معروف صحافی اور ادیب جبار مرزا کی ادبی چاشنی سے لبریز ایک فکاہیہ تحریر
سفر ینہ ہے ، سفر نامہ ہے ، خجل خانہ ہے ، جو بھی ہے ایک ٹانگ پر تین گھنٹوں کے رکشائی سفر کی کہانی ہے! جو آپ کو سنانی ہے ، ایک دفعہ کا ذکر ہے !!
ایک تھا بادشاہ !!تیرا میرا اللہ بادشاہ !!
پاکستان کے معروف ادبی جریدے ''ماہنامہ تخلیق'' کے تیرھویں ادبی ایوارڈ کی سالانہ تقریب 23 فروری 2025 کو تھی ، وینیوحسب سابق پاکستان ائیر فورس کی فالکن ہائوسنگ سوسائٹی میں قائم آفوش کلب ہی تھا ، جناب اظہر جاوید بانی ماہنامہ تخلیق کی تیرھویں برسی بھی تھی !
گزشتہ برس تخلیق ایوارڈ کی بارھویں تقریب میں مجھے پاسبان کے چیف ایڈیٹر ، معروف کہانی کار ، شاعر اور بینکار جناب حسین مجروح نے آفوش کلب پہنچایا تھا ۔ لاہور اکثر جانا ہوتا ہے ، حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ، الحمرا ، پنجاب یونیورسٹی اور پلاک جیسے اداروں میں پہنچنا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ اکثر رکشے والے کھلے دل سے لے جاتے ہیں آگاہ ہیں ، لیکن آفوش کلب تک رکشے میں جانا پہلا تجربہ تھا ! ماہنامہ تخلیق ، کی تقریب کا وقت ڈیڑھ بجے دن تھا ، اسی مناسبت سے اسلام آباد سے آٹھ بجے صبح چلا تو ساڑھے بارہ بجے دن لاہور پہنچ چکا تھا ، خیال تھا جلدی سے جلدی ایک بجے تک ورنہ ڈیڑھ بجے وقت مقررہ پر آفوش پہنچنا تو '' گل ای کوئی نئیں'' کے مصداق تھا ! گلبرگ تھری کی فالکن ہاوسنگسوسائٹی میں قائم ''آفوش ''کلب کے لیے رکشے سے بھائو تائوکیا تو وہ بارہ سو روپے سے نیچے آتے آتے چھ سو روپے پر آکے رک گیا ، اس رکشہ ڈرائیورکے ساتھ پندرہ سولہ سال کا ایک نوجوان بھی بیٹھا تھا ، کہا جب سوار آپ کے پاس موجود ہے تو پھر رکشہ خالی کیسے ہوا ! وہ بولا ،، یہ بیٹا ہے ، گھر میں چھوٹے بہن بھائیوں کو کُٹلگاتا رہتا ہے ، تو میں نے ساتھ بٹھا لیا ، اسے بیس روپے دونگا ۔رکشہ چلنے لگا تو اس نے بیٹے کو میرے پاس بھیجتے ہوئے کہا ،، ''جا تو چاچے کے پاس بیٹھ جا ''میں نے ٹوکا کہ ''چاچا کیا ہوا ؟''پٹرول پمپ پر جا ئو تو وہ پوچھتے ہیں ''چاچو کتنا پٹرول ڈالنا ہے ''یار کوئی تو تایا کہو !سب چاچو یا چاچا کہتے رہتے ہیں ''! رکشے والا بولا ،'' تایا کہنے پر لوگ ناراض ہو جاتے ہیں ، اس لیے چاچا کہا ۔چلیں چلیں تایا جی ، اب چاچا نہیں کہونگا ''! خیر پچیس تیس منٹ کی ''ٹھک ٹھک ''کے بعد گلبرگ تھری دکھائی دیا تو وہ بولا ،، ''لو جی گلبرگ تھری آگیا جے ''کہا آگیا کیا مطلب ؟ ''! فالکن ہائوسنگسوسائٹی کے آفوش کلب پہنچائیں ! وہ بولا ،، ''وہ کہاں ہے ؟؟ کہا مجھے کیا پتہ ''!! اس نے کہا ،'' آفوش کیا ہے اسے بھی نہیں پتہ ''،،'' پھر بٹھایا کیوں تھا ''! وہ بولا ''گلبرگ کے لیے بٹھایا تھا ، وہ سامنے سارا علاقہ گلبرگ ہے ''۔کہا گلبرگ مجھے ایسے دکھا رہے ہو جیسے بس والا لاہور کے موٹر وے ٹول پلازے پر پہنچ کے کہے ''لو جی لاہور آگیا جے ''۔
