بلوچستان میں یہ میرا مہینے بعد ہی دوسرا وزٹ تھا جو جعفر ایکسپریس ٹرین حملے کے بعد ہنگامی طور پر جائے وقوعہ کا دورہ کرنے کے لیے کیا۔ اس سے قبل جنوری میں گلستان میں قلعہ عبداللہ چوکی پر دہشت گردوں کے حملے کے اگلے ہی روز جائے وقوعہ پر جانے کا موقع ملا۔ دہشت گردی کے واقعے کے بعد جائے وقوعہ پر جانا جہاں دہشتگردوں کی باقیات بھی موجود ہوں بطور رپورٹر ایک الگ تجربہ ہے۔
ایسا مقام جہاں دو روز قبل دہشت گرد موجود تھے وہاں جانے کی ہامیبھرنا میرے لیے آسان نہیں تھا لیکن اس بھروسے چل پڑی کہ جو (پاک آرمی)ساتھ جا رہے ہیں وہ میری حفاظت اپنی جان پر کھیل کر بھی کریں گے باقی اللہ مالک ہے۔
سبی پہنچنے کے بعد وہاں سے ٹرالہ نما ٹرین جس میں گاڑیوں کی ترسیل کی جاتی ہے اس کے ذریعے ہم بیس منٹ میں درہ بولان کے ٹنل نمبر آٹھ کے پاس پہنچے۔ اس علاقے کے بہت سے نام ہیں ،عمومی طور پر درہ بولان کے نام سے یہ علاقہ جانا جاتا ہے جبکہ یہ بلوچستان کا ضلع کچھی ہے۔
مشکاف کے قریب پہاڑوں کے بیچوں بیچ حملے کا شکار ہونے والی جعفر ایکسپریس ٹرین کھڑی تھی ۔ جس کے نیچے جوتے،برینڈڈ ٹوپیاں اور پانی کی بوتلیں تھیں جن پر کیمو فلاج کور چڑھے ہوئے تھے۔ علاقے میں پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد پانی کا ذخیرہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ مارے گئے حملہ آوروں کی لاشیں جو ٹرین کی نیچے تھیں لیکن اب وہ وہاں موجود نہیں تھیں بلکہ جما ہوا خون موجود تھا۔ ٹرین کے بعض حصوں کے قریب سے گزرتے ہوئے انتہائی ناگوار بو بھی آئی جو شاید لاشوں کے وہاں 24 گھنٹے سے زائد پڑے رہنے کی وجہ سے تھی۔ کیونکہ سبی کے قریب ہونے کی وجہ سے وہاں کا درجہ حرارت بھی زیادہ تھا اور گرمی بھی ناقابل برداشت تھی اس لیے لاشیں یقینا جلدی خراب ہوئی ہوں گی جو بدبو کی وجہ بنیں۔ ٹرین کے اندر بھی جما ہوا خون موجود تھا اور باقی مسافروں کاسامان بکھرا ہوا تھا اور نشستوں سے نیچے گرا ہوا تھا جو یہ داستان سنارہا تھا کہ ٹرین کو کیسے لوٹا گیا اور مسافروں پہ کیا بیتی۔۔۔۔۔
ٹرین کے مقام پر سکوت بالکل طوفان کے بعد والاسکوت تھا جیسے ایک بہت بڑا طوفان آ کر گزر گیا اور اب اس کی تباہ کاریوں کے نشانات وہاں موجود ہوں ۔میں نے وہاں موجود سکیورٹی حکام سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ایس ایس جی (ضرار کمپنی )کے سنائپرز نے کچھ دہشتگردوں کو تب نشانہ بنایا تھا جب وہ ٹرین کے نیچے سے فائرنگ کر رہے تھے۔ کچھ دہشت گردوں نے ٹرین کے نیچے پناہ لی اور وہاں سے پاک فوج پر فائرنگ کی جبکہ کچھ ٹرین کی بائیں جانب پہاڑوں پر موجود تھے جن کا نشانہ ٹنل نمبر آٹھ سے باہر نکلنے والے سبی سکائوٹسکے دستے تھے۔ سبی سکائوٹسکے افسر نے بتایا کہ ٹنل سے باہر نکلنے پرہم دہشت گردوں کے نشانے پر تھے۔اس لیے سامنے والے مشکاف نالے سے ایک پارٹی کو آگے بھیجا گیا جس نے بالکل آمنے سامنے دہشت گردوں پرفائرنگ کی۔ نالے سے آنے والے دستے دہشت گردوں کے وہم و گمان میں نہیں تھے ،یہ ان کے لیے سرپرائز تھا۔ لیکن دہشت گردوں کی پوزیشن پہاڑ پر اوپر ہونے کی وجہ سے ایئرفورس کو بھی آپریشن میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ پہاڑوں پر اوپر سے اُن پرحملہ کیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق ایئرفورس کے میراج طیاروں نے اس آپریشن میں منگل کی رات کو حصہ لیا۔ جس کے بعد دہشت گرد پہاڑوں پر بھاگنا شروع ہو گئے۔ کافی بڑی تعداد میں بھاگتے ہوئے دہشت گردوں کونشانہ بنایا گیا ۔
چونکہ سبی سکائوٹس اور غزہ بند سکائوٹسکے درمیان یہ واقعہ ہوا تو دونوں اطراف کی نفری یہاں موجود تھی ۔دن ایک بجے واقعہ ہوا اور دس منٹ میں سبی سکائوٹسکے دستے نکل چکے تھے۔ سبی سکائوٹس سے جائے وقوعہ کا فاصلہ پانچ کلو میٹر ہے اس لیے پہلا ردعمل اس طرف سے دیاگیا اور بعد ازاں مچھ سے غزہ بند سکائوٹس کے دستے بھی آپریشن کے لیے دوسری طرف سے آ گئے جس کی وجہ سے علاقے کو گھیرے میں لینے میں آسانی ہوئی۔ تقریبا ً36گھنٹوں میں آپریشن مکمل ہو چکا تھا۔ دہشت گردوں سے آٹھ مقناطیسی بارودی مواد کی ڈیوائسز بھی برآمد کی گئیں۔ کیونکہ ان کا پلان یہ تھا کہ اگر مطالبات پورے نہ کیے گئے تو پوری ٹرین کو دھماکے سے اڑا دیں گے ۔اس کے علاوہ دہشت گردوں سے سیٹلائٹ فون بھی ملا ہے جس میں جو رابطہ نمبرز تھے وہ سب افغانستان کے تھے اور وہاں سے ہدایات دی جارہی تھیں۔
یہاں کاقریب ترین گائوںبھی پہاڑوں کی دوسری طرف 50 کلومیٹر دور ہے۔ جبکہ قومی شاہرہ این65 ریل کے ٹریک سے تقریبا ً20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ دشوار علاقہ ہونے کی وجہ سے سکیورٹی اداروں کے لیے یقینا ایک چیلنج ہے جبکہ شدت پسند عناصر کے لیے یہ آئیڈیل مقام ہے جس کے تحت وہ کارروائیاں کر کے پہاڑوں میں موجود غاروں میں غائب ہو جاتے ہیں۔مٹی رنگ کے خشک پہاڑوں میں اسی رنگ کی غاریں ہیں جو بالکل کیموفلاج ہیں۔ جبکہ اس علاقے میں پانی بھی نہیں ہے، صرف ایک نالہ ہے جس میں بہت کم پانی ہے جو حالیہ برف باری اور بارشوں سے جاری ہوا۔ پاک فوج کے جوان دہشت گردوں سے 36گھنٹوں کی لڑائی میں اسی نالے سے پانی پیتے رہے ہیں۔
مسافروں کو بھاگنے کاموقع تب میسر آیاجب سبی سکائوٹس نے فورا ًہی حملہ آوروں کو آگے کی طرف سے مصروف کر دیا اور ٹرین کے مسافر جنہیں باہر مختلف ٹولیوں کی صورت میں بٹھایا گیا تھا انہیں فرار ہونے کا موقع ملا، وہ مچھ کی جانب جس طرف سے ٹرین آئی تھی ادھر ہی واپس بھاگ نکلے۔ چونکہ حملہ آوروں کا دھیان آگے تھا تو مسافروں کو وہاں سے نکلنے میں آسانی ہوئی اورآگے سے مچھ سکائوٹس نے ریلیف ٹرین چلاکر ان کو بحفاظت مچھ ریلوے سٹیشن تک پہنچایا جبکہ کچھ لوگ پیدل بھی آدھے راستے تک گئے۔
اس علاقے میں پہاڑوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو ایک دوسرے سے متصل ہے ۔یہ دشوار گزار علاقہ ہے اور قریب کوئی آبادی نہیں ہے۔ ٹرین کے بائیں جانب موجود پہاڑی سلسلہ ٹوبہ کاکڑ کے پہاڑ ہیں جو کوہ سلیمان کا ہی حصہ ہیں۔ جس مقام سے دہشت گرد پہاڑوں میں فرار ہوئے یہ پہاڑی سلسلہ افغانستان کی سرحد کے پاس جا کر ختم ہوتا ہے جہاں صوبہ قندھار اور زیبل ہے۔
سوشل میڈیا پر شور مچا ہوا تھا کہ بلوچ لبریشن آرمی کے دہشت گرد اپنے ساتھ 214 فوجی یرغمالیوں کو ساتھ لے گئے ہیں ۔میں اس جگہ کی عینی شاہد ہونے کے ناتے اس بات پر حیرانی میں گرفتار ہوں کہ جس جگہ پر دہشت گردوں کے خود کے بھاگنے کے لیے موقع کم تھا ،وہ اپنے ساتھ 214 افراد کو کیسے گھسیٹ سکتے تھے؟ پہاڑوں پر چڑھنا بھاگنا آسان نہیں کجا کہ کسی اور کا بوجھ اٹھانے کا مطلب اپنے لیے موت کی دعوت ہے۔
سوشل میڈیا پر اب بیانیے کی جنگ ہے ۔جعفر ایکسپریس حملے میں انڈین اکائونٹس بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے اور آزاد بلوچستان کا نعرہ لگارہے تھے جبکہ بلوچ لبریشن آرمی کے حمایتی اکائونٹس بھی اپنے بیانیے کا پرچار کرنے میں مصروف تھے ۔بھارتی میڈیا جعلی ویڈیوز دکھا کر پروپیگنڈا کرتا رہا۔ان جعلی ویڈیوز سے پاکستان کے خلاف بیانیہ بنانے اور پاکستان کا تشخص خراب کرنے کی پوری سازش کی گئی لیکن جائے وقوعہ اس سے الٹ کہانی سنا رہا تھا۔
1825 میں یہ ٹریک انگریزوں کے دور میں بنا تھا۔ جس کے بعد رواں کچھ برسوں میں وقتا ًفوقتا ًمختلف مقامات پر دہشت گردوں نے اسکو نقصان پہنچانے کی کوششیں کیں۔اس واقعے کے دوران398 فٹ کا ٹریک دھماکے سے متاثر ہوا ہے۔ پوری ٹرین کو یرغمال بنانا اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ تھاجو انتہائی دشوار گزار علاقے میں پیش آیا لیکن اسکے باوجود ہماری بہادر سپاہ افواج پاکستان، ایف سی بلوچستان اور لاء انفورسمنٹ ایجنسیز نے جس طریقے سے یہ کامیاب آپریشن مکمل کیا اور تمام یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کرایا، یقینا قابلِ تحسین عمل ہے۔
تعارف: مضمون نگار ایک معروف صحافتی ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں۔
تبصرے