دنیا اس وقت ایک شدید ماحولیاتی بحران سے گزر رہی ہے، جو نہ صرف انسانی زندگی بلکہ کرہ ارض پر موجود تمام جانداروں کے لیے بھی ایک خطرہ بن چکا ہے۔ صنعتی ترقی، غیر متوازن زرعی طریقے، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، اور فوسل فیول کے بے تحاشا استعمال نے زمین کے قدرتی توازن کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اقوام متحدہ کی 2023 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، زمین کا درجہ حرارت صنعتی انقلاب کے بعد سے 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے، اور اگر گرین ہائوس گیسوں کے اخراج پر قابو نہ پایا گیا تو یہ 2050ء تک 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جائے گا، جس کے نتیجے میں شدید ماحولیاتی تباہی واقع ہو سکتی ہے۔
افریقہ، جنوبی ایشیا اور بحرالکاہل کے جزائر پر مشتمل کئی علاقے اس بحران سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، 2050ء تک دنیا کی تقریباً 1.2 ارب آبادی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہو سکتی ہے۔ پیرس معاہدہ (Paris Agreement 2015) اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (Sustainable Development Goals - SDGs) جیسے اقدامات اس مسئلے کو کم کرنے کے لیے کیے گئے ہیں، لیکن اب تک ان پر عمل درآمد کی رفتار انتہائی سست ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا اثر سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک پر پڑ رہا ہے، جہاں بنیادی ڈھانچے کی کمی، اقتصادی مسائل اور کمزور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج اور بھی زیادہ شدید ہیں۔ مثال کے طور پر، پاکستان میں 2022 ء کے سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصے کو متاثر کیا، جہاں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور زرعی پیداوار شدید متاثر ہوئی۔ اسی طرح، افریقی ممالک جیسے صومالیہ اور سوڈان میں بڑھتی ہوئی خشک سالی خوراک کی قلت اور قحط کو جنم دے رہی ہے، جبکہ بحرالکاہل کے کئی جزائر جیسے مالدیپ اور کیریباتی کے لیے سمندری سطح میں اضافے کی وجہ سے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
اسلام، جو کہ ایک مکمل ضابط حیات ہے، ماحولیاتی توازن، فطرت کے احترام اور قدرتی وسائل کے منصفانہ استعمال پر زور دیتا ہے۔ اگر اسلامی تعلیمات کو جدید ماحولیاتی پالیسیوں میں شامل کیا جائے، تو موجودہ ماحولیاتی بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے اور ایک پائیدار طرزِ زندگی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
اسلام میں فطرت اور ماحولیاتی تحفظ کا تصور
اسلامی تعلیمات کے مطابق، زمین اور فطرت اللہ کی نشانیوں میں شامل ہیں، اور ان کی حفاظت کرنا ہر انسان پر لازم ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
''اور زمین میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں'' (سور الذاریات: 20)۔
یہ آیت اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ زمین اور اس کے تمام وسائل ایک منظم اور متوازن نظام کے تحت چل رہے ہیں، اور انسان کا فرض ہے کہ وہ اس توازن کو برقرار رکھے۔ جدید سائنسی تحقیق بھی اس نکتے کی تائید کرتی ہے کہ زمین کا ہر نظام آپس میں مربوط (interconnected) ہے، اور اگر کسی ایک عنصر میں خلل ڈالا جائے تو پوری زمین کے ماحولیاتی نظام پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اسلام میں انسان کو زمین کا خلیفہ مقرر کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسے زمین کا نگہبان اور محافظ بنایا گیا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
''اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا''(سور الفاطر: 39)۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان زمین کا اصل مالک نہیں بلکہ اللہ کا نائب ہے، اور اسے اس زمین کو بہتر بنانے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ جدید ماحولیاتی پالیسیوں کا بھی یہی نظریہ ہے کہ انسان کو قدرتی وسائل کا غیر ضروری استعمال کرنے کے بجائے انہیں بہتر طریقے سے محفوظ بنانا چاہیے، تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان سے مستفید ہو سکیں۔
---
ماحولیاتی بحران اور اسلامی اصول
اسلامی تعلیمات قدرتی وسائل کے متوازن اور محتاط استعمال پر زور دیتی ہیں، تاکہ فطرت کے توازن کو برقرار رکھا جا سکے اور زمین کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنایا جا سکے۔ قرآن میں اسراف اور فضول خرچی کی سخت ممانعت کی گئی ہے:
''اور کھائو اور پیو، اور فضول خرچی نہ کرو، بے شک اللہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا''(سور الاعراف: 31)۔
یہ اصول جدید ماحولیاتی پالیسیوں سے مطابقت رکھتے ہیں، جہاں پائیدار ترقی (sustainable development) پر زور دیا جا رہا ہے۔ آج دنیا میں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، اور کئی ممالک میں پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں پانی کے دانشمندانہ استعمال کی سختی سے تلقین کی گئی ہے۔ نبی کریم ۖ نے فرمایا:
''بہتے دریا کے کنارے بھی وضو کرو تو پانی ضائع نہ کرو''(ابن ماجہ)۔
اسی طرح، زمین کے درجہ حرارت کو کم رکھنے اور حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے میں درخت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نبی کریم ۖ نے فرمایا:
''اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو، تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگا دے''(مسند احمد)۔
جدید سائنسی تحقیق بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بڑے پیمانے پر شجرکاری (afforestation) کے ذریعے زمین کے درجہ حرارت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک تحقیق کے مطابق، اگر دنیا بھر میں درختوں کی تعداد 20 فیصد بڑھا دی جائے، تو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے، جو زمین کے درجہ حرارت کو کم کرنے میں مدد دے گی۔
اسلامی تاریخ میں ماحولیاتی تحفظ کی مثالیں
اسلامی تاریخ میں ماحولیاتی تحفظ کے بے شمار شواہد موجود ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم معاشروں میں فطرت کی حفاظت کو خصوصی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ خلافتِ عباسیہ، خلافتِ عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کے ادوار میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے کئی قوانین اور عملی اقدامات متعارف کروائے گئے۔
عباسی خلافت کے دور میں، خاص طور پر ہارون الرشید اور مامون الرشید کے ادوار میں، زراعت، آبپاشی اور نہری نظام کی ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی۔ بغداد میں نہری نظام کو منظم کیا گیا، تاکہ پانی کے ضیاع کو کم کیا جا سکے اور زمین کی زرخیزی کو برقرار رکھا جا سکے۔ مورخین کے مطابق، عباسی حکمرانوں نے زمین کی بحالی (land reclamation) کے اصولوں کو اپنایا اور کاشتکاری کے ایسے طریقے متعارف کروائے جن سے زمین کی زرخیزی متاثر نہ ہو۔
خلافتِ عثمانیہ کے دور میں "وقف جنگلات" (Protected Forests) کا تصور متعارف کروایا گیا، جس کے تحت مخصوص علاقے درختوں اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے مختص کیے گئے تھے۔ عثمانی حکمرانوں نے ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے سخت قوانین نافذ کیے، جن کے تحت درختوں کی غیر ضروری کٹائی ممنوع تھی، اور اگر کوئی شخص بلا ضرورت درخت کاٹتا تو اس پر جرمانہ عائد کیا جاتا تھا۔ عثمانی سلطنت میں شہروں کے اندر اور ان کے اطراف میں باغات اور سبزہ زار قائم کرنے کی روایت موجود تھی، تاکہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کیا جا سکے اور شہریوں کو صاف ستھری فضا مہیا کی جا سکے۔ استنبول کے تاریخی باغات، جیسے کہ''غلہانے پارک'' اور ''ییلدز پارک''، اس دور کی پائیدار ماحولیاتی پالیسیوں کی عمدہ مثال ہیں۔
مغلیہ سلطنت میں بھی ماحول کے تحفظ کو اولین ترجیح دی گئی۔ مغل بادشاہوں نے باغات کی تعمیر اور پانی کے ذخائر کی بہتری پر خصوصی توجہ دی۔ مشہور مغل بادشاہ اکبر نے زراعت کو فروغ دینے کے لیے بڑے پیمانے پر نہری نظام قائم کیا، جبکہ شاہجہان کے دور میں مغل باغات کی روایت کو مزید وسعت دی گئی۔ لاہور کا شالامار باغ، دہلی کا لودھی گارڈن، اور کشمیر کے مغل باغات اسی روایت کی یادگاریں ہیں۔ مغل بادشاہوں نے نہ صرف شاہی باغات تعمیر کروائے بلکہ شہروں میں درختوں اور سبزہ زاروں کی افزائش پر بھی زور دیا، تاکہ ماحولیاتی توازن برقرار رکھا جا سکے۔
اندلس میں، جو کہ مسلم اسپین کا مرکز تھا، زرعی ترقی اور آبپاشی کے جدید نظام متعارف کروائے گئے، جن سے پورا یورپ مستفید ہوا۔ قرطبہ اور غرناطہ میں ایسے آبی نظام بنائے گئے جو نہ صرف زراعت کے لیے فائدہ مند تھے بلکہ ماحولیاتی تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کرتے تھے۔ مسلمان ماہرینِ زراعت نے اس بات پر تحقیق کی کہ کون سے درخت اور پودے زمین کے لیے زیادہ فائدہ مند ہیں، اور انہوں نے ایسی تکنیکیں ایجاد کیں جن سے زمین کی زرخیزی برقرار رہے۔
مسلم دنیا میں ماحولیاتی تحفظ کے جدید اقدامات
آج کے دور میں بھی کئی مسلم ممالک ماحولیاتی تحفظ کے لیے عملی اقدامات کر رہے ہیں، تاکہ ماحولیاتی بحران کو کم کیا جا سکے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق فطرت کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
سعودی عرب میں "گرین مڈل ایسٹ انیشی ایٹو" کے تحت لاکھوں درخت لگانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، تاکہ کاربن کے اخراج کو کم کیا جا سکے اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پایا جا سکے۔ اس منصوبے کے تحت، 2030 تک 50 ارب درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جو کہ مشرق وسطی میں ماحولیاتی بحالی کے سب سے بڑے منصوبوں میں شمار ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں شمسی توانائی اور ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی کے منصوبوں پر بھی کام کیا ہے، تاکہ تیل پر انحصار کم کیا جا سکے اور متبادل توانائی کے ذرائع کو فروغ دیا جا سکے۔
پاکستان میں درخت لگانے جیسے منصوبے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں، جن کے ذریعے ملک بھر میں درخت لگانے اور جنگلات کے رقبے میں اضافہ کرنے پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس مہم کے تحت، گزشتہ چند سالوں میں ایک ارب سے زائد درخت لگائے جا چکے ہیں، اور مزید درخت لگانے کے لیے عوامی سطح پر آگاہی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں "کلین اینڈ گرین پاکستان" مہم کے ذریعے شہروں میں صفائی کے نظام کو بہتر بنایا جا رہا ہے، اور کوڑا کرکٹ کو ری سائیکل کرنے کے منصوبے متعارف کروائے جا رہے ہیں۔
ترکی میں "زیرو ویسٹ پراجیکٹ" کے ذریعے کچرے کو کم کرنے، ری سائیکلنگ کو فروغ دینے اور شہروں میں سبز مقامات کو محفوظ بنانے کے لیے موثر پالیسیز نافذ کی جا رہی ہیں۔ یہ منصوبہ خاص طور پر شہروں میں ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، جس کے تحت سرکاری دفاتر، اسکولوںاور عوامی مقامات پر کچرے کے انتظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے بھی ماحولیاتی تحفظ میں اہم پیش رفت کی ہے۔ دبئی اور ابوظہبی جیسے شہروں میں ''اسمارٹ سسٹین ایبل سٹی'' (Smart Sustainable City) کے ماڈلز پر کام کیا جا رہا ہے، جہاں عمارتیں، ٹرانسپورٹ اور توانائی کے ذرائع ماحول دوست طریقوں پر مبنی ہیں۔ 2023ء میں، متحدہ عرب امارات نے "COP28" کی میزبانی کی، جو کہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر عالمی سطح کی سب سے بڑی کانفرنس ہے۔ اس کانفرنس میں قابلِ تجدید توانائی، ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے اور عالمی ماحولیاتی پالیسیوں کے نفاذ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ملیشیا اور انڈونیشیا میں بھی ماحولیاتی تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انڈونیشیا، جو کہ پام آئل کی پیداوار میں سرفہرست ممالک میں شامل ہے، نے جنگلات کے کٹائو کو روکنے کے لیے نئی پالیسیاں متعارف کروائی ہیں، تاکہ حیاتیاتی تنوع کو محفوظ رکھا جا سکے۔ ملیشیا میں "گرین ٹیکنالوجی ماسٹر پلان" کے تحت قابلِ تجدید توانائی، ماحولیاتی تحفظ، اور کم کاربن والی صنعتوں کو فروغ دینے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
حاصل کلام
ماحولیاتی بحران ایک سنگین چیلنج ہے، مگر اس کا حل اسلامی تعلیمات میں موجود ہے۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلم حکمرانوں اور اسکالرز نے ہمیشہ فطرت کے احترام اور ماحول کی حفاظت کو اہمیت دی ہے۔ آج کے جدید مسلم ممالک بھی ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، جن میں جنگلات کی بحالی، توانائی کے متبادل ذرائع اور کچرے کے انتظام جیسے منصوبے شامل ہیں۔
اگر ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں وسائل کا متوازن استعمال کریں، زمین کی حفاظت کو اپنی دینی اور اخلاقی ذمہ داری سمجھیں، توانائی کے متبادل ذرائع اپنائیں اور جدید سائنسی تحقیق کو اسلامی اصولوں کے ساتھ جوڑ کر عملی اقدامات کریں، تو ہم نہ صرف اپنے ماحول کو محفوظ بنا سکتے ہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایک پائیدار اور بہتر دنیا تشکیل دے سکتے ہیں۔ مسلم ممالک کو اس مسئلے پر عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ قدرتی وسائل کو محفوظ رکھا جا سکے اور زمین پر فطری توازن برقرار رکھا جا سکے۔
تعارف:مضمون نگار مختلف اخبارات میں مذہبی اور سماجی اُمور پر لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے