جس طرح سورج کے طلوع اور غروب ہونے کا ہمیںیقین ہے اسی طرح افواج پاکستان کے سپاہیوںکا سیسہ پلائی دیوار بن کے دشمن کا مقابلہ کرنے میںکوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرنے کا بھی ہمیںیقین ہے۔ چاند توچودھویںکی رات مکمل چاندنی بکھیرتاہے مگرہمارے شیرجوانوںکی سجدہ ریزجبیں روزانہ چودھویں کے چاندکی طرح چمکتی ہیں۔مہمند ایجنسی ہویاخیبرایجنسی،جنوبی وزیرستان ہویاشمالی وزیرستان یاپھر سرحدوںکی حفاظت ہو، ان کے لیے سب باغ ارم ہے۔ہمارے پانچ جوان ''جناتہ'' کی پوسٹ پہ4فروری کو شہیدہوئے۔حوالدار سعیداقبال(شہید)اورسپاہی باسط علی خان(شہید)،سپاہی طلحہ عزیز(شہید)،لائس نائیک نصیب اللہ(شہید)،سپاہی احمدخان(شہید) یہ مائوںکے لخت جگر جس طرح جوانمردی سے وطن پر دشمنوںکا حملہ روکتے ہوئے شہید ہوئے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
سپاہی طلحہ عزیز شہیدکے والد عبدالعزیز سے بات ہوئی ،انہوں نے کہاکہ میرا بیٹا بچپن سے فوج میں جانے کی خواہش رکھتا تھا، کھیلتا کودتا پڑھتا،لکھتا دوستوںمیں بھی بھائیوں جیسا اور بھائیوںمیں سب کا لاڈلا اور پیار بانٹنے والا طلحہ عزیز شہید سپاہی بھرتی ہوا ۔ وہ فوجی افسر بننا چاہتا تھا، مگر پاس نہ ہوا تو سپاہی بھرتی ہونے پر بھی اس کی خوشی دیدنی تھی مگر(والد)عبدالعزیز نے خوشی سے جھومتے طلحہ عزیز(شہید)کوکہا ادھرآئومیرے پاس بیٹھو! وہ بیٹھ گئے اور پھر انہوں نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا،ماتھاچوما اورکہنے لگے! طلحہ میری وصیت ہے تمہیںکہ جب بھی وطن کی حفاظت میں شہادت کا وقت آجائے تو سینے پہ گولی کھانا اگرکمرپہ کھائی اور میدان چھوڑکے بھاگتے ہوئے مارے گئے تومیں تمہارا جسدخاکی قبول نہیںکروں گاہاںاگر تم نے سینے پہ گولی کھائی تو میں سرفخرسے بلندکرکے اللہ اکبرکانعرہ لگائوںگا اور تمہارا ماتھاچوموںگا، اللہ نے مجھے وہ دن دکھادیاکہ میں آج قابل فخربیٹے کا والدبن گیا ہوں۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
حضرت علامہ اقبال شاعر مشرق کے عشق کی منہ بولتی تصویر طلحہ عزیز(شہید) نے شہیدہوکراور ان کے والد عبدالعزیز نے وصیت کرکے پیش کردی۔
عبدالعزیزصاحب نے کہاکہ مجھے اپنی افواج پہ بہت فخر اور بھروسہ ہے ۔وہ جاگتے ہیں توہم چین کی نیند سوتے ہیں ۔مجھے اتنامعلوم تھاکہ میرا بیٹا بہادرہے مگرجب اس کے افسر نے کہاکہ آپ کے بیٹے نے مقابلہ کرکے اتنی چھوٹی سی عمر میں ہمیں فخرعطاکیا تومیں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگیا اور میں کہتا ہوںکہ میرے چھ بیٹے ہیں ،ایک شہیدہوگیاہے تو باقی پانچ بھی اگر وطن کے محافظ مانگیںتومیں دینے کے لیے تیار ہوں۔
طلحہ عزیز(شہید)کابچپن داروغے والامیں گزرا، فوج میں جانے کے بعد مردان میں سخت تربیت حاصل کی ۔تربیت کی سختی کے باوجود انتہائی خوش رہتے۔گھرآنے پر شاید وہ اتنے خوش نظرنہ آتے ہوںلیکن جب چھٹی ختم ہونے کا وقت ہوتا تو بہت خوش نظرآتے۔
مردان کے بعد پہلی پوسٹنگ کشمیر میںہوگئی تووہ بہت مطمئن تھے۔ جب وہ گھر چھٹی آئے تو سب کے ساتھ خوب کھیلے،گپ شپ لگائی مگرماں کے ساتھ رہنے کی مثال طلحہ عزیز(شہید) کے بھائی شاکر نے کچھ یوںدی کہ اسی طرح میرا بھائی طلحہ عزیز(شہید)اپنی ماںکے پلوسے لگا ان کے پیچھے پیچھے چلاکرتا تھا ۔ہمیں تویقین نہیں آتاکہ ایک ماںکا اتنا لاڈلا دوسری ماں پہ شیرکی طرح نثارہوگیا۔ والدہ اپنا دوپٹہ سمیٹ کے رکھتی ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اب میرا پلو پکڑکرمجھ سے لاڈکرنے والاکبھی نہیں آئے گا۔جدائی کاکرب اپنی جگہ اور شہادت کا فخر اپنے مقام پہ،یہی تو خوبی ہے شہیدکے اہل خانہ کی۔
شاکر کی آواز بھرا گئی،(میرے بھائی میرے یار توہم سب سے بازی لے گیا)۔
طلحہ عزیزکی پوسٹنگ شمالی وزیرستان میں تھی اور انہیں چھٹی سے واپس گئے ہوئے اڑھائی ماہ ہوگئے تھے اب سب ان کے گھرآنے کے منتظرتھے۔ ماں نے بہت سے کام سوچ رکھے تھے ۔ویسے بھی طلحہ عزیز شہیدسب کے کام کرکے بہت خوش ہوتاتھا۔اپنی بڑی بہن کو بچوںسمیت اپنے آنے پہ بلالیتا اورجانے نہ دیتا۔ ان کے لیے گھوڑا بن کے کمرپہ سیرکرانا اورپھر بھوت بن کے ڈرانا، ساتھ میں بہادری کے قصے سنانا اور چاند کی نانی اماں کی کہانی سنانا یہ سب طلحہ عزیز(شہید)کیاکرتے تھے۔
ایک سال پہلے ہی ان کی شادی ہوئی تھی ۔
اس مرتبہ جب وہ چھٹی کے بعدجانے لگے توانہوں نے سارے گھر والوںکو ہوٹل میں کھانا کھلایا اورکہاکہ زندگی کا کیا پتہ دوبارہ ملنے کی مہلت نہ ملے اس لیے آپ سب کویہ ڈنرکروارہا ہوں اورپھر اس نے اپنے والدکوکہاکہ بابا مجھے ایسے لگ رہاہے کہ جیسے میںیہ آخری سفر کررہاہوں تو(والد)عبدالعزیزنے کہاایسانہیں سوچتے، اللہ تمہارا حامی وناصرہو!مگر اس نے دوبارہ یہ بات کہی کہ نہیں بابا مجھے محسوس ہورہاہے کہ یہ میرا آخری سفرہے تو والد نے بتایا کہ وہ سچ کہہ رہاتھا، شاید وہ ہم سے بچھڑ جانے کی خوشبوئے شہادت کو سونگھ چکاتھامگرہم ہی دنیا دارلوگ سمجھ نہ سکے ۔وہ تو بتاگیااور آخری بار مل کر باربار گلے لگ کر سب کو خدا حافظ کہہ گیا۔
جب بھی طلحہ عزیزشہیدکی تنخواہ آتی تو وہ سب کے لیے الگ الگ لفافوں پہ نام لکھ کے اس کے اندر پیسے رکھ بھیجاکرتا!
اب بھی اس کے بھیجے ہوئے لفافوںمیں کہیں نہ کہیں چند نوٹ ہمیں اس کی محبت میں رونے پہ مجبورکردیتے ہیں مگر والدکسی کو رونے نہیں دیتے، کہتے ہیں اٹھواٹھو سب اپنے کام پر توجہ دو۔ طلحہ عزیزشہید نے ایک ایک سے سب حساب لینے ہیں۔یہ نہ ہوکہ تم لوگ اس کے سامنے شرمندہ ہوکر کھڑے ہوجائو۔
ایک دن پہلے ہی طلحہ عزیزکی گھر بات ہوئی ،انہوں نے کہاکہ مجھے ڈیوٹی پہ جانا ہے ، کل بات کرونگا، مگر اسی شام 8:15پہ مقابلہ شروع ہوگیا ''جناتہ'' پوسٹ پہ خوارجیوں نے حملہ کیا وہ تعداد میں 25کے قریب تھے۔
ہماری فوج کے سترہ جوان تھے ۔خوارجیوںکامقصد تھاکہ وہ 'جناتہ 'پوسٹ پہ قبضہ کرلیں ۔ادھر افسران بالاکوبھی خبرہوچکی تھی لیفٹیننٹ کرنل عرفان حیدر نفری لے کے پہنچ چکے تھے مگر اس سے پہلے ہی طلحہ عزیز نے آگے بڑھ کرحملہ کیا ، ساتھی کہتے ہیںکہ وہ اپنے دشمن پہ ایسے جھپٹ رہاتھاجیسے کہ وہ شاہین ہو، وہ ہماری پلٹن کا سب سے چھوٹی عمر کا سپاہی تھا اور سب سے بڑا کام کرگیا۔ انہوں نے خوارجیوں پر پے در پے وار کئے حتیٰ کہ وہ لوگ بھاگنے پہ مجبور ہوگئے۔لیفٹیننٹ کرنل عرفان حیدرنے کہاکہ طلحہ عزیز شہیدنے اس طرح ڈٹ کرمقابلہ کیاکہ ہماری یونٹ کا نام سنہری حروف میں لکھ کرچلاگیا۔
تعارف:مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں
۔[email protected]
تبصرے