم صرف صفحات پر لکھی تحریریں نہیں ہیں بلکہ وہ روشنی ہے جو اندھیروں کو مٹا سکتی ہے۔ تمہیں ان کتابوں کو صرف پڑھنا ہی نہیں ہے بلکہ ان سے ایسا فائدہ اٹھانا ہے جو دنیا کے لیے نفع بخش ہو۔‘ ‘
بزرگ استاد کی بات سن کر اس نے پلکیں جھپکی ہی تھیں کہ اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کی امی اسے نماز کے لیے جگا رہی تھیں۔ وہ جلدی سے اٹھا، وضو کیا اور نماز ادا کی۔ اس کا دل خوشی سے معمور تھا۔
’’امی! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک بہت بڑی لائبریری میں تھا اور کتابیں مجھ سے باتیں کر رہی تھیں۔‘‘ اس نے پرجوش انداز میں کہا۔
امی مسکرائیں اور بولیں،’’بیٹا، خواب بھی کبھی کبھی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اگر تم واقعی ایسا کچھ کرنا چاہتے ہو تو کتابوں کو محض رٹنے کے لیے نہیں بلکہ کچھ سیکھنےکے لیے پڑھو۔‘‘
حمزہ خوشی خوشی اسکول چلا گیا۔اس دن سے اس کی ایک نئی تعلیمی زندگی کا آغاز ہو رہاتھا جس میں اس نے علم حاصل کر کے اور اس پر عمل کر کے خود کو دنیا بھر کے لیے مفیدبناناتھا۔
تبصرے