وطن کی مرگ و زیست کا انحصار اس کی نوجواننسل پر ہوتا ہے۔ نوجوان ہی ملک و قوم کے رکھوالے، اس کی عزت و ناموس کے محافظ اور اس کے شاندار مستقبل کے ضامن ہیں۔ نوجوان قوم کا سرمایہ حیات ہیں کیونکہ ان کا کردار ہی قوم کی تقدیر کا تعین کرتا ہے۔ اس طرح ملک و قوم کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بقا کے ضمن میں نوجوان نسل کی اہمیت مسلم ہے اور حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ ہمارے قومی شاعر اور رہبر و رہنما دانائے راز،حکیم الامت اور مفکر اسلام علامہ محمد اقبال ایک نابغہ روزگار شاعر،بلند پایہ مسلم فلسفی اور بے مثل مفکر ہونے کے ناتے نوجوانوں کے اس مقام سے پوری طرح آگاہ ہیں ،انہیں ملت کا محافظ اور اس کے مستقبل کا امین گردانتے ہیں۔اس لیے ان کا کہنا ہے کہ
اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
اور
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
اقبال اپنی ملت کے جوانوں کو جری و بہادر، نڈر، پرعزم، قوی اور غیرت مند دیکھنا چاہتے ہیں۔وہ ان میں حرکت و حرارت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ انہیں کردار کا غازی بنانا چاہتے ہیں۔ وہ قوم کی پاسبانی کے لیے ان کا لہو ہر دم گرم رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ نوجوان نسل کو قوم کا کل اثاثہ اور سہارا سمجھتے ہیں اور مضبوط، توانا اور باکردار نوجوانوں کو ملت اسلامیہ کی سربلندی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی فکر میں نوجوانوں کی اصلاح کی جانب خاص توجہ مرکوز کرتے ہیں اور نظم و نثر میں بار بار نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں تعمیر خودی، حرکت و عمل، جرأتِ کردار، غیرت و حمیت اور جہد مسلسل کے اسباق ازبر کراتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کے ہر شعری مجموعے میں نوجوانوں کی تربیت و رہنمائی کا وافر سامان موجود ہے۔ علامہ اقبال ابتدا ہی سے امت مسلمہ کے لیے،اس کے نوجوانوں کی اہمیت اور ان کی اصلاح و بیداری کی اہمیت سے پوری طرح واقف تھے۔اسی لیے وہ بار بار نوجوان نسل کو مخاطب کرتے ہوئے اسے ہر طرح سے بیدار کرنے،اپنی اصلاح کرنے اور قوم کے لیے میدان عمل میں اترنے پر ابھارتے دکھائی دیتے ہیں۔
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مِینا و جام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں، میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
وہ اپنے نوجوانوں میں شاہین کا تجسس اور چیتے کا جگر پیدا کرنے کے خواہاں ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں مسلم نوجوانوں کے لیے شاہین کا استعارہ استعمال کرتے ہیں اور ان میں شاہین کی صفات دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ شاعر مشرق کو اس پرندے میں خودداری، غیرت مندی، بے نیازی، بلند پروازی اور تیز نگاہی جیسی خصوصیات دکھائی دیتی ہیں جو اسے ان کا پسندیدہ پرندہ بناتی ہیں۔ اقبال کے نزدیک یہی خصوصیات دراصل مرد مومن اور مرد درویش کی خصوصیات ہیں۔ اقبال اپنی قوم کے نوجوانوں کو انہی صفات کا حامل دیکھنے کے آرزومند ہیں اور اپنی قوم کے نوجوانوں کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہتے ہیں کہ
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
اقبال کا فلسفہ حرکت و عمل کا فلسفہ ہے ۔ وہ بلند ہمتی، عمل پیہم، جہد مسلسل اور سخت کوشی کے پیغام بر ہیں ۔اسی لیے شاہین کی سخت کوشی کی صفت انہیں محبوب ہے۔ اسی حوالے سے، ایک بوڑھے عقاب کی اپنے بچے کو نصیحت، اقبال نے اپنی ایک مختصر نظم میں کچھ یوں بیان کی ہے۔
بچۂ شاہیں سے کہتا تھا عقابِ سالخورد
اے ترے شہپر پہ آساں رفعتِ چرخِ بریں
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پِسر!
وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں
علامہ اپنی قوم کے نوجوانوں میں اس لیے شاہین کی سی سخت کوشی دیکھنے کے خواہاں ہیں تاکہ وہ زندگی کی مشکلات اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی اور حفاظت کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں اور دشواریوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنے نصب العین کی جانب بلا خوف و خطر بڑھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اقبال شاہین کو اس لیے بھی پسند کرتے ہیں کہ وہ دوسرے پرندوں کی نسبت زیادہ قوت و توانائی کا حامل ہے۔ اقبال یہی طاقت اور قوت امت مسلمہ کے نوجوانوں میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سچائی کی خاطر مرنے کے لیے بھی بہرحال جسم میں طاقت اور جان کا ہونا ضروری ہے اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ
ہوصداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
حکیم الامت علامہ محمد اقبال اپنی قوم کے نوجوانوں پر مغربی تہذیب کے اثرات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے راہ روی پر اتنے فکر مند تھے کہ وہ اپنے نوجوانوں کی اس حالت پر بار بار افسوس کا اظہار کرتے ہیں :
ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانیِ
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا، شکوہِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زورِ حیدری تجھ میں، نہ استغنائے سلمانی
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیبِ حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراجِ مسلمانی
علامہ اقبال اپنی قوم کے نوجوانوں کی بے عملی، بے راہ روی، دین اور اپنی تہذیب و تمدن سے دوری سے سخت پریشانی میں مبتلا تھے۔ لہٰذاوہ اپنی مشہور نظم "جواب شکوہ" میں بھی نوجوانوں کی بے عملی اور بے راہ روی کا تذکرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں :
مثلِ انجم افقِ قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے
شوقِ پرواز میں مہجورِ نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں، دِین سے بدظن بھی ہوئے
ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا
ایسے حالات میں دانائے راز اور حکیم الامت نے اپنی قوم بالخصوص نوجوان نسل کی، اپنی فکر و نظر سے، بھرپور رہنمائی کی اور اپنے افکار کو نوجوان نسل کو بیدار کرنے کے لیے وقف کر دیا۔ انہوں نے نوجوانوں کو بتایا کہ
ترا جوہر ہے نوری، پاک ہے تو
فروغِ دیدۂ افلاک ہے تو
ترے صیدِ زبوں افرشتہ و ُحور
کہ شاہینِ شہِ لولاکۖ ہے تو
لہٰذاہمارے نوجوان، اپنے اس عظیم رہبر اور رہنما کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے، غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ علامہ کی شاعری نے مغربی تہذیب اور غلامی کے زیر اثر غفلت میں ڈوبی ہوئی نوجوان نسل کو بیدار کیا اور منزل کا راستہ دکھایا۔ علامہ نے نوجوانوں کو بتایا کہ غلامی ان کا مقدر نہیں بلکہ ان کی منزل تو ستاروں سے بھی آگے ہے اور وہ تو قوموں کی امامت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ لہٰذا مسلم نوجوان پورے جوش و جذبے سے اٹھ کھڑے ہوئے، اپنا قبلہ درست کر لیا اور قائد اعظم کی قیادت میں آزادی کی سنہری منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
آزادی کی منزل پر پہنچنے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنے اس عظیم رہبر اور رہنما حکیم الامت، دانائے راز ترجمان حقیقت اور مفکر اسلام کی انقلاب آفرین تعلیمات کو حرزِ جاں بناتے مگر افسوس کہ ہم نے جلد ہی ان تعلیمات کو فراموش کر دیا۔ آج پھر ہماری نوجوان نسل کی اکثریت مغربی تہذیب کی دلدادہ اور بے راہ روی کا شکار ہے۔ نوجوان پھر اپنی تہذیب و تمدن کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کی ہر برائی اپنائے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سستی اور کاہلی کا شکار ہو کر حقیقی علم سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ بڑوں کے ادب سے بیگانہ ہو کر بے باکی و گستاخی کا عجیب نمونہ بنتے جا رہے ہیں۔انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ناروا استعمال نے نوجوانوں کو ان کے فرائض سے غافل کر دیا ہے۔ وہ محنت اور جدوجہد سے جی چرانے لگے ہیں اور حرکت و عمل سے بیگانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ مغربی تہذیب کے زیر اثر ہمارے اکثر نوجوان اپنی دینی تعلیمات، قران اور اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی کافی حد تک فراموش کر چکے ہیں۔ جنہیں قوم کے مستقبل کا سہارا بننے کے لیے سخت محنت کرنا تھی اور اپنی ساری توجہ تعلیم پر مرکوز کرنا تھی افسوس وہ انٹرنیٹ کی بھول بھلیوں میں گم ہوتے جا رہے ہیں مگر دانائے راز،حکیم الامت علامہ محمد اقبال ایسے حالات میں بھی مایوسی کا سبق نہیں دیتے بلکہ مایوسی سے بچتے ہوئے اچھے وقت کی امید کا درس دیتے ہیں۔ جس طرح غلامی کے دور میں علامہ کی بے مثل شاعری نے ہماری نوجوان نسل کو غفلت کی نیند سے بیدار کر کے منزل کے راستے پر ڈال دیا تھا بالکل اسی طرح آج بھی علامہ کی شاعری،قوم کے زخموں کا مداوا بن سکتی ہے اور نوجوانوں کو راہ راست پر لا سکتی ہے کیونکہ علامہ آج بھی اپنی نوجوان نسل کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ :
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوںمیں
علامہ اقبال نے اب سے تقریباً ایک صدی قبل اپنے معروف شعری مجموعے "ارمغان حجاز" کی ایک نظم 'ایک بڈھے بلوچ کی نصیحت اپنے بیٹے کو" میں بڈھے بلوچ کے روپ میں قوم کے نوجوانوں کو جو حکمت افروز نصیحتیں کی تھیں وہ آج کے پاکستانی نوجوان کے لیے بھی اتنی ہی ضروری اور اہم ہیں جتنی اس وقت تھیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شاعر مشرق کے ان افکار کو عام کیا جائے، نوجوانوں کو نہ صرف پڑھایا جائے بلکہ انہیں یہ تعلیمات ازبر کروائی جائیں اورانہیں عمل پر ابھارا جائے۔
شاعر مشرق اور ترجمان حقیقت کی مدبرانہ شاعری آج کے پاکستانی نوجوان کے لیے بھی اتنی ہی معنی خیز اور اہمیت کی حامل ہے جتنی کہ علامہ کے زمانے کے مسلم نوجوانوں کے لیے تھی۔ علامہ اقبال کی بے مثل شاعری اور شاندار فکر سے آج بھی وطن عزیز کے نوجوان غیرت حمیت حریت خودداری،خود شکنی، خود نگری، حرکت، حرارت، عمل، جوش، جذبے، ہمت، حوصلہ مندی، شجاعت، جواں مردی، بلند پروازی، تیز نگاہی، ادب، ذوقِ علم، شوق شہادت اپنے دین اور تہذیب پر استقامت، قرآن پر عمل اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے وفا کا سبق لے کر اور اس سبق پر عمل کر کے اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں اور قوم کے روشن ستارے بن کر اپنے وطن کو ہر لحاظ سے خوشحال اور ناقابل تسخیر بنا سکتے ہیں۔
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
تعارف:مضمون نگار ایک معروف ماہر تعلیم ہیں۔ اقبالیات اور پاکستانیات سے متعلق امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے