ارضِ پاکستان کی تاریخ ہمارے افسروں اور جوانوں کی لازوال بہادری اور قربانی کی بے مثال و بے شمار داستانوں سے مزین ہے۔ وطن عزیز کی سلامتی ، عزت اور حرمت کی خاطرکچھ کر گزرنے اور قربانی کے جذبے کے پیچھے ایک فلسفہ کار فرما ہے۔ملکی سا لمیت کو یقینی بنانے کے لیے قربانی کے جذبے سے سرشار پاک وطن کے بہادر بیٹے ہمیشہ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے شہادت اور غازیانہ مراتب کو اپنی زندگی کا مقصد بنا ئے رکھتے ہیں ۔ وطن کے یہ جانباز ہمیشہ عزم و استقلال اورصبرواستقامت کے ساتھ پاک وطن کو مشرقی سر حد پر موجو د ازلی دشمن اور فتنہ الخوارج کے ناپاک عزائم سے محفوظ بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ بہادر سپوتوں میں سے ایک غیر لڑاکا بیئر ر(این سی بی)محمد نعمان عارف بھی ہے، جس نے فنِ حرب سے غیر متعلقہ و نا بلد ہو نے کے باوجود اپنی ہمت اور حوصلے کی ایک لازوال داستان رقم کی ۔ درج ذیل تحریر (این سی بی )محمد نعمان عارف کی جرأت و بہادری کا احاطہ کرتی اور زبانی روداد بیان کرتی ہے۔
این سی بی محمد نعمان عارف ایک بہادرغیرلڑاکا جوان
پنجاب کے ضلع تلہ گنگ کے ایک چھوٹے سے گائوں"ڈھوک ناڑی،ڈھیڑمونڈ" سے تعلق رکھنے والے این سی بی محمد نعمان عارف ایک متوسط گھرانے میں 19 جولائی 2002 ء کوپیداہوئے۔ان کے والد بھی فوج میں اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ سندھ رجمنٹ سے بطور حوالدار ریٹائر ہوئے ۔اِین سی بی محمد نعمان عارف اپنے دو بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے بڑے ہیں۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے ہی حاصل کی اور میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول سگر سے 2018 ء میں پاس کیا۔
ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بڑے بھائی ہونے کے ناتے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے والد کی ایک چھوٹی سی پرچون کی دوکان کے کاروبار میں ان کی مدد شروع کی اور چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم اور اچھے مستقبل کی خاطر تقریباً 5سال اس سے وابستہ رہے۔
غریب گھرانے کے اس نوجوان کے دل میں وطن کی محبت اور خدمت کا غیر معمولی جذبہ ورثے میں ملا ہے۔ اسی جذبے سے سرشار این سی بی محمد نعمان عارف نے پاک فوج میں بطورِ سپاہی بھرتی ہونے کاٹیسٹ دیا، لیکن اپنے چھوٹے قدوقامت کی وجہ سے بھرتی کے معیار پر پورا نہ اتر سکے ۔ بعدازاں مارچ2024 میں انہوںنے پاک فوج میں بطور این سی بی بھرتی ہوکر اپنی خدمات سرانجام دینے کا عہد کیا۔ پہلی تعیناتی این ایل آئی رجمنٹ کے افسر کیپٹن محمد شہباز کے ساتھ کھاریاں کینٹ میں ہوئی۔اس کے بعد کیپٹن محمد شہبازکی پوسٹنگ انفنٹری سکول میں بطور انسٹرکٹر ہوئی تو این سی بی محمد نعمان عارف ان کے ساتھ جنوری 2025 میں کوئٹہ چلے آئے۔
سانحہ جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ
