پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو وائرس اب تک مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف قومی صحت بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش کا باعث ہے۔ تاہم، گزشتہ دہائی میں پاکستان نے پولیو کے خاتمے کے لیے زبردست اقدامات کیے ہیں۔ حکومت، عالمی ادارہ صحت (WHO)، یونیسیفاور دیگر بین الاقوامی و مقامی ادارے مسلسل کوششیں کر رہے ہیں کہ پاکستان کو پولیو فری ملک بنایا جا سکے۔
پولیو کیا ہے؟
پولیو (Poliomyelitis) ایک وائرل بیماری ہے جو بنیادی طور پر بچوں کو متاثر کرتی ہے اور سنٹرل نروس سسٹم پر حملہ کر کے مستقل معذوری یا یہاں تک کہ موت کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ وائرس آلودہ پانی اور خوراک کے ذریعے پھیلتا ہے اور اس کا کوئی مخصوص علاج موجود نہیں، سوائے ویکسین کے ذریعے اس کی روک تھام کے۔
پاکستان میں پولیو کی تاریخ
پاکستان میں پولیو کے کیسز 1980ء کی دہائی میں انتہائی عام تھے۔ لیکن جب 1994 ء میں قومی سطح پر انسدادِ پولیو مہم کا آغاز کیا گیا، تب سے پولیو کیسز میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔2000ء کی دہائی میں پولیو کا مکمل خاتمہ ممکن نظر آ رہا تھا، لیکن 2010 ء کے بعد مختلف وجوہات کی بنا پر کیسز میں دوبارہ اضافہ ہونے لگا۔ 2014 ء میں پاکستان میں 306 پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے، جو کہ ایک خطرناک حد تک زیادہ تھے۔ تاہم، حکومت اور مختلف اداروں کی بھرپور مہمات کے نتیجے میں 2023 ء میں پولیو کیسز کی تعداد 6 تک محدود ہو گئی، جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی کوششیں
پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے حکومتِ پاکستان نے کئی عملی اقدامات کیے ہیں، جن میں درج ذیل شامل ہیں:
انسدادِ پولیو مہمات
ہر سال ملک بھر میں متعدد انسدادِ پولیو مہمات چلائی جاتی ہیں، جن میں گھر گھر جا کر پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو ویکسین دی جاتی ہے۔ ہزاروں پولیو ورکرز انتہائی مشکل حالات میں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر پولیو ویکسین کی فراہمی یقینی بناتے ہیں۔ کئی بار ان ورکرز کو سکیورٹی خدشات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی خدمات مسلسل جاری ہیں۔
علما اور مذہبی رہنمائوں کا تعاون
ماضی میں کچھ علاقوں میں پولیو ویکسین کے خلاف غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں، جنہیں مذہبی رہنمائوں اور علما کے ذریعے دور کیا گیا۔ مختلف فتوے جاری کیے گئے تاکہ عوام کو پولیو ویکسین کی اہمیت سے آگاہ کیا جا سکے۔
بارڈر ایریاز پر ویکسینیشن مراکز
افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں پولیو کے زیادہ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بارڈر کراسنگ پوائنٹس پر ویکسینیشن مراکز قائم کیے گئے ہیں تاکہ ہر آنے اور جانے والے بچے کو ویکسین دی جا سکے۔
میڈیا اور آگاہی مہمات
ٹی وی، ریڈیو، سوشل میڈیااور اخبارات کے ذریعے عوام کو پولیو کے نقصانات اور ویکسین کے فوائد سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ مشہور شخصیات، کھلاڑیوںاور فنکاروں کو بھی ان مہمات میں شامل کیا جا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچ سکے۔
پولیو کے مکمل خاتمے میں رکاوٹیں
پاکستان کو پولیو فری بنانے میں کئی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں درج ذیل شامل ہیں:
٭ملک کے بعض علاقوں میں پولیو ٹیموں کو شدت پسند عناصر کی طرف سے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے مہمات میں رکاوٹ آتی ہے۔
٭کچھ لوگ اب بھی پولیو ویکسین کے بارے میں غیر ضروری خدشات رکھتے ہیں اور اسے غیر ضروری یا نقصان دہ سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے ویکسینیشن کی شرح متاثر ہوتی ہے۔
٭پاکستان کے کچھ دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں پولیو ورکرز کی رسائی مشکل ہوتی ہے، جس کے باعث وہاں کے بچوں کو ویکسین نہیں مل پاتی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسلسل لوگوں کی آمد و رفت کی وجہ سے پولیو وائرس کی منتقلی کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
پاکستان کے پولیو فری ہونے کے امکانات
پاکستان میں پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے جاری کوششیں حوصلہ افزا ہیں۔ اگر موجودہ رفتار سے ویکسینیشن اور آگاہی مہمات جاری رہیں، تو امید ہے کہ پاکستان جلد ہی پولیو فری ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے درج ذیل نکات پر مزید توجہ دی جا سکتی ہے:
ویکسینیشن کو یقینی بنانا
ہر بچے کو پولیو ویکسین کی خوراک دینا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اس کے لیے والدین کو مزید شعور دیا جائے اور ہر مہم میں مکمل کوریج کو یقینی بنایا جائے۔
سکیورٹی کا بہتر انتظام
پولیو ورکرز کے تحفظ کے لیے مزید بہتر اقدامات کیے جائیں تاکہ وہ محفوظ ماحول میں اپنی ذمہ داریاں انجام دے سکیں۔
مذہبی اور سماجی رہنمائوں کا کردار
مذہبی اور سماجی رہنمائوں کو مزید متحرک کیا جائے تاکہ وہ عوام کو پولیو ویکسین کے حوالے سے مثبت پیغام دیں۔
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال
ڈیجیٹل مانیٹرنگ، ڈیٹا کلیکشن، اور موبائل ایپلیکیشنز کے ذریعے ویکسینیشن مہمات کو مزید موثر بنایا جا سکتا ہے۔
نتیجہ
پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی جنگ ابھی جاری ہے، لیکن حالیہ کامیابیاں امید دلاتی ہیں کہ مستقبل قریب میں پاکستان بھی پولیو فری ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے حکومت، صحت کے ادارے، والدین اور ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم سب مل کر اس قومی مہم کو کامیاب بنائیں، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان مکمل طور پر پولیو سے پاک ہو جائے گا اور ہمارا ہر بچہ صحت مند اور محفوظ زندگی گزار سکے گا۔
تعارف:
مضمون نگار معاشرتی و سماجی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
تبصرے