اتنے میں تھوڑے فاصلے پر چند پولیس والے ایک ساتھ کھڑے دکھائی دئیے تو میں نے رکشے والے سے کہا ان پولیس والوں کے پاس چلو ان سے آفوش کلب کا پوچھ لیتے ہیں ، رکشے والے نے جواب دیا پولیس والوں کی طرف نہیں جائوںگا ۔کیوں ؟؟ رکشے کے کاغذ نہیں ہیں ،کچھ نہیں ہوتا چلو ، میں بات کرونگا !وہ بولا جا کے بات کر آئیں! لیکن مجھے سمجھنے میں مشکل ہو گی ، آپ مقامی ہو یہاں کے جغرافیے سے آگاہ ہو ، پولیس والوں کے بتائے کو سمجھ جا ئوگے، خیر وہ بہت مشکل سے پولیس والوں کے پاس گیا !! ان پولیس والوں میں ایس پی رینک کا ایک پولیس افسر تین ڈی ایس پی اور دو انسپکٹر تھے ، چند سپاہی بھی کھڑے تھے ، کیوں کھڑے تھے ، کوئی پتہ نہیں ۔ہمارے سینے پر پاکستان کا چھوٹا سا پیتل کا لگا جھنڈا دیکھ کے ، ایس پی نے سلیوٹ کیا ، ہم نے بھی خود کو سلامی کے چبوترے پر کھڑا محسوس کرتے ہوئے ، دایاںہاتھ اپنے سینے پر رکھ کے سلیوٹ کا جواب دیا ! ایس پی نے رکشے والے کو بڑے پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے سمجھایا ، ساتھ تاکید بھی کی کہ انڈر پاس میں نہ جانا اوپر اوپر ہی رہنا اور چوک میں جاتے ہی بائیں پہلی سڑک میں مڑ جانا ، خوب اچھی طرح سمجھ کے جب وہ رکشہ ڈرائیور چلا تو راستے میں ہم سے پہلا سوال کیا !! کہ با با جی آپ کوئی بڑے افسر ہیں ؟جواب دیا اتنا بڑا افسر ہوتا تو جھلیا مجھے تیرے رکشے میں کس نے بیٹھنے دینا تھا ! وہ بولا ''پولیس والے بڑے افسروں کو ہی سلیوٹ کرتے ہیں ، آپ کو تو اس نے بھرپور انداز میں سلیوٹ کیا '' میں نے کہا مجھے نہیں اس پولیس افسر نے پاکستان کے جھنڈے کو سلیوٹ کیا ہے ۔اچھا جی ! اس کا مطلب ہے کہ ، مجھے بھی یہ جھنڈا لگا لینا چاہیے ، آج ہی اس جیسا جھنڈا تلاش کرتا ہوں ورنہ یہ پولیس والے بہت پریشان کرتے ہیں ۔میں نے اپنے کوٹ کی جیب سے اتار کے وہ جھنڈا رکشے والے کے حوالے کرتے ہوئے کہا جب کبھی کوٹ پہنو تو جھنڈا اس پر لگا لینا !! اس نے جھنڈا لینے کی بجائے بیٹے کو آواز دی ''مزمل تائے سے جھنڈا لے لے ''
ہمارا سفر جاری تھا جب پولیس کے بتائے ہوئے رستے کے مطابق وہ انڈر پاس کے قریب پہنچ کے بائیں ہاتھ مڑا اور رکشے کو ہوا لگی کہ محسوس کیااب یہ قصور سے بھی آگے گنڈا سنگھ جا کے رکے گا ، کافی چل چکا تو میں نے کہا پولیس والوں نے بتایا تھا انڈر پاس سے بائیں مڑتے ہی قریب ہی فالکن ہائوسنگ سوسائٹی ہے آپ تو بہت آگے آگئے ، اتنے میں اس نے چلڈرن ہسپتال کے گیٹ پر بریک لگا کے کہا پتہ کریں یہ تو نہیں ۔پھر شاید گلاب دیوی ہسپتال پر بھی اس نے آفوش کلب کا شک کیا ! دونوں تجربے ناکام ہوئے تو رکشے والے کے لہجے میں تلخی شروع ہو گئی ، کہا آپ نے گلبرگ کا کہا تھا ، ہم نے تو سارا لاہور آپ کو پھر ا لیا لیکن گلبرگ آپ کو دکھائی نہیں دے رہا ۔