11 مارچ 2025 اور 10 رمضان المبارک ،بروز منگل کی ایک پر سکون صبح تھی۔ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کی گہما گہمی تھی اور تمام اپنے پیاروں کے ساتھ عید منانے گھروں کی طرف رواں دواں تھے۔ مسافروں میں ایک این سی بی محمد نعمان عارف بھی تھا جو جعفر ایکسپریس ٹرین کی بوگی نمبر7 میں سوار تھااور اسکے چلنے کا انتظار کر رہاتھا۔ اس نے اپنے گھر والوں کو اپنے آنے کی پیشگی اطلاع دے رکھی تھی۔جعفر ایکسپریس جو 9 بوگیوں پر مشتمل تھی ، صبح 9 بجے کوئٹہ سے پشاور کے لیے روانہ ہوئی۔ ٹرین میں 400سے زائد مسافر سوار تھے ۔ سب کچھ نارمل تھا، لیکن دن بارہ سے ایک بجے کے درمیان جب ٹرین مشکاف ٹنل نمبر 8 کے قریب پہنچی تو اچانک ایک زور دار دھماکہ سنائی دیا اور جھٹ سے ٹرین رک گئی۔ یہ دھماکہ فتنہ الخوارج کی کالعدم تنظیم بی ایل اے کی جانب سے ٹرین کے ٹریک پر اسے روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔
این سی بی محمد نعمان عارف نے بتایا ، "ٹرین کے رکنے پر تقریبا ًسو کے قریب بی ایل اے کے دہشتگردوں نے بھاری اسلحے اور راکٹ لانچر ز کے ساتھ نہتے مسافروں پر اندھا دھند اور لگاتار گو لیاں برسانا شروع کر دیں۔ اس طرح ٹرین کے اندر خوف و ہراس پھیل گیا اور چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ حملہ اس قدر شدید اور اچانک تھا کہ ٹرین کے اندر موجو دکئی مسافر حواس باختہ ہو کر گر پڑے اور زخمی ہوگئے۔ اس دوران میں نے اپنے حواس پر قابو رکھتے ہوئے بقیہ مسافروں کو لیٹنے اور آڑ لینے کا کہا۔ ٹرین میں موجود سکیورٹی پر مامور ریلوے پولیس کے جوانوں نے دہشتگردوں کا بھرپور مقابلہ کیا اور مؤثر جوابی فائر سے انہیں کافی دیر تک ٹرین کے قریب نہ آنے دیا ۔جیسا کہ حملہ آور کثیر تعداد میں تھے اور با لآخر وہ ٹرین کو ہائی جیک کرنے میں کامیاب ہو گئے" ۔
ٹرین جس جگہ ہائی جیک ہوئی تھی، وہ ایک بالکل ویران اور سنسان پہاڑی علاقہ تھا۔ دور دور تک کوئی درخت تھا اور نہ ہی جھاڑی ۔ زمین خشک اور پتھریلی تھی اور اس علاقے میں دور دور تک نہ کوئی آبادی ، نہ کوئی سڑک اور نہ کوئی راستہ تھا ۔اس سنسان بیابان میں ٹرین کے مسافروں کے علاوہ کوئی اور ذی روح نہ تھی۔
ٹرین پر فائر کرتے ہوئے دہشتگرد اس پر سوار ہو گئے اور مسافروں کو نیچے اترنے کا کہا۔مسافروں کی حیل حجت پر انہوں نے ٹرین کو مکمل طور پر جلا دینے کی دھمکی دی۔ مسافر چونکہ نہتے تھے لہٰذا ایک ایک کر کے نیچے اترنے لگے۔دہشتگروں نے ٹرین سے اترنے والے مسافروں کے شناختی کارڈ کی جانچ پڑتال شروع کی اور ان کو علاقائی ٹولیوں(بلوچی ، سندھی ، پنجابی اور پشتون) میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ این سی بی محمد نعمان عارف حاضر دماغی کے ساتھ پشتو بول کر صوبہ خیبر پختونخواہ کا کینسل شد ہ شناختی کارڈ دکھا کر پشتون ٹولی میں شامل ہو گیا۔
مسافروں کی ٹولیوں کے ساتھ دہشتگردوں کا رویہ
