ہر سال کی طرح امسال بھی 22 اپریل کو دنیا بھر میں "عالمی یوم ارض" منایا جارہا ہے۔ عالمی یومِ ارض منانے کا بنیادی مقصد زمین کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز کی جانب توجہ دلانا اور لوگوں میں قدرتی وسائل کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔ آج دنیا کو موسمیاتی تبدیلی، بڑھتی ہوئی آلودگی، جنگلات کی کٹائی، پانی کی قلت اور قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے، جو نہ صرف انسانی زندگی بلکہ جنگلی حیات اور پورے ماحولیاتی نظام کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ یہ دن ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے تو زمین پر زندگی شدید متاثر ہو سکتی ہے۔
عالمی یومِ ارض ہمیں اپنے کرہ ارض کی حفاظت کے لیے فوری طور پر اجتماعی اقدامات کرنے کی یاددہانی بھی کراتا ہے جیسا کہ شجرکاری مہمات، آلودگی کے خاتمے کے لیے پلاسٹک کا کم سے کم استعمال، پانی اور توانائی کا دانشمندانہ استعمال، اور پائیدار ترقی کے اصولوں کو اپنانا۔ اس موقع پر حکومت، نجی اداروں، تعلیمی اداروں اور عوام کو ایک پلیٹ فارم ملتا ہے کہ وہ ماحول دوست پالیسیوں پر عمل درآمد کریں اور مشترکہ کوششوں سے زمین کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اس دن کی بدولت ماحولیات پر ہونے والے منفی اثرات کی نشاندہی اور بہتر طرز زندگی اپنانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں جیا جا سکے۔
پاکستان، جو قدرتی حسن، بلند پہاڑوں، اور متنوع ماحولیاتی نظام کا حامل ملک ہے، شدید ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ آلودگی میں گھرے ہوئے شہر، تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز، اور پانی کی قلت جیسے مسائل ایک تلخ حقیقت بن چکے ہیں۔ گرین ہائوس گیسز کے اخراج میں صرف ایک فیصد کا حصہ دار ہونے کے باوجود بھی پاکستان، گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق ماحولیاتی بحران کا شکار ہونے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں یہ ماحولیاتی بحران ایک دن میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ دہائیوں سے جاری تیز شہری ترقی، جنگلات کی کٹائی، اور صنعتی آلودگی نے فضائی اور آبی معیار کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے ان مسائل کو مزید سنگین بنا دیا ہے، جس کے باعث شدید موسمی تغیرات جیسے سیلاب، طویل خشک سالی، اور شدید گرمی کی لہریں عام ہو چکی ہیں۔ لیکن ان مشکلات کے باوجود، پاکستان خاموش تماشائی نہیں ہے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اور پاک فوج ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور پائیدار مستقبل یقینی بنایا جا سکے۔
حکومت پاکستان نے ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی کے لیے متعدد پالیسیاں اور پروگرام متعارف کروائے ہیں۔ یہ اقدامات صرف ماحول کی حفاظت کے لیے نہیں، بلکہ ان کروڑوں افراد کی بقا کے لیے بھی ہیں جو صاف ہوا، پانی، اور زرخیز زمین پر انحصار کرتے ہیں۔
حکومت پاکستان نے 2005 ء میں قومی ماحولیاتی پالیسی (NEP) بنائی جس کا مقصد پاکستان میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے بنیادی فریم ورک مہیا کرنا ہے، اور آلودگی، جنگلات کی کٹائی، اور موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل کے حل پر توجہ دینا ہے۔
