7اپریل2025ء کو دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ پاک فوج کی دنیا بھرمیں اولین شناخت ایک مستعد اورمئوثر لڑاکا فورس کی ہے۔ ایک لڑاکا فورس کی افرادی قوت کی ذہنی اور جسمانی مستعدی کے لیے جسم وجان کا صحت مند ہونا لازم ہے۔اسی بناء پر فوج کی افرادی قوت کی اچھی ذہنی اور جسمانی صحت برقرار رکھے جانے کو زمانہ امن کے اندرجنگ کی تیاریوں میں شامل اولین ترجیحات میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ'ہیلتھ آف ٹروپس ' ایک باقاعدہ مضمون کے طور پر نوجوان افسروں کے تربیتی کورسز کے نصاب میں شامل ہوتا ہے۔ زمانہ امن ہو یا حالتِ جنگ ،مجموعی طور پر صحت کاایک جامع اور مربوط نظام 'فائٹنگ فورس' کے پہلو بہ پہلو مگر پسِ منظر میں ہمہ وقت کارفرما رہتا ہے۔ زمانہ امن میں صحت کی ضروریات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ہر چھوٹے بڑے گیریژن کے حجم کی مناسبت سے وہاں بستروں کی تعداد متعین کرتے ہوئے ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ دورانِ سروس ایک کورمیں بطور' کرنل ایڈ منسٹریشن' اور بعد ازاں بحیثیت 'کمانڈر کور لاجسٹکس' اپنی تعیناتیوں کے دوران مجھے چند فوجی ہسپتالوں کو بہت قریب سے دیکھنے، اُن کی صلاحیتوں، استعدادِ کار، افسروں اور جوانوں کی شکایات ، اورہسپتالوں کو درپیش مشکلات کو براہِ راست دیکھنے اور کسی حد تک سمجھنے کا موقع ملا۔کئی پہلوئوںسے جہاں مریضوں کی شکایات جائز ہوتی ہیں تو وہیں ہسپتالوں کی انتظامیہ کو اُن کے پیچھے عملے بالخصوص سپیشلسٹ ڈاکٹروں اور نرسنگ سٹاف، کی کمی کار فرما دکھائی دیتی ہے۔ تاہم قومی سطح پر موازنہ کیا جائے تو محدود فنڈنگ اور تکنیکی وسائل کے ساتھ ہمارے ملٹری ہسپتال زمانہ امن اور قدرتی آفات کے دوران جس کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں وہ صحت کے میدان میں ایک بڑی قومی شراکت داری سے کم نہیں۔
چند ملٹری ہسپتالوں کو اپنا انفراسٹرکچر عالمی معیار پر لانے کے لیے کچھ دوست ممالک نے براہِ راست فنڈنگ بھی کی ہے۔ میری بیٹی آرمی میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہو کر آج کل سڈنی میں ایک بڑے ہسپتال میں اپنے فرائض منصبی انجام دے رہی ہے۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی جب اُس نے مجھے بڑے فخر کے ساتھ بتایا کہ سی ایم ایچ راولپنڈی (جہاں اس نے ہائوس جاب کی تھی) کی پیشہ وارانہ کارکردگی کا موازنہ سڈنی کے اُس جدید ہسپتال سے بآسانی کیا جا سکتا ہے جہاں وہ اب کام کر رہی ہے ۔یہاںقاری کے ذہن میں پہلا خیال جو پیدا ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ ضرور آرمی کے ہسپتالوں کو حکومت کی جانب سے اضافی فنڈنگ کی جاتی ہو گی۔عام تاثر کے برعکس ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملٹری ہسپتالوں کو آرمی کے بجٹ میں سے ایک متعین حصہ ہی ملتا ہے۔ تاہم کہا جا سکتا ہے کہ فوجی ہسپتالوں کی نسبتاََ بہتر کارکردگی کے پسِ پشت فوج کا مئوثر تنظیمی ڈھانچہ، منصوبہ بندی، جدیدانتظام و انصرام اور جوابدہی کے مستعد نظام کی موجودگی جیسے عوامل کارفرما ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہمارا طبی نظام حکم ملنے پر نہ صرف زمانہ امن سے حالتِ جنگ کی ضروریات کے مطابق خود کو نہایت سرعت اور مستعدی کے ساتھ ڈھال لیتا ہے، بلکہ قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونے کے لیے بھی ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔
پاک فوج کے ہسپتالوں میں طبی سہولیات صرف فوجیوں کے لیے مختص نہیں ہیںبلکہ تمام ملٹری ہسپتالوں میں عام شہریوں کو بھی علاج معالجے کی سہولت 'سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز' کے تحت انتہائی مناسب اخراجات کے بدلے دستیاب رہتی ہیں ۔ راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف ری ہیبی لیٹیشن کے علاوہ سی ایم ایچ کھاریاں سے منسلک ملک کے سب سے بڑے برن سینٹر کو فوجی ہسپتالوں میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔چنانچہ عمدہ پیشہ ورانہ ماحول دستیاب ہونے کی بناء پر فوجیوں کے علاوہ سیکڑوں سویلین مریض بھی ہر روز پورے ملک میں پھیلے ملٹری ہسپتالوں میں موجودعالمی معیار کی سہولیات سے استفادہ کرتے ہیں۔عام تاثر کے برعکس اربابِ اختیار کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ملٹری ہسپتالوں میں عام شہریوں کو سہولیات کی فراہمی متعین اوقات کے مطابق اورطے شدہ نظام کے اندر عمل پذیر ہونے کی بناء پر فوجی مریضوں کی دیکھ بھال کو متاثر نہیں کرتی۔مزید برآں یہ کہ اِس پریکٹس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بڑا حصہ اُسی ہسپتال میں انفراسٹرکچر اورسہولیات کی مزیدبہتری کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پاک فوج اپنے ملٹری ہسپتالوں کے ذریعے ادارے کے لیے صحت مند افرادی قوت برقرار رکھے جانے کے ساتھ ساتھ جس طرح لاکھوں ویٹرنز، ان کے خاندانوں اور ہزاروں سویلینز کے لیے شب وروزصحت کی سہولیات مہیا کرنے میں مصروف ہے وہ زمانہ امن میں قومی سطح پر ہیلتھ سیکٹر میں ہاتھ بٹائے جانے کی ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔
قومی خدمات کی بات چلے تو پاک فوج کی جانب سے ملک کے دور دراز علاقوں میں اپنے محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے میڈیکل کیمپوں کا انعقاد ایک معمول کی بات ہے۔ ان میڈیکل کیمپوں میں ادویات سمیت علاج معالجہ بلا معاوضہ اور آرمی کے بجٹ سے مہیا کیا جاتا ہے۔میںدہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران مغربی سرحد سے ملحق سابقہ قبائلی علاقوں میں دور دراز مقامات پر انتہائی غیر محفوظ اور نا مساعد حالات میںفوج کی جانب سے لگائے گئے لاتعداد میڈیکل کیمپس اوران میں فراہم کی جانے والی مفت طبی سہولیات اور اُن سے مستفید ہونے والے مقامی افراد کی آنکھوں سے جھلکنے والے تشکرکے جذبات کا عینی شاہد ہوں۔صرف اندرونِ ملک ہی نہیں، پاک فوج کی جانب سے اقوام متحدہ کی چھتری تلے دنیا بھرکے شورش زدہ ملکوں میں بھی پاک فوج کے امن دستوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی طبی خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جاتا ہے۔ مجھے اقوام متحدہ کے سوڈان امن مشن میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہے ۔ وہاںہمارے لیول ٹو ہسپتال نے جو خدمات سرانجام دیں انہیں اقوامِ متحدہ کے ہر متعلقہ فورم پر سراہا گیا۔تاہم پاک فوج کے آئی کیمپس کو اقوام متحدہ کی امن فوج کے اغراض و مقاصد سے متعلق بد گمانی رکھے جانے کے باوجود مقامی حکومت کی جانب سے جس غیر معمولی انداز میں سراہا گیا وہ پاکستان کے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔ ہمارے دستوںکی وطن واپسی سے پہلے ہمارے ڈاکٹروں کے اعزاز میں صوبے کے گورنر کی صدارت میں شہر کی کونسل کا خصوصی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں شہریوں نے بھاری تعداد میں شرکت کی۔ اس اجلاس میں ہمارے طبی عملے کو مقامی افراد کے لیے اُن کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں ستائشی اسناد سے نوازا گیا۔ یاد رہے کہ پاکستان آرمی کے امن دستے سات عشروں سے دنیا بھر میں امن کی بحالی اور شورش زدہ علاقوں میں انسانیت کی فلاح کے لیے اسی پیمانے پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
سیلاب اور زلزلوں سمیت قدرتی آفات کے دوران پاک فوج کے طبی اداروں کے کردار سے کون واقف نہیں۔قدرتی آفات میں آرمی کے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی خدمات کا ذکر آئے تو 8اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کو کون بھول سکتا ہے؟ میں اس وقت جی ایچ کیو میں لاجسٹک ڈائریکٹوریٹ میں تعینات تھا۔ ہمارے ڈائریکٹوریٹ کو چکلالہ ایئر بیس پر تمام امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر کی آفت زدہ پٹی پر زیرِ زمین خوفناک لہروں نے وہ قیامت برپا کی کہ ہر کھڑی عمارت زمین بوس ہو چکی تھی۔زلزلے کے اگلے ہی روز جب زخمی مرد وزن اورروتے بلکتے بچے آفت زدہ علاقوں سے فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے چکلالہ بیس پر اترنا شروع ہوئے تو ایک قیامت برپا ہو گئی۔ہفتوں تک ہر روز سیکڑوں زخمیوں کی آمد جاری رہی اور پاکستان آرمی کا طبی عملہ مستعدی کے ساتھ ایئر بیس پر اُن کی فوری دیکھ بھال کے لیے موجو د رہا۔ ملٹری ایمبولینسز بغیر کسی وقفے کے بیس اور ملٹری ہسپتالوں کے بیج سرپٹ بھاگتی رہیں۔ ہسپتالوں میںفوجی ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف زخمیوں کے علاج معالجے کے لئے دن رات ایک کیے رہا۔ اس پُر آشوب دور میں راولپنڈی کے ملٹری ہسپتال کے کردار کا تذکرہ نہ کرنا جانا زیادتی ہوگی۔سال2005 ء کے تباہ کن زلزلے کے دوران اس ہسپتال کو مکمل طور پر زلزلہ زدگان کے لیے وقف کردیا گیا تھا۔ مہینوں اس ہسپتال میں متاثرین کا علاج معالجہ بلا امتیازو بلا معاوضہ جاری رہا۔ قومی سانحے میں انہی غیر معمولی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومتِ پاکستان کی جانب سے ہسپتال کو بعد ازاں'تمغہ ایثار' کے منفرد اعزازسے نوازا گیا۔ زلزلے سے متاثرہ پٹی میں زمین بوس ہونے والی عمارتوں میں مظفر آباد کا سی ایم ایچ بھی شامل تھا۔ اس ہسپتال کے کمانڈنگ آفیسرکی اُس غیر معمولی خود فراموشی اور ایثارکو بھلاکون بھول سکتا ہے کہ جس کا مظاہرہ کرنل صاحب نے اپنے مسمار گھر تلے دبے اہل خانہ کو وہیںچھوڑ تے ہوئے ،ہسپتال کے ملبے پرکھڑے ہو کر باقی ماندہ عملے اور وسائل کو امدادی سرگرمیوں کے لئے مجتمع کرتے ہوئے کیا۔
سال 2020 ء شروع ہوا توکرونا نامی وباء نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میںاُن دنوں عسکری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجانے کے بعد اب اگرچہ نظام کا حصہ تو نہیں تھا مگروباء پر قابو پانے اور معمولاتِ زندگی پراُس کے اثرات کے مداوے کے لیے کی جانی والی قومی کوششوں میں پاک فوج کی شراکت داری سے بے خبر نہیں تھا۔ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کی سربراہی میں قائم کردہ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کی معجزاتی مگر پسِ پردہ سرانجام دی جانے والی خدمات ابھی کل کی بات ہے چنانچہ یہاں دہرائے جانے کی محتاج نہیں ۔ راولپنڈی کے ملٹری ہسپتال کو ایک بار پھر قومی جذبے کے تحت کلی طور پر وباء سے متاثرہ افراد کے علاج معالجے اور دیکھ بھال کے لیے مختص کر دیا گیا تھا۔پاکستان آرمی کے تمام ملٹری ہسپتالوں میں وباء سے متعلق آگاہی کے لیے خصوصی ڈیسک، کرونا ٹیسٹنگ کی سہولیات اور علاج کے لیے الگ وارڈز مختص کر دیئے گئے ۔ وباء کے خلاف بر سرِ پیکار رہنے والے پبلک سیکٹر ہسپتالوں کے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا تو ہر گز قرینِ انصاف نہیں، تاہم اپنے ذاتی مشاہدات کی بناء پر میںیقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ملٹری ہسپتا لوں پر راتوں رات کئی گنا بوجھ بڑھ جانے کے باوجود ہسپتال پہنچنے والے کسی مریض کے علاج معالجے سے معذوری کا اظہار نہ کیا گیا۔ ہمارے دوست احباب میں سے وہ کہ جو کرونا کا شکار ہونے کی بناء پر ملٹری ہسپتال راولپنڈی میں زیرِ علاج رہے، ہسپتال کے عملے کے رویے میںمعمول سے بڑھ کر در آنے والی فرض شناسی ، تعاون اور ہمدردی کے جذبات کی گواہی دیتے ہیں۔
آخر میںاگر میں وباء کے اُداس موسم میں ملٹری ہسپتالوں کے کرونا وارڈز میںاپنی ذمہ داریاں جانفشانی سے ادا کرنے والے اُن سیکڑوںنوجوان ڈاکٹرز اور لیڈی ڈاکٹرز کا ذکر نہ کروں تو سمجھیں اس تحریر کا حق ادا نہ ہوا۔ خوف کے سایوں تلے گزرتے اُن شب وروز میں کہ جب عزیز و اقارب نے بھی ایک دوسرے سے فاصلے اختیار کر لیے تھے، درجنوں نوجوان فوجی ڈاکٹرز ، بالخصوص 'صنفِ آہن' ، پہروں ملٹری ہسپتال کے کرونا وارڈز میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد راولپنڈی کی ایک عسکری کالونی کے اندر اپنے گھروں کو لوٹتے تو مائیں انہیں اپنی آغوش میں لے لیتیں۔ آس پاس گھروں میںسے ہم جیسے ہی انہیں دیکھتے تو سرفخر سے بلند اور لبوں پردعائیں جا ری ہو جاتیں۔
تعارف: مضمون نگار مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں۔
تبصرے