ٹرین کے مسافروں میں پاک فوج کے کچھ نہتے فوجی جوان بھی تھے جو چھٹیاں منانے کے لیے اپنے گھروں کی طرف سفر کررہے تھے۔ سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے افرد کی شناخت کے بعد ان کا علیحدہ گروپ بنا کر ان کے ہاتھ باندھنے شروع کر دیئے گئے۔ اس کے بعد مسافروں میں خو ف و ہراس بڑھانے کے لیے دہشتگردوں نے بلا تفریق مسافروں پر فائر شروع کر دیا۔ مزید برآں انہوں نے بلوچی ٹولی کے مسافروں کو چھوڑنا شروع کر دیا ۔ اور اس کے بعد نہتے فوجی مسافروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ چند فوجی مسافر جو اپنی فیملیوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے ، ان کی طرف سے ہمدردی کی درخواست کے باوجود ان کی فیملیو ں کے سامنے انہیں نہایت سفاکی کے ساتھ مار دیا گیا۔ دن ڈھلنے تک دہشت گردوں نے کافی تعداد میں نہتے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور باقی ٹولیوں کے مسافروں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا اور ان کو شہید کر دیا۔
این سی بی محمد نعمان عارف کے مطابق ،"نہتے بے گناہ مسافروں میں کثیرتعداد روزہ داروں کی بھی تھی ۔انھیں اس امر کا بالکل بھی کوئی احساس نہ تھا۔ اس جگہ کا ماحول خوفناک تھا اور ہر طرف چیخ و پکار کی آوازیں آرہی تھیں ۔ دہشتگردوحشیوں کی مانند تھے اوروہ کسی لمحے کسی کو بھی مارسکتے تھے۔ ان کے چہروں سے بے پناہ نشے کی کیفیت جھلک رہی تھی جس سے مجھ پر اس بات کی حقیقت کھل گئی کہ دہشگردوں کے آقا کیسے لوگوں کو ورغلا کر لے جاتے ہیں اوران کو نشے (آئس، افیون، چرس اور انجیکشن)دے کر دنیا سے عاری کر کے خود کش بمباروں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کسی مذہب و مسلک یا لسانی گروہ کی بہتری سے کوئی واسطہ کم از کم مجھے نہیں سمجھ آتا"۔
این سی بی محمد نعمان عارف کی بہادری اور خوف پر قابو
دن ڈھل گیااوراندھیرا چھا گیا ۔ این سی بی کے مطابق، "دہشتگر دوں کا ایک بڑا گروہ ہمیں 10 کے قریب خودکش بمباروں کے پاس چھوڑ کر اور انھیں جنت کی جھوٹی وعید سنا کر پہاڑوں میں غائب ہو گیا"۔ گہری رات ہوتے ہی دہشت گرد وقفے وقفے سے چند ایک مسافرں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بناتے رہے اور یہاں تک کہ اگلی صبح ہوگئی۔اردگرد برے حالات میں بکھری لاشیں نظر آنے لگیں اور خوف کی فضا میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اسی اثنا میں ، پاک فوج اور سپیشل سروسز گروپ کے چاق چوبنددستے نہتے یرغمالی مسافروں کو بازیاب کروانے کے لیے اپنی پوزیشنز سنبھال چکے تھے۔ اور خودکش بمباروں کی موجودگی کی تلاش میں تھے ۔دوسری طرف یرغمال بنے مسافر دو دن کی بھوک پیاس سے نڈھال ، زخموں سے چور اور گرمی کی شدت کی وجہ سے تھک چکے تھے۔ ان کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی تھی اور ان کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ ایسے میں ان مغویوں میں موجود این سی بی محمد نعمان عارف جو بھوک ،پیاس اور گرمی سے تنگ آ کر دن 12 بجے کے قریب اچانک حوصلہ اور ہمت پیدا کر کے اپنے اوپر مامور خود کش بمبار دہشت گرد سے مخاطب ہوا ، " لوگ بھوک پیاس اور زخموں سے نڈھال ہیں ،ان کو پانی دو کیونکہ مجھ سے ان مسافروں کی حالت زار دیکھی نہیں جا رہی" ۔ دہشتگرد نے اسے گھور کر دیکھا۔ قریب تھا کہ گولیوں کی ایک بوچھاڑ اس کے سینے کے آرپار ہو جاتی لیکن انہوں نے اسے نظر انداز کیا۔ اس نے پھر سے پانی کی درخواست کی، جس پر دہشتگرد نے کہا کہ یہاں پانی نہیں ہے۔ اس پراین سی بی محمد نعمان عارف نے بوگی میں موجود واش روم میں پانی کی موجودگی کا بتایا جس پر دہشتگردوں نے کہا کہ ہمیں بھی پانی پلائو اور خود بھی پی لو ۔ این سی بی محمد نعمان عارف کے مطابق، " شاید دہشتگردوں کے نشے کا زور ٹوٹ رہا تھا اور وہ آہستہ آہستہ حقیقت کی جانب واپس آرہے تھے کہ وہ اپنے مقامی وغیر ملکی خود غر ض و بے راہ رو آقائوںکے کہنے پر کیا کیے بیٹھے ہیں"۔
این سی بی محمد نعمان عارف کا کارنامہ
اجازت ملنے پر اس نے زمین پر پڑی خالی بوتلوں کو اٹھا یااور ٹرین کے واش روم سے پانی بھر کر زخمیوں اور دہشتگردوں کو پلایا اور خود بھی پیا ۔ اسی اثنا میں اس کی نظر ایک بزرگ شہری پر پڑی جو کہ چہرے پر گولی لگنے کی وجہ سے شدید زخمی تھا اور درد کی شدت سے تڑپ رہا تھا۔ اس بزرگ کی حالت دیکھی نہ گئی تو اس نے ان دہشتگردوں میں سے ایک دہشتگرد کوجسے پانی پلا رہا تھا، کہا کہ یہ بزرگ بہت تکلیف میں ہے، اسکو جانے دو۔ یہ درخواست این سی بی محمد نعمان عارف موت کاباعث بھی ہو سکتی تھی لیکن دہشتگرد نے استفسار کیا کہ" تمہارا اس بزرگ سے کیا رشتہ ہے" ۔جواباًاس نے کہا میرا اس سے کوئی قریبی رشتہ نہیں بلکہ مجھ سے اس بزرگ سمیت باقی زخمیوں سے ہمدردی ہے ۔یہ بہادری اور جرأت تھی کہ وہ اس قدر کسمپرسی میں بھی دہشتگردوں سے مخاطب تھا۔
آخر کاردہشتگردوں نے کہا کہ جتنے زخمیوںکو لے جا سکتے ہو لے جائو۔موقع ملتے ہی وہ بھاگ کر زخمیوں کی طرف آیا اور آواز دی اٹھو،ہمت کرو اور چلو میرے ساتھ۔ سات زخمیوں کے علاوہ کسی میں ہمت نہ تھی کہ اٹھتے۔ان میں سے ایک کو چہرے پر گولی لگی تھی، دو کو ٹانگ میں ،دوکو کمر کے نچلے حصے میں اور دو کو بازو میں ۔ زخمی بزرگ اور ان 6 زخمیوں کو این سی بی محمد نعمان عارف ایک ایک کر کے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور جس جانب سے ٹرین آئی تھی اسی طرف لے جانا شروع کردیا ۔ آہستہ آہستہ یہ تمام دہشتگردوں کی پہنچ سے دور ہوگئے، یہاں تک کہ ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرلیا ۔ با لآخرڈیڑھ سے دو بجے کے وقت کے قریب ایف سی چوکی کے نزدیک پہنچ گئے لیکن تھکاوٹ کی وجہ سے ان سے مزید چلا نہیں جا رہا تھا ،اس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور آخر کار ایف سی چوکی تک ان سات زخمیوں کو لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔ این سی بی گو کہ ایک غیر لڑاکا و غیر تربیت یافتہ سرکاری ملازم ہے لیکن اس کی دلیری ، حوصلہ مندی اور حاضر دماغی سے نہ صرف اس نے اپنی جان بچائی بلکہ وہ ان سات مسافروں کو بھی بچانے میں کامیاب ہوگیا۔ این سی بی کے بقول ،" ایف سی چوکی پہنچنے پر ایف سی اہلکاروں نے ہمیں ابتدائی طبی امداد دی اور ان کے پاس موجود تھوڑے سے پانی اور کھجوروں سے ہماری حالت کچھ سنبھلی ۔ہم اس کے بعد چوکی پہ بے سدھ پڑے رہے۔ حتیٰ کہ رات کے 12 بجے کے قریب ہمیں مال گاڑی پر مچھ ریلوے اسٹیشن پہنچا دیا گیا۔ اس پر خدا کا شکر ادا کیا۔اس کے بعد جب ہمیں صبح خبر ملی کہ پاک فوج نے 10 دہشت گردوں کو ٹھکانے لگا دیا ہے اور یرغمالی مسافروں کو ذرہ برابر نقصان نہیں پہنچا تو ا س پر میں اور میرے ساتھ کے تمام لوگ سر بسجود ہو گئے"۔
این سی بی محمد نعمان عارف کی بہادری ایک مثال ہے
این سی بی محمد نعمان عارف کی یہ بہادری صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک ایسی مثال ہے جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہو ں ہمت اور حوصلہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ایک غیر لڑاکا و غیر تربیت یافتہ ہونے کے باوجود اس نے ایک دلیرانہ طور پر اپنی ذمہ داری کو سمجھااور اپنی جان کی پروا کیے بغیر دوسروں کی مدد کی ۔اس کا یہ عمل نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ ہرخاص و عام کے لیے ایک مشعل راہ ہے ۔ بہادری کی اس داستان سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہر انسان کے اندر ایک ہیرو چھپاہوتا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اس ہیرو کو پہچانیں اور مشکل حالات میں اسے بروئے کار لائیں۔اس شخص کی ہمت وشجاعت اور بہادری ہمیشہ یادر کھی جائے گی ۔
اختتامیہ
حالیہ دہشتگردی کی لہر میں شدت عام حالات نہیں بلکہ مشرق اور مغرب میں موجود ہمسایوں کی سہولت کی ایک غیر مبہم کاوش ہے۔ تا ریخ کے اوراق پلٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے صوبہ بلوچستان کے چند خود غرض سردار اپنے عوام کے ساتھ ہمیشہ سے جبر روا رکھتے تھے اور ان کی ترقی کے معین فنڈز میں خردبرد کردیتے تھے لیکن سوشل میڈیا کی عدم موجودگی میں ان کے یہ مظالم منظرِعام پر نہیں آتے تھے۔ اب جب کہ ایسا ممکن نہیں رہا تو انہوں نے معصوم لوگوں کو ورغلا کر اپنی ذیادتیوں سے قطع نظر کرتے ہوئے حکومتِ وقت اور افوج کو موردِ الزام ٹھرانا شروع کر دیا ہے اور لاپتہ افراد جیسے مسائل گھڑ لیے ہیں۔ انشااللہ وہ وقت دور نہیں کہ جب بلوچستان کے چند ورغلائے ہوئے جوان حقیقت کو جان جائیں گے اور مقامی وغیر ملکی خود غر ض و بے راہ رو آقائوںسے کنارہ کش ہو جائیں گے۔ وگرنہ انہیں این سی بی محمد نعمان عارف جیسی بے لوث داستانیں اپنے بوجھ تلے دبا دیں گی اور دہشتگردی کو کوئی جگہ نہیں ملے گی۔
تبصرے