2012 ء میں نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی (NCCP) کا آغاز کیا گیا جس کے تحت پاکستان نے نومبر 2024ء میں اپنی پہلی National Climate Finance Strategy (NCFS) متعارف کرائی، جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کو متحرک کرنا اور ماحولیاتی مطابقت کے پروگراموں کو فروغ دینا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت پاکستان نے نیشنل کاربن مارکیٹ پالیسی متعارف کرائی، جس کا مقصد ماحولیاتی اہداف کا حصول اور سبز سرمایہ کاری (Green Investment) کو فروغ دینا ہے تاکہ کاربن کے اخراج میں کمی لائی جا سکے اور اقتصادی و تکنیکی فوائد کے ساتھ ساتھ مستقل ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔
اس کے علاوہ 2023ء میںحکومت نے پاکستان کی پہلی National Clean Air Policy (NCAP) متعارف کروائی ہے جس کا مقصد پاکستان میں ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرنا ہے، جو قومی سطح پر اقدامات پر توجہ مرکوز کرتا ہے تاکہ فضائی آلودگی میں کمی لائی جا سکے۔ اس پالیسی میں پانچ کلیدی شعبوں میں ترجیحی اقدامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جیسا کہ ٹرانسپورٹ میں یورو5- اور یورو6- ایندھن کے معیار کا نفاذ، صنعتوں کے اخراج کے لیے مخصوص معیار مقرر کرنا، محکمہ زراعت کو فصلوں کی باقیات کو جلانے سے روکنا اور رہائشی علاقوں میں کھلی جگہوں پر فضلہ جلانے پر پابندی لگانا شامل ہے۔
دریائے سندھ کے ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے کے لیے Living Indus Initiative منصوبہ شروع کیا گیا ہے، جو اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ فلیگ شپ پراجیکٹس میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک کی آلودگی کم کرنے کے لیے حکومت نے پلاسٹک کے استعمال پر بتدریج پابندی اور صنعتی فضلے کے سخت قواعد و ضوابط متعارف کرائے ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں گرین اسپیس (Green Space) کو بڑھانے کے لیے اربن فاریسٹری (Urban Forestry) کے منصوبے متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ لاہور میں میاواکی فارسٹ (Miyawaki Forest) کے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے کئی چھوٹے جنگلات لگائے گئے ہیں، جو کم جگہ میں زیادہ درخت اگانے کا ایک موثرطریقہ ہے۔ گزشتہ حکومت نے بھی ماحول کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے دس بلین ٹری سونامی پروگرام شروع کیاگیا جس کے تحت اب تک لاکھوں درخت لگائے جا چکے ہیں۔
حکومتی پالیسیوں کے ساتھ، پاک فوج بھی ماحولیاتی بہتری کے لیے بہت سے عملی اقدامات کر رہی ہے۔ چاہے وہ درخت لگانے کی مہم ہو، جنگلی حیات کا تحفظ ہو، یا پانی کے وسائل کی بحالی، پاک فوج کا کردار نمایاں رہا ہے۔ 2023 ء میں حکومت اور پاک فوج کے اشتراک سے Geen Pakistan Initiative شروع کیا گیا۔ یہ منصوبہ جنگلات کی بحالی، زراعت کی پائیداری، اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا۔ اس کے علاوہ پاک فوج زمین اور مقامی ماحولیاتی نظام کو محفوظ بنانے کے لیے ہر سال شجرکاری کی مہم کا آغاز کرتی ہے جس کے تحت اب تک لاکھوں پودے لگائے جا چکے ہیں۔ رواں برس بھی بلوچستان کے علاقے پسنی میں پاک فوج نے قدرتی درختوں کی شجرکاری کی، جس میں کیکر، شیشم، نیم، بیر، شریں اور آلوچے کے درخت شامل ہیں، تاکہ جنگلات کی بحالی اور آلودگی میں کمی کی جا سکے۔
ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ زمین کو مستقل طور پر کچرے اور آلودگی سے محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں زیرو ویسٹ مینجمنٹ کا اہم کردار ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور کچرے کے بڑھتے مسائل کے پیش نظر، دنیا بھر میں زیرو ویسٹ مینجمنٹ کا تصور فروغ پا رہا ہے، جس کا مقصد کچرے کی پیداوار کو کم کرنا، قدرتی وسائل کے تحفظ، اور ماحول کو صاف رکھنے میں مدد دینا ہے۔ بے تحاشا کچرا، خاص طور پر پلاسٹک، زمین، پانی، اور ہوا کو آلودہ کرتا ہے، جس سے انسانی صحت اور جنگلی حیات متاثر ہوتی ہے۔ Land Fills اور کچرے کو جلانے سے خطرناک گیسیں خارج ہوتی ہیں جو گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کا باعث بنتی ہیں۔ کئی ممالک کچرے سے توانائی اور کھاد بنا رہے ہیں، جبکہ پاکستان میں، خاص طور پر کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں، یہ مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ زیرو ویسٹ حکمتِ عملی کے ذریعے ہم کم اشیا خرید کر، ری سائیکلنگ اور دوبارہ استعمال کو فروغ دے کر کچرے کی مقدار کم کر سکتے ہیں، جیسے پلاسٹک کی جگہ سٹیل اور مٹی کے برتنوں کا استعمال کرنا اور فاضل صنعتی مواد کو دوبارہ قابل استعمال بنانا۔ اسی سلسلے میں حکومت نے پلاسٹک بیگز پر پابندی بھی لگائی ہے۔ پاک فوج اس ضمن میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ فوجی ادارے ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے جدید تکنیکیں اپنا رہے ہیں اور قوم کو ماحول دوست طرزِ زندگی اپنانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ تاہم، ان کوششوں کی کامیابی عوامی تعاون پر منحصر ہے۔ اسی لیے زیرو ویسٹ مینجمنٹ کے متعلق عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے پاک فوج نہ صرف فوجی تعلیمی اداروں میں زیرو ویسٹ مینجمنٹ اور ماحولیاتی تحفظ کی تربیت فراہم کر رہی ہے بلکہ مقامی کمیونٹی کے لیے سیمینارز اور آگاہی مہمات بھی منعقد کرتی ہے تاکہ عوام میں زمین سے محبت پیدا ہو اور اسے فضلے اور کچرے سے نہ بھرنے کے بارے میں شعور اجاگر کیا جا سکے۔مزید برآں پاک فوج اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے بھی عوام میں ماحولیاتی تحفظ کا شعور بیدار کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ نئی فوجی بھرتیوں کو تربیت کے دوران ماحولیاتی تحفظ کے اصولوں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ فوجی تربیت میں ماحولیاتی تعلیم شامل کی جاتی ہے، اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنانے، ری سائیکلنگ، فضلہ مینجمنٹ اور پائیدار وسائل کے استعمال کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے اور فوجی تنصیبات میں قابل تجدید توانائی کے استعمال اور ماحول موافق تعمیرات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ پاکستان آرمی کے یہ اقدامات ملکی سطح پر ماحول دوست رویوں کے فروغ دینے اور پائیدار ترقی میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس بات سے انکار نہیں کہ پاکستان میں ماحولیاتی چیلنجز بے شمار ہیں، لیکن اس بحران سے نمٹنے میں کامیاب ثابت ہوا جا سکتا ہے اگر ہمبحیثیت قوم اپنی حکومت اور پاک فوج کی مشترکہ کوششوں میں ان کا ساتھ دیں۔
زمین ہماری آئندہ نسلوں کی امانت ہے، اور اگر ہم نے آج اس کی حفاظت کے لیے اقدامات نہ کیے تو آنے والے وقت میں ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی یومِ ارض نہ صرف ایک رسمی دن بلکہ ایک تحریک ہے جو ہر فرد کو اپنی ذمہ داری نبھانے کی یاددہانی کراتی ہے، تاکہ ہم سب مل کر ایک سرسبز، پائیدار اور محفوظ زمین کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس لیے اس عالمی یوم ارض کے موقع پر ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم بھی اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ ایک درخت لگائیں، پانی بچائیں، فضلہ کم کریں، اور ماحولیاتی تحفظ کے پیغام کو عام کریں کیونکہ زمین کا تحفظ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے!
تعارف:مضمون نگارکی دیوان سخن اور داستانِ سخن کے نام سے دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے