رمضان کا آخری عشرہ جا رہا تھا۔ سارا گھر تراویح اورعبادات میں مصروف تھا۔کہتے ہیں اس ماہ میں انسان کو بہت ہمت درکار ہوتی ہے۔سارے دن کے بھوکے پیا سے رہ کر افطار کے وقت ابن آدم دنیا کی کئی نعمتوں کو پہچانتا ہیجو یقینا سارا سال آنکھوں سے اوجھل رہتی ہیں۔
یوں کہہ لیجیے کہ رمضان المبارک کامہینہ شیطان کو تو یقینا باندھتا ہے لیکن ہمیںبھی روزوں کے ثواب کے ساتھ ساتھ کُھل کر افطاریاں کرنے کا موقع مل جاتاہے۔اس بار بھی ایسا ہی ہوا مزے مزے کی افطاریاں ہوئیں لیکن عید الفطر سے ٹھیک دو دن قبل گھر میں بڑوں کے درمیان صبح صبح سرگوشیاں چل رہی تھی۔ نورین کالج جانے کے لیے تیار تھی۔اسفند آج کے دن اسکول سے بنک مار کر دوستوں کے ساتھ سیر کو جانے والا تھا اور صائمہ اور شفیق بڑی پھپھو کے ہمراہ ان کو روزے کے آخری دو روز کے ثواب کمانے بھی بڑے تایا جی کے ہاں آچکے تھے۔
دادی ، ''ارے او کم بختوپہلے بتاتے وہ آرہا ہے''۔
اسفند اور شمسہ حیران ہوکر ۔''کون؟ آرہا ہے دادی جی؟''
دادی ۔ ''بیٹا چاند''۔
صائمہ اور شفیق۔ ''اس کے آنے میں تو دو دن باقی ہیں''۔
دادی ۔''نہیں وہ آج آرہا ہے''۔
بچے ۔''دادی 27روزے نہیں ہوتے چاند کو دو دن چاہیے ہوتے ہیںیہاں پہنچتے ہوئے۔ابھی وہ صرف چکر لگا رہا ہے''۔
بڑی پھپھو۔ ''ہائے امی! چاند چچا رہنے آرہا ہے؟''
بڑے تایا۔ ''ہاں میر ی چچا عیدی سے بات ہوئی تھی وہ آج رات کو پہنچیںگے۔دوپہر کو گجرات سے کوچ روانہ ہوگی بس دو چار گھنٹوں میں پہنچ جائیگی''۔
اسفند نے پوچھا، ''میں نے تو یہ نام پہلے نہیں سنا''۔
تایا۔ ''نہیں بچوں اصل میں یہ ہمارے گائوں کے ایک بہت بزرگ اور مشہور چچا ہیں ۔ گائوںکے پرانے دور انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ اس لیے ہر عید کسی نہ کسی رشتہ دار کے ہاں گزارتے ہیں۔ہم سب انہیں پیارے چچا عیدی بھی کہتے ہیں۔چاند تو ان کا نام بچپن میں ہی پڑ گیا تھا۔ہر چاند رات عیدی مانگنا شروع کر دیتے تھے اصل نام خدا جانے برسوں پہلے کیا تھا؟''
پھپھو۔''بس اب تو عیدی والے عادات سے مشہور ہیں۔بچوں کے ساتھ بہت دل لگتا ہے ان کا۔میں ذرا ناشتے کے برتن سمیٹ لوں۔''
شام کو سب بچے ۔صائمہ،شفیق، اسفند اور شمسہ بیٹھے تجسس کی انتہاکو تھے۔
صائمہ۔''آخر چچا عیدی ہیںکون؟ میں تو پہلی مرتبہ سن رہی ہوں''۔
شفیق۔''بھئی سچ بتائوں مجھ کو تو بہت امیر لگ رہے ہیں۔ اس بار تو 500روپے عیدی پکی میری۔''
اسفند۔''ہاں مجھے بھی انتظار ہی ہے!سوچ رہا ہوں چاند رات پر کچھ پیسوں سے سائیکل ٹھیک کروالوں گا اور عیدی کے پیسوں سے پورا ہفتے سکول میں نان سموسے اوربریانی کھائوں گا۔''
شمسہ ۔''میں تو میک اپ خریدوں گی اپنی عیدی سے ،مجھے تو لگا کہ اب کی بار کم رشتہ داروں کی وجہ سے شاید ہی کچھ ہو۔لیکن چلو دیکھو قدرت نے کیسے بندوبست کر دیا ہے۔کنجوس 50یا سو روپے دینے والے رشتہ داروں سے جان چھوٹ گئی۔''
صائمہ۔''لیکن تمہارا میک اپ تو خاصا مہنگا ہوتا ہے۔ اور تم نے تو کہا تھا پیسے تھوڑے ہیں عیدی بھی کچھ معقول نہ ہوگی۔''
شمسہ۔''ہاں لیکن پھپھو بتا رہی تھیں کہ پچھلے سال چچا عیدی ولایت (بیرون ملک) بھی ہو کر آئے ہیں۔کچھ عرصہ باہر بھی رہے تھے۔اور مجھے تو عادت ہے بزرگوں کاخیال رکھنے اور مہمان نوازی کرنے کی اور پرانے بزرگوں کے مجھ جیسے اچھے بچے ویسے ہی پسندیدہ ہوتے ہیں۔ 5000روپے تو مل ہی جائیں گے۔''
شام گئے سب تراویحکے لیے تیاریاں کر رہے تھے۔کہ گھنٹی بجنا شروع ہوئی ۔اسفند اور شفیق نے بھاگ کر دروازہ کھولا تو ایک عمر رسیدہ فرد ہاتھ میں سوٹ کیس اور کپڑوں کا گٹھڑلیے سامنے موجود تھے۔چہرے کی جھریاں، تجربہ کار آنکھیں نہ جانے کتنے ہی موسموں، بہاروں اور خزائوں کی عکاس تھیں۔
تایا جی نے گرم جوشی سے گلے لگتے ہوئے سلام کیا ۔پھپھو نے چاروں بچوں کا تعارف کروایا۔اور دادی کو جب چچا عیدی نے سلام کیا تو بس ایک ہی جواب آیا۔
دادی۔ ''والسلام''
اتنا روکھاجواب صائمہ،اسفند، شفیق اور شمسہ کی سمجھ سے بالا تر تھا۔
رات کو سب چچا کے گرد بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔کویتمیں اپنی زندگی کے قصے کہانیاں، ریال کی تنخواہ، رہنا سہنا ،نہ جانے کتنی ہی تفصیلات چچا چاند نے بتائیں۔
آخر کار اسفند نے حیرت سے پوچھا۔''تو چچا جی جب آپ اتنی ہی خوابوں کی زندگی گزار رہے ہیں بالکل شہزادہ حبیبیجیسی تو واپس کیوں آئے؟''
اس پر چچا نے بہت افسردہ ہو کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صائمہ۔یعنی
چچا ۔''یعنی پتر۔اپنا ملک اپنا ہوتا ہے اور عید بھی اپنوں کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔
بھلا میری کیا عید ہو ۔تم بچوں کے بغیر۔عیدی کے بغیر۔''
یہ سنتے ہی پھپھو نے سر پکڑ کر کہا۔''استغفراللہ''
بس اگلے دو دن چچا جی کی خدمات میں ہی گزر گئے۔فرمائش فوراً پوری ہوتی۔افطار کی تیاری وغیرہ میں شمسہ اور صائمہ نے کچن میں اتنی لگن سے کام کیا کہ دادی نے جی جلے کہا۔ ''تیاری تو ایسے کر رہی ہیں کہ یہی ان کا سامان آخرت ہے۔''
اور اسفند اور شفیق۔کم بختوںکو کبھی بوڑھی دادی کی دوا کا خیال نہ آیا ، یہاں تو اس چچا چاند کے گوڈے گٹوںکی بھی مالشیں کر رہے ہیں۔
پھپھو نے کہا۔''بھائی جان! بچوں کو بتا دیں صبر؟''
تایا۔''نہیں! خدمت کرنے دو۔کوئیبات نہیں اسی بہانے اجر کما لیں گے۔''
اسفند ۔''اب اجر کا وقت ہے۔''
شفیق۔''مطلب؟ بھائی کل عید ہے۔خدانخواستہ قیامت نہیں۔''
صائمہ۔''چپ کرو دیکھو چاند کہاں ہے۔''
شمسہ۔ ''مجھے بہت بے چینی ہو رہی ہے۔پرسوں سے پہلے عید ڈسکائونٹ پر شاپنگ کرنی ہے۔''
چچا چاند کہہ رہے تھے کہ کل دوپہر شاید چلے جائیں۔''یا خدایا چاندکہاں رہ گیا۔''
اور تھوڑی دیر میں TVپر چاند نظر آنے کا اعلان ہوجاتا ہے۔
خاص طور پر چچا عیدی کو لے کر سب چاند رات منانے جاتے ہیں۔اب کہیں گول گپے،کہیں مہندی کے اسٹال،خواتین بچوں کا رش کہ اتنے میں اسفند نے شفیق کو کہا۔
'' تم نے کچھ عجیب محسوس کیا ہے؟''
شفیق ۔''مطلب؟''
اسفند۔''یار یہ چچا چاند ہمارے لیے جتنے سستے تحفیلائے تھے۔جن میں خیر سے میرے اور تمہارے لیے کاپی اور کنگھی تھی۔اس سے کہیں زیادہ تو ہم سے لے چکے آئسکریم،گول گپے کھانے کے لیے۔''
شفیق۔''اوہو۔اگر دو چار ہزار روپے لگا بھی دیے تو کیا حرج ؟دیکھو آخر امیر رشتے دار ہیں۔ یہ امیروں کی نشانی ہوتی ہے کہ اونچے ریسٹورنٹ میں جاکر پھر کر انہیں سادہ اور چھوٹی چیزوں سے خوشی ملتی ہے۔''
اسفند نے کہا۔''ہاں بات تو صحیح ہے۔کہیں انہوںنے ہم سب کو 5ہزار نہ دینا ہو۔میں نے صبح تایا جی سے ان کو بات کرتے سنا تھا۔''
شفیق نے چونک کر پوچھا۔''کیا؟''
اسفند۔''کُھلے پیسے مانگ رہے تھے۔''
شفیق۔ ''تو تایا جی نے کیا کہا۔''
اسفند۔''یہی کہ چچا جی کل مہمان آئیںگے وہاں سے آپ کو مل جائیں گے۔''
''او اچھا تو ہم یعنی ذہنی طور پر تیار رہیں کہ عیدی کل دوپہر کے بعد ہی ملے گی۔''
اگلے روز عید کی نماز کے بعد سارے گلے لگے عید مبارک کہا۔
تایا جی نے چاروں کو 200روپے دیے۔
جس پر چچا جان نے نہایت اداسی سے کہا ۔''اتنی کم عیدی اس زمانے میں کون دیتا ہے۔ پریشان نہیں ہونا میرے بچوں بس ان چاروں خانوں میں رکھتے جائوں۔میں ہی ہر بار بندوبست کرتا ہوں۔ مہمان آنے دو۔''
بس بھر جو مہمان آتا ۔عیدی چچا چاند کے زیر نگرانی درازوں میں رکھی جاتی ۔اور وہ بھی چار مختلف درازوں میں تاکہ یہ بقول صائمہ کے۔
''کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ چچا نے کسی کو زیادہ عیدی دی ہے؟ آخر ہم نے پورے دو دن کچن میں لگا دیے''۔
جس پر شفیق نے احتجاج کیا۔کہ باجی ہم نے بھی مالشی،کلی،دھوبی غرض ہر شعبے میں اعلیٰ پرفارمنس دی ہے۔شام کو چچا عیدی نے اپنا سامان باندھا ہوا تھا۔اور کہا'' بھئی میرا سوٹ کیس کوئی لے لے۔مجھ سے نہیں ہر بار گھسیٹا جاتا''۔شفیق نے کہا۔''آپ بے فکر رہیں چچا چاند ہم سنبھاللیںگے۔''
''اچھا بچوں بہت اچھا لگا مل کر۔میں نے پیسے تم سب کے درازوں میں رکھ دیے ہیں۔''
سب کی آنکھیں خوشی کے مارے چمک رہی تھی۔
صائمہ۔ ''آپ ہر عید پر تشریف لایا کریں چچا چاند۔ آپ کا آنا توخود ہی ہمارے لیے عیدی ہے۔''
تھوڑی دیر کے بعد اسفند غصے میں آیا اور شفیق پر حملہ آور ہوگیا۔
صائمہ اور شمسہ حیران دیکھ رہی تھیں۔
اسفند۔ ''اوئے شفیقے۔تم نے میری عیدی چرائی ہے۔''
شفیق ۔''کیا مطلب''
اسفند غصے سے۔''مطلب میں بتاتا ہوں۔''
یہ کہہ کر اسفند پھر شفیق کے ساتھ گتم گتھا ہوگیا۔
شمسہ اور صائمہ نے دراز کے پاس جا کر کہا۔اسفند کے دراز میں تو صرف دس روپے ہیں۔یہ کیسے؟
شفیق نے جاکر پہلے اسفند پھر اپنے دراز کو دیکھا۔''یہ کیا میرے پاس بھی صرف دس روپے ہیں۔ میرے پیسے کہاں ہیں''۔صائمہ چیخ اٹھی۔
''ہائے میری سیل''۔ شمسہ اپنے دراز کو دیکھ کر رو دی۔
اتنے میں شور سن کر بڑی پھپھو، تایا جی اور دادی آگئے۔
بچوں کا سیاپا سن کر کر دادی نے کہا۔
''بھلا اس کے پاس اتنے پیسے تو ہونگے نہ کہ اپنا سفر طے کر لے؟''
تایا جی نے جواب دیا ۔''امی میں نے تھوڑا کرایہ دیا ہے''۔ پھپھو نے کہا۔''میں نے بھی عیدی دی ہے آرام سے چچا عیدی کا سفر کٹ جائے گا۔''
''کیا مطلب''۔بچوں نے پوچھا۔
دادی بولی۔''بھئی بے چارہ بچپن سیعیدی جمع کر رہا ہے کہ سر پر چوٹ لگ گئی اوپر سے کوئی بچے عیدی لے کر بھاگ گئے۔
نہ جانے کون سے شریر بچوں کا ٹولہ تھا۔بس اب اسی ٹولے کو ہر عید پر ڈھونڈ کر عیدی وصول کرتا ہے۔''
تبصرے