میں نے فوری رکشہ رکوا کے ایک راہ چلتے سے پوچھا ، یہ کون سا علاقہ ہے ؟ وہ بولا گلبرگ !! ساتھ یہ بھی کہا کہ گلبرگ تو بہت بڑا ہے ! رکشے والا بولا ہم تو بس فردوس مارکیٹ کو ہی گلبرگ سمجھتے ہیں۔ ہم نے جب محسوس کیا کہ رکشے والے کو فالکن ہائوسنگ سوسائٹی سے صحیح طرح سے آگاہی نہیں ہے تو اسے محض سمجھانے کے لیے کہا کہ ، فالکن ائیر فورس والوں کی ہائوسنگ سوسائٹی ہے ! وہ جو جہازوں کا محکمہ ہے ، جہاز اڑاتے ہیں یعنی پاکستان فضائیہ۔ رکشے والا بولا ،، پہلے بتاتے نا ، جہازوں والے لوگ ہیں ،، یوں دس پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد وہ والٹن کے علاقے لاہور کے پرانے ائیر پورٹ پر لے گیا ! کہا ''یہ ہے وہ کلب ''ہم نے کہا یہاں تو ، اے پی ایس ایف ،(ائیر پورٹ سیکورٹی فورس )کا بورڈ لگا ہوا ہے ، وہ بولا یہی ہے پتہ کر لیں ! پوچھنے پر یونیفارم میں کھڑا ، اے پی ایس ایف ، کے نمائندے نے کہا یہاں سے باہر نکل کے پنکچر والے سے پوچھ لیں وہ بتا دیگا ! رکشے والے نے کہا ہم اندر جا کے یہیں کہیں پوچھ لیتے ہیں ۔وہ بولا یہ ہماری رہائش ہے ، یہاں کہاں ہے ، فالکن ۔۔ ؟ خیر وہاں سے مڑے باہر آئے پنکچر والا تلاش کیا تو وہ ایک ایسا علاقہ لگا جیسے مہاجر کیمپ ہو، جھگیاں ، جھاڑیوں پر بچھے بچوں کے دھلے کپڑے ، چھوٹے چھوٹے بچے مٹی پر بیٹھے کیچڑ سے کھیلتے لگا کہ افریقی علاقے گیمبیا آ گیا ہوں !
پنکچر والے کو تلاش کر کے پہنچے تو رکشے والا بولا جائیں اس سے سمجھ آئیں ، مجھے سواری مل گئی ہے !کہا سواری مل گئی !کیا مطلب ؟؟ وہ بولا ، میں نے مالکوں کو دیہاڑی بھی دینی ہے ، اب کلب تلاش کرتا رہا پھر میں تو گیا کام سے ! لیکن میں اس ویرانے ، اجاڑ بستی میں کیا کرونگا ، وہ بولا ،، گھبرائیں نہیں ، آپ کو چھوڑ کے نہیں جائوں گابلکہ اپنے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بٹھائوں گا! اس نے بتالیس پنتالیس سال کی دو ادھیڑ عمر عورتیں جو کسی میت کا منہ دیکھنے جا رہی تھیں اور جلدی میں تھیں چار سو روپے کے عوض بٹھا لیں ۔ پنکچر لگانے والے نے بتایا کہ آپ لوگ بہت آگے آگئے ہو واپس کلمہ چوک کے سامنے عسکری فائیو جائیں ، میں نے کہا ہم نے ائیر فورس کی سوسائٹی میں جانا ہے عسکری تو پاک فوج کی ہائوسنگ سوسائٹی ہے۔ پنکچر ماسٹر بولا اسی علاقے میں اس طرح کے کلب ہیں ، ادھر نہیں ہیں !وہاں سے ہمیں رکشے کی فرنٹ سیٹ پر بٹھا لیاگیا ، رکشہ ڈرائیورخود تو صحت مند تھا ہی فرنٹ سیٹ بہت چھوٹی تھی ، خیر جیسے تیسے ہم تو آدھا ہی بیٹھ سکے ، دائیں ٹانگ ہماری اندر رکشے میں اور بائیں باہر ہوا میں معلق تھی ، وہ کوئی ایسی بستی تھی جہاں کھڈے ہی کھڈے ( گڑھے)تھے !
اس قدر جھٹکے لگے کہ ہر جھٹکیپر ڈیڑھ دو سینٹی میٹر ہماری گردن اندر جسم میں اترتی چلی گئی ۔ ایک اندازے کے مطابق اس دن ، گھٹو گھٹ ، ہماری گردن ڈیڑھ انچ چھوٹی ہوئی ہو گی ! اسلام آباد پہنچ کے کم از کم تین دن تک گردن میں سریا محسوس ہوتا رہا تھا !! سخت اکڑ ایک آدھ دن اور اس کیفیت میں گزرتا تو شائد ''سر وائکل کالر ''کی نوبت آجاتی ۔ خیر وہاں سے نکلے تو بڑے روڈ کے سامنے جانے کی بجائے رکشے والے نے فیروز پور روڈ ، لاہور کے جنوب کو رکشہ بھگانا شروع کر دیا ، ہم نے ہولے سے پوچھا قصور جا رہے ہو ؟؟ وہ بولا ،، نہیں انڈر پاس سے یو ٹرن لونگا ۔ کہا وہیں سروس روڈ پر چلتے رہتے تو کیا تھا ؟؟ اس نے کہا آگے پولیس کھڑی ہے ۔ یوٹرن لے کے کافی چلنے کے بعد ایک چوک میں سیمنٹ اور بجری کے کٹ ورک ، میں کلمہ طیبہ لکھا دیکھا تو سمجھ آئی کہ یہ ہے لاہور کا وہ کلمہ چوک جس کا بہت شہرہ ہے۔رکشے والا بغیر دائیں بائیں دیکھیرکشہ دوڑائے جا رہا تھا اور یوں وہ عسکری فائیو میں جا کے رکا ، چونکہ ہم ڈرائیورکے بائیں جانب بیٹھے تھے بلکہ لٹکے ہوئے تھے تو اس نے عسکری فائیو کے پہرے دار کے پاس اس طرح جا کے رکشہ کھڑا کیا کہ ، پہرے دار اور ہماری مونچھ میں بمشکل دو تین سینٹی میٹر کا فاصلہ بچا ہوگا۔ پہرے دار کی سانس ہمارے کان سے ٹکرائی ، رکشہ ڈرائیورنے پہرے دار سے پوچھا فالکن سوسائٹی جانا ہے وہ نہیں مل رہی ، پہرے دار نے ہمارے لش بش سفید کپڑے اور دھلا ہوا میرون کوٹ دیکھا تو رکشے والے سے سختی سے کہا صاحب کو کہاں بٹھایا ہوا ہے ؟؟ وہ بولا کہاں بٹھاتا پیچھے میرے پاس زنانہ سواریاں ہیں ،پہرے دار نے رکشہ ڈرائیور سے کہا تمہیںسڑک پار نہیں کرنی چاہئے تھی ، وہ سامنے والے پلازے کے ساتھ ساتھ چلتے جائو آگے سمجھ آ جائے گی ، اتنے میں وہ خواتین رکشے سے اتر کے آگئیں کہ ہم کسی دوسرے رکشے پر چلی جائینگی بس بہت گھوم لیا فضول میں ، ہم نے مرنے والے کا منہ دیکھنا تھا اب تو دفنا دیا ہو گا ۔رکشے والا بولا اے کوئی یتیم خانے کا رکشہ ہے کسی کو کلب نہیں مل رہا اور آپ بیٹھ بیٹھ کے تھک گئیں ، ہزار روپے کا میرا پٹرول ہوا ہو گیا ! بیٹھیں بس مجھے سمجھ آگئی ہے ساری ، تھوڑا دور ہی ہے کلب !! ان کو اتار کے واپس نکلتے ہیں ،، پھر ان خواتین کو مخاطب کر کے بولا ،، پتہ یہ کون ہے؟ جرنیل ہے جرنیل !! پولیس والے اس کو سلیوٹ کرتے ہیں ۔
خواتین چپ چاپ دوبارہ رکشے میں بیٹھ گئیں ، سچی بات ہے رکشے والے کے منہ سے یتیم خانے کا نام سن کے خیال آیا کہ اب آفوش کلب میں ماہنامہ ''تخلیق ''کی تقریب میں جا کے کیا کرونگا ، بولا تو مجھ سے جا نہیں رہا ، مونچھوں پر شہر بھر کی گرد جم چکی ہے ، آنکھیں کھل نہیں رہیں بہتر ہے فالکن کے ، آفوش کلب ، کے بجائے یتیم خانہ چوک پہنچ کے واپس اسلام آباد چلا جائوں!! رہ رہ کے خیال آتا رہا کہ گزشتہ روز پنجاب یونیورسٹی کے ، کتاب میلے ، میں جانے کے لیے جس طرح ، ڈاکٹر پونم نورین کے ڈرائیور طارق بیگ کو بلا لیا تھا آج بھی بلا لیتا تو یہ پریشانی نہ ہوتی ۔بہر طور مجھے رہ رہ کر مختلف شاعر، ادیب دوستوں کی اُن آفرز کا خیال آرہا تھا جو انہوں نے کر رکھی تھیں کہ لاہور آئیں تو ہمیں اطلاع کریں ہم آپ بمع سواری استقبال کریںگے اور لاہور میں جہاں جہاں جانا ہوا ، چلیں گے ۔ ''اب پچھتائے کیا ہوت ''انہیں خیالوں میں گم ، پتہ نہیں فالکن ہائوسنگ سوسائٹی کی چیک پوسٹ پر کب پہنچے بس اتنا یاد ہے ، گیٹ پر رکشہ ڈرائیورسے شناختی کارڈ طلب کیا گیا تو ، اس نے کہا وہ گھر رکھ آیا ہوں ، رکشے کی رجسٹریشن مانگی تو وہ بولا ،، وہ بھی شناختی کارڈ کے ساتھ ہی پڑی ہے ،گیٹ والے نے کہا اب پھر کیا کریں ؟؟ !! رکشے والے نے ہماری طرف دیکھا تو ہم نے کہا ، ہمیں یہاں چھوڑ جا ! ہم تو تقریب میں جانے کے قابل نہیں رہے، ڈیڑھ بجے سہ پہر تقریب کا وقت تھا اب شام کے پونے چار ہونے کو ہیں تم ہی جا کے کلب دیکھ آئو ، تاکہ دوبارہ کوئی ،سوار آفوش کلب جانے کا کہے تو اسے ہماری طرح ادھ موہا نہ کر سکو !! لیکن رکشے والے نے ہماری آفر کو مخول سمجھا اور ترنتگیٹ والے سے کہا کہ میرا بیٹا رکھ لیں ، واپسی پر لے لونگا ، ایسے میں فوری بیٹے کو آواز دی اور کہا ، اوئے تو باہر آ جا ، یہاں چاچے کے پاس بیٹھ ، میں تیرے تائے کو اتار کے آتا ہوں !،، مگر ڈیوٹی پر موجود نوجوان نے رکشے والے سے کہا ، اچھا اب جا تیرے ساتھ فیملی ہے آئندہ خیال کرنا ہم بغیر شناخت کے اندر نہیں جانے دیں گے ۔ خدا خدا کر کے ، آفوش کلب کے باہر پہنچے اور جب کلب کے بورڈ پر رکشے والے کی نظر پڑی تو وہ بولا ''لو جی آگیا آپ کا افسوس کلب !! ''
تعارف:مضمون نگار: ایک معروف صحافی اور مصنف ہیں۔ ایک قومی اخبار کے لئے کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے