رمضان کا مہینہ، ہے آبشارِ رحمت
پیہم عبادتوں کی رکھنی ہے اس میں حرمت
رمضان المبارک، اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ، نہ صرف ایک دینی فرض ہے بلکہ روحانی تربیت، خود احتسابی اور تزکیہ نفس کا مہینہ بھی ہے۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں مسلمانوں پر روزے فرض کیے گئے تاکہ وہ تقویٰاور خدا کے قریب ہونے کی راہ پر گامزن ہوں۔ رمضان کی اصل روح کا مقصد محض کھانے پینے سے پرہیز کرنا نہیں بلکہ اپنے اندر اخلاقی اور روحانی تبدیلی لانا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت کردہ حدیث میں ہے: روزہ اور قرآن (قیامت کے دن)بندے کے حق میں شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا : اے رب میں نے اس شخص کو کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے روکھے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ! اور قرآن یہ کہے گا کہ میں نے اسے رات کے وقت سونے (اور آرام کرنے)سے روکے رکھا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ! چنانچہ دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا۔(مشکوة)
تقوی کا حصول؛
رمضان کے روزے کا بنیادی مقصد قرآن مجید میں تقویٰ کو بیان کیا گیا ہے:
"اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔(البقرہ: 183)
تقویٰ کا مطلب خدا کا خوف اور اس کی رضا کے حصول کی کوشش کرنا ہے۔ رمضان کے روزے انسان کو اپنی خواہشات پر قابو پانے، برے کاموں سے بچنے اور اچھے اعمال کو اپنانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
تزکیہ نفس؛
قرآنِ مجید میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً
قد افلح من تزکی [1-18]
بیشک اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا۔
لہٰذاتزکیہ نفس سے مراد ہے کہ نفس انسانی میں موجود شر کے فطری غلبہ کو دور کرنا اور اسے گناہوں کی ان آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک کرنا جو روحانی نشو و نما میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ ان تمام بدی کی خواہشات پر غلبہ پا لینے کا عمل تزکیہ نفس کہلاتا ہے۔
رمضان انسان کو اپنے نفس کی تربیت کرنے کا موقع دیتا ہے۔ روزے کی حالت میں کھانے پینے سے اجتناب کے علاوہ، بد اخلاقی، جھوٹ، غیبت اور دیگر برے کاموں سے پرہیز بھی ضروری ہے۔ اس تربیت کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو قابو میں رکھ کر اپنی روح کو پاک کرے۔ یہ مہینہ ہمیں خود پر قابو پانے اور اپنے اندرونی دشمن یعنی نفس کو شکست دینے کا درس دیتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ وہ روزے میں بھی بدگوئی، بدنظری اور بدعملی نہیں چھوڑتے، اور کتنے ہی رات کو تہجد میں قیام کرنے والے ہیں، جن کو اپنے قیام سے ماسوا جاگنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (دارمی، مشکوة)
صبرو استقامت کی مشق:
رمضان صبر کا درس دیتا ہے، کیونکہ روزے کے دوران انسان کو کھانے، پینے اور دیگر ضروریات کو محدود وقت کے لیے ترک کرنا ہوتا ہے۔ صبر کا یہ عمل زندگی کے دیگر معاملات میں بھی برداشت اور حوصلے کا ظرف بڑھاتا ہے۔ انسان یہ سیکھتا ہے کہ مشکلات کے باوجود صبر اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھنا ممکن ہے۔
روزہ اپنے اندر صبر واستقامت، تزکیہ نفس اور ایثار و ہمدردی کے جذبات پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ بدنِ انسانی سے ان گنت بیماریوں کو دور کرنے کا قدرتی ذریعہ ہے۔ انسانی جسم کو کئی آلائشوں سے پاک کرنے کا بہترین سبب اور جسم سے زہریلے مادوں کو خارج کرنے کا باعث بھی ہے۔
جذبہ ہمدردی؛
غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ ہمدردی روزے دار کا وصف بن جاتا ہے۔رمضان کا ایک اہم پہلو دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری ہے۔ بھوک اور پیاس کا تجربہ ہمیں ان لوگوں کی حالت کا اندازہ کرنے کا موقع دیتا ہے جو غربت کے باعث روزانہ ان مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ رمضان کے دوران صدقہ، خیرات اور زکوٰة کا حکم دیا گیا ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مند افراد کی مدد کی جا سکے۔ یہ روحانی عمل ہمیں اپنی دولت کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے اور معاشرتی ذمہ داری کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
اسی لیے فرمایا :زکوٰة کی ادائیگی کے لیے رمضان بہترین مہینہ ہے کیونکہ رمضان میں ہر عبادت کا ثواب 70 گنا زیادہ ملتا ہے۔اسی لیے اس ماہ میں اول تو زکوٰة اہتمام کے ساتھ نکالنے کا طور اپنایا جائے ،ساتھ ساتھ صدقہ و خیرات میں بھی بڑھوتی کرنی چاہیے۔
سرکاردوعالم ۖ کا فرمان ہے: جو کسی بے لباس مسلمان کو کپڑا پہنا دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کا سبز ریشم پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلا دے اللہ تعالیٰ اسے جنت کے میوے کھلائے گا اور جو مسلمان کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلا دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کا عمدہ پانی پلائے گا جو بہت ہی لذیذ اور خوش ذائقہ ہو گا۔(سنن ابو دائود ترمذی)
اجتماعی عبادات اور اتحاد؛
رمضان میں تراویح، افطاری اور سحری جیسے اجتماعی اعمال مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک امت ہیں اور ہماری عبادات اور قربانیاں ہمیں ایک دوسرے کے قریب کرتی ہیں۔
قرآن سے تعلق؛
رمضان قرآن مجید کے نزول کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں قرآن مجید کی تلاوت، تفکر اور تدبر کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ مسلمان قرآن کو سمجھنے اور اس کے پیغام کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن سے تعلق انسان کو اس کی اصل ہدایت کی طرف لے جاتا ہے اور زندگی کو خدا کے احکامات کے مطابق گزارنے کا راستہ دکھاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖنے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ ،اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو رمضان کی راتوں میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کے ساتھ ،اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ (بخاری، مسلم)
دعا اور استغفار؛
رمضان دعا اور اللہ سے رجوع کرنے کا مہینہ ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ دعا کے ذریعے بندہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور اللہ کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مہینے میں شب قدر کی خاص اہمیت ہے جس میں عبادات کا اجر ہزار مہینوں کی عبادات سے زیادہ ہے۔
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖنے فرمایا: جس نے رمضان کا روزہ رکھا، اور اس کی حدود کو پہچانا، اور جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے ان سے پرہیز کیا، تو یہ روزہ اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہو گا۔ (صحیح ابنِ حبان، بیہقی)
صحت مندانہ فوائد؛
روحانی فوائد کے ساتھ ساتھ رمضان جسمانی صحت کے لیے بھی مفید ہے۔ روزے کے دوران جسم میں موجود زہریلے مادے خارج ہوتے ہیں اور نظامِ ہاضمہ کو آرام ملتا ہے۔ اعتدال کے ساتھ افطاری اور سحری کرنے سے صحت مند طرزِ زندگی اپنانے کا موقع ملتا ہے۔
روزے کے بدنی فوائد کو اب غیر مسلم مغربی محقق بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ امریکی یونیورسٹی جانز ہوپکنز کے ماہرین نے عالمی شہرت یافتہ پروفیسر مارک میٹسن کی قیادت میں تحقیق کی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ؛ کھانے کی عادت براہ ِراست انسان کے دماغ پر اثرانداز ہوتی ہے اور ہر وقت بھرے پیٹ کے ساتھ رہنا دماغ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، جس سے انسان فالج، رعشہ اور الزائمرجیسی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ ہفتے میں دو دن فاقہ کرنے سے ان بیماریوں سے باآسانی بچا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ روزے سے بچوں کو مرگی کے مرض سے بھی نجات پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں نے دن میں تین وقت کھانا معمول بنا لیا ہے اور اسے عین فطرت سمجھا جانے لگا ہے حالانکہ یہ غلط ہے۔
14سو برس قبل حضور اکرم ۖ نے ہفتے میں دو دن روزے رکھنے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: یہ عمل بدنی تندرستی کا محافظ ہے۔
رمضان کی اصل روح کو کیسے اپنائیں؟
اخلاص کے ساتھ عبادت کریں: رمضان کے اعمال محض رسم و رواج کے طور پر انجام نہ دیں بلکہ ان کا مقصد اللہ کی رضا اور روحانی تربیت ہو۔
گناہوں سے بچیں: جھوٹ، غیبت، اور دیگر گناہوں سے مکمل اجتناب کریں۔
صدقہ و خیرات کے ذریعے اپنی استطاعت کے مطابق زیادہ سے زیادہ دوسروں کی مدد کریں۔
قرآن کی تلاوت اور فہم پر توجہ دیں۔ روزانہ کی بنیاد پر قرآن مع ترجمہ پڑھیں اور اس کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
دعا کو معمول بنائیں۔ اپنی ضروریات اور مسائل کے حل کے لیے فقط اللہ سے رجوع کریں۔
محاسبے کی عادت کو اپنائیں۔ روزانہ اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
اختتامیہ:
رمضان کی اصل روح ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو خدا کے احکامات کے مطابق گزاریں، اپنی ذات کی اصلاح کریں اور دوسروں کے لیے نفع بخش بنیں۔ یہ مہینہ ایک تربیتی دورانیہ ہے جو ہمیں سال بھر نیک اعمال پر قائم رہنے کی قوت عطا کرتا ہے۔مثبت عادات کی تشکیل پاتی ہیں روزے کے دوران اچھے اعمال کو عادت بنانے کا موقع ملتا ہے۔
یہ فوائد روزے کو نہ صرف عبادت بلکہ ایک مکمل زندگی کی تربیت بنا دیتے ہیں۔
اگر ہم رمضان کی اصل روح کو سمجھ کر اس پر عمل کریں، تو ہماری زندگی میں نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی کامیابیاں بھی ممکن ہیں۔
تعارف : مضمون نگار متعدد کتابوں کی مصنفہ ہیں اور صدارتی ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے