''بقاء کا بنیادی اصول صرف یہی ہے کہ انسانیت کے لیے اپنے آپ کو مفید اورکارآمد بنایا جائے''۔ (القرآن)
دنیا کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جس ملک میں پہاڑ، میدان، صحرا اورسمندر جیسے بڑے قدرتی وسائل میسر ہوں، وہ خطہ کبھی غربت کی سطح تک نہیں پہنچ سکتا۔قدرتی وسائل سے مالا مال عظیم مملکت پاکستان جسے دنیا "Land of the pure people" کے نام سے بھی جانتی ہے،یہاں کے فلک پوش پہاڑ،زرخیزوسرسبز میدان،تپتے صحرا اورنیلگوںسمندر کے ساتھ وہ محنتی ، جفا کش اور ہنر مند افراد جو مٹی کو سونا اور سونے کو کندن بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،یہی اس ملک کا بڑا اور بیش قیمت اثاثہ ہیں۔ یہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں پر واقع گلیشیئرز، قیمتی جنگلات، جھیلوں، چشموں، آبی گزرگاہوں اور معدنیات کا خزانہ سمیٹے پہاڑ، اناج، فصلوں، سرسبزکھیت و کھلیانوں کے ساتھ زمین سے سونا اگلتے ہوئے میدان، تیل ، گیس اور کوئلہ کے وسیع ذخائر سمیٹے صحرا اور سمندر میں پائی جانے والی آبی حیات اورتجارتی ذرائع جو کہ'' بلیو اکانومی'' کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
دنیا میں ہنر ومہارت کو تاریکی کی شکست اور روشنی کی فتح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ہنر کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ، صدیوں پر محیط دنیا کی مجموعی ترقی میں سب سے زیادہ حصہ ہنر ومہارت کا رہا ہے۔ہنر جہاں انسان کو عزت مرتبہ اور روزگاردیتا ہے وہاں انسان کو غربت سے نکالنے کا موثر ترین ذریعہ بھی ہے۔ یہ طبقاتی تفریق اور عدم مساوات کو ختم کرنے میںبھی مددگار ثابت ہوتا ہے، ہنرمندوں پر اللہ تعالیٰ رزق کی عطا میں کبھی تنگی نہیں کرتا اور نہ ہی ہنرمند کبھی احساس محرومی، مایوسی، بیروزگاری یا مفلسی کا شکار ہوتا ہے۔ اسلام میں ہنرمندوں کو ''الکاسب حبیب اللہ'' کے خطاب سے نوازکربڑی عزت اور مرتبہ دیا گیا ہے۔
مشرقی روایات اور مشترکہ خاندانی نظام میں نوجوانوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے، گھر کی کفالت ، سماجی ذمہ داریوں سے لے کر ملک کی تعمیر وترقی اوراس کی حفاظت بھی انہی نوجوانوں کے سپرد ہے۔ بلند شرح آبادی ،ایک کمانے والا اور( 10)کھانے والے،لامحدودخواہشات ، محدود ذرائع آمدن، تہذیب وسماجی اقدار کی زوال پذیری نے جہاں آج کے نوجوانوں کے لیے بڑے مسائل کھڑے کردیے ہیں وہاں پورے خاندان کو تنگ دستی، سماجی عدم تحفظ اور غذائی قلت کی کمی جیسے بڑے مسائل میں بھی جکڑ رکھا ہے۔ ان درپیش مشکل حالات سے نجات پانے کا واحد راستہ نوجوانوں کو ہنر سیکھنا ہوگا لیکن اس سے پہلے والدین کو اس زمینی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی روایتی سوچ میں وسعت اور تبدیلی بھی لانا ہوگی کہ ہر بچہ ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر یا افسر نہیں بن سکتا بلکہ والدین انہیں فنی تعلیم اور ہنرمندی سکھا کر اپنا روزگار کمانے کے قابل بنا کر یہ بڑا فریضہ نبھاتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت بھی سنوارسکتے ہیں۔
معاشرے میں ایک کامیاب اور اچھا انسان بننے کیلئے تعلیم بے حد ضروری ہے ۔ تعلیم کا بنیادی تعلق فرد کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تبدیلی سے بھی جڑا ہوتا ہے ،یہاں تعلیمی اداروںسے کسی بھی وجہ سے ڈراپ ہونے والے بچوں اور بچیوں پر توجہ دے کر انہیں باہنر بنانا کہیں زیادہ ضروری ہے اور ان بچوں کو اپنی میلان طبع اور پوٹینشل کے اعتبار سے مختلف ٹریڈز میں فنی تعلیم و ٹریننگ لینے کی ضرورت ہے۔ بغوردیکھا جائے تو یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ آج ہمارے ملک میں تعلیم کا مقصد محض ڈگری اور ملازمت کا حصول رہ گیا ہے، اس غیر فطری رحجان نے جہاں ملکی ضروریات(مارکیٹ ڈیمانڈ) کو بری طرح متاثر کرتے ہوئے انسانی ترقی کا راستہ محدود کردیا ہے وہاں بیروزگاری میں حد درجہ اضافہ کے ساتھ فنی تعلیم کی اہمیت پر بھی ایک کاری ضرب لگائی ہے۔
گذشتہ چند دہائیوں میں خلیجی ممالک کی غیر معمولی تعمیر وترقی کے پیچھے ہنرمندی اور مہارت کا کمال ہے۔ پانچ دہائی قبل ناخواندہ اور کم تعلیم یافتہ پاکستانیوں نے اپنے ہنر کے ساتھ بیرونی ممالک کی طرف ہجرت کی جس سے خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا اوراس کی بدولت ہزاروں خاندانوں نے معاشی استحکام حاصل کرتے ہوئے ملک کی معاشی ترقی کی مضبوط بنیاد رکھی اور یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ کم تعلیم یافتہ نوجوانوں نے ہنر سیکھنے کا بہترین اور برمحل فیصلہ کیا جس کے بہترین اور دیرپا اثرات سامنے آئے اور بیرون ممالک سے وہ قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل ہوا کہ جس نے فرد اور ملک کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یوں آج بھی وسیع تر گنجائش کے ساتھ لاتعداد شعبہ جات میں پاکستانی کاریگروں اور ہنرمندوں کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔
ملکی ترقی اورافواج پاکستان کے لیے دفاعی سازوسامان بنانے کے لیے ہنرمندوں کا کردار ناقابل فراموش اور بلند تر ہے۔ پاک فوج نے اپنے ہنرمندوں کی بدولت ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنارکھا ہے۔افواج پاکستان اپنے ہنرمندوں کو بہت عزت وتکریم دیتی ہے اور ہنرمندی کے پھیلاؤ کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل ہے اور نوجوانوں پرزوردیتی ہے کہ وہ ملکی تعمیر وترقی ، قومی مفاد اور اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے ٹیکنیکل اورووکیشنل تربیت حاصل کریں۔ اس اعتبار سے پاک فوج روایتی تعلیم کے ساتھ فنی تعلیم وتربیت کے لیے ہمیشہ صف اول میں رہی ہے۔ ڈگری پروگرامز، ڈپلومہ و شارٹ کورسز اور ووکیشنل ٹریننگ کے لحاظ سے فوج کے زیر انتظام نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی (NUTECH) اسلام آباد کا شمار ملک کے اعلیٰ پایہ کے پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے، جہاں IT،سکل ڈویلپمنٹ ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، گرافکس ڈیزائننگ، ہوٹل مینجمنٹ، کمپیوٹر گرافکس جبکہ بچیاں اور گھریلوخواتین ڈریس میکنگ، گھریلو دستکاری کے ساتھ دیگر کورسز سیکھ کر باعزت طور پر اپنے ہنر کو کام میں لاکر معاشی خود کفالت اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالسکتی ہیں جس کی بڑی مثال بنگلہ دیشی خواتین ہیںجنہوں نے گارمنٹس سیکٹر اور سمال کاٹیج انڈسٹری کی بدولت اپنے ملک کی تقدیر بدل دی ہے۔
گذشتہ دنوںنیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی(NUTECH) اسلام آباد میں یونیورسٹی کے ریکٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) معظم اعجاز نے ٹیکنیکل ایجوکیشن اور شارٹ کورسز کا دائرہ کارآزادکشمیر کے جنوبی اضلاع تک بڑھانے کے لیے لیفٹیننٹ جنرل (ر) شیرافگن کی تعلیمی میدان میں خصوصی دِلچسپی کے پیش نظر ایک بریفنگ کا اہتمام کررکھا تھا، اور بعدازاں (NUTECH )کی طرف سے APSکلری میں طلباء و طالبات کے لیے ایک معلوماتی سیمینار کا اہتمام کرنے کے بعد اب حتمی طور پر رواں ماہ آرمی پبلک سکول وکالج کلری(اکبرآباد) ضلع بھمبر میں آن لائن مختلف کورسز کا آغاز کیا جارہا ہے، یوں گھر کی دہلیز پر اللہ تعالیٰ نے پیشہ وارانہ تربیت حاصل کرنے کا ایک نادر موقع فراہم کیا ہے۔یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ میرپور ڈویژن میں تین آرمی پبلک سکولز کے علاوہ میرپور میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز(NUML)کیمپس کا قیام جنرل (ر)شیرافگن کی علم دوستی کی ایک واضح مثال ہے۔
دنیا میں بسنے والے اربوں انسان دو طرح سے منقسم ہیں، مہذب اور غیر مہذب۔ دنیا کا حسن تنوع (Diversity)میں ہے۔ ہم جس خطے میں رہتے ہیں یہ دنیا کی قدیم اور ترقی یافتہ تہذیب کہلاتی ہے، اس اعتبار سے یہاں کی شاندار سماجی اقداروروایات جتنی زیادہ مضبوط اور مؤثر ہوں گی معاشرہ اس قدربااخلاق، پرامن، وسیع النظر، روادار اور مثالی ہوگا۔ اگرچہ ملک میں غربت کا خاتمہ اور خوشحال زندگی گزارنے کا تصور ہر پاکستانی کے دِل میںموجود ہے لیکن انفرادی سطح پر غربت سے نکلنے کے لیے ہنر، محنت اور شعوری جدوجہد سے بڑھ کر مہذب ہونا بھی ضروری ہے لیکن ایک مہذب انسان بننے کے لیے پہلے ہمیں اپنا عقیدہ ، نظریہ ، تاریخ اور اقدار وروایات کاصحیح ادراک ہونا چاہیے۔ بے ہنر، مفلس اور اخلاقی گراوٹ کا شکار معاشرہ خوشحالی کو نگل لیتا ہے، وہ ہاتھ جو محنت کرتے ہیں جو تخلیق کرتے ہیں وہی ملک و قوم کے روشن مقدر کا تعین بھی کرتے ہیں۔ پائیدار سماجی واقتصادی ترقی کا دارومدار درست منصوبہ بندی پر مبنی ہے۔ ہمارے پاس اکثریتی نوجوانوں پر مشتمل بہترین افرادی قوت ، زرخیز ذہن ،مواقع اور ہر طرح کے قدرتی وسائل کی بہتات ہے۔ لہٰذا وقت ، وسائل اور صلاحیت کو صحیح استعمال میں لا کر ہم غربت سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔
قدرت نے جہاں ہمیں بے شمار نعمتوں ، فیاضیوں اور قدرتی وسائل سے نوازرکھا ہے وہاں ارض پاک دنیا کا شاید وہ واحد خوش نصیب خطہ ہے کہ جہاں ملک کی کل آبادی کا تقریباً60فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل جبکہ مرد اور خواتین کا مجموعی آبادی میں تقریباً نصف تناسب ہے۔دنیا میں انسانی سرمایہ کاری کو بہترین سرمایہ کاری تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے نوجوانوں کو فنی تعلیم اور ہنر مندی کے شعبوں میں تربیت دے کر سب سے بڑی انسانی سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج نوجوانوں کے پاس اخبار پڑھنے کا وقت نہیں، کتابیں بوجھل لگتی ہیں، لائبریریوں سے کوئی دِلچسپی نہیں،ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا ہے، البتہ سوشل میڈیا پر کچھ نظرآجائے تو اسی پر یقین کر کے پورا بیانیہ ترتیب دے کر اسے بلا تاخیر آگے پھیلا دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ ملک بھر میں مسلح افواج کے زیر انتظام تعلیمی ادارے معیاری تعلیم وپیشہ وارانہ تربیت کے لحاظ سے بہترین خدمات سرانجام دے رہے ہیں، وہاں سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بھی معیاری تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں جبکہ دوسری طرف کیا وجہ ہے کہ ہم لوگ فارغ بیٹھے ہوں تو پہلا خیال یہی آتا ہے کہ کیوں نہ کوئی ڈگری ہی لے لی جائے، یعنی ڈگری کا حصول آسان اورڈگری کے مساوی قابلیت کا بہت زیادہ فقدان پایا جاتا ہے جبکہ ڈھنگ کا کوئی ایک کام بھی نہیں آتا۔ جب پالنے کو بہت سے پیٹ ہوں اور وسائل محدودہوں توہنرمندی اور مواقع تک یکساں رسائی ہونے کی صورت میں اپنے بچوں اور بچیوں کو اس عملی زندگی کی طرف لائیے، جہاں انہوں نے صحیح معنوں میںکچھ سیکھنا ہے۔ آج دنیا ہنر کو ترجیح دے رہی ہے، ورنہ تویہ دنیاایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جو ہنر مند کم اور ضرورت مند زیادہ ہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ صدقہ وخیرات کرنے والا ہمارا ملک جہاں کم وبیش (10)کروڑافراد خط غر بت سے نیچے زندگی گزارنے اور(2) کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہنرمندی کو فروغ دے کر غربت کے چنگل سے نجات دلائی جائے۔آئیے ہم اپنے اردگرد یہ جائزہ لیں کہ ہمارے کتنے بچے تعلیمی اداروں سے باہر، ناخواندہ یا غیر ہنرمند ہیں تاکہ انہیں فنی تربیت دے کر ملک کے لیے مفید اور کارآمد شہری بنایا جاسکے۔انگریزی کا ایک محاورہ ہے (A Stitch in time saves nine) جس کا مفہوم ہے کہ وقت پر بگڑا کام سنوارنا ہمیںمشکلات سے بچاتاہے،یعنی جب وقت ہوتو محنت سے کچھ سیکھ لینا ہی ہمارا مستقبل بچاتا ہے۔یوں ثابت ہوا کہ تعلیم کے ساتھ ہنر و مہارت ہی وہ کنجی ہے جس کے ذریعے ان قدرتی وسائل کو تصرف میں لا کر اسے انسانی سرمایہ کاری میں بدلا جاسکتا ہے، مقصدیت، وزن اور انفرادیت کے لحاظ سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہمیںاپنی قوت بازواور متاع پربھروسہ کرنا ہوگاتا کہ ہم ایک زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا کے اندردوبارہ اپنی شناخت کا لوہا منواسکیں۔
تعارف:مضمون نگار مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں۔
تبصرے