23مارچ ،یوم پاکستان ،پاکستان کے حصول میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ہمارے آبا ئو اجداد کی جدو جہد ،عزم و ہمت اور ولولہ انگیز قیادت نے 7سال کے قلیل عرصے میں اُس خواب کو حقیقت کے روپ میں بدل دیا جس کی مثال تاریخ میں کہیں اور نہیں ملتی۔23مارچ کا دن ہمارے اسلاف کی ان قربانیوں کی عکاسی کرتا ہے جن کے غیر متزلزل عزم اور قربانیوں کے نتیجے میں ہمیں آزادی جیسی دولت نصیب ہوئی۔
پاکستان ایک عظیم نعمت خداوندی کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا اور مسلمانانِ پاک و ہند دیوانہ وار ''پاکستان کا مطلب کیا لا اِلہٰ اِلا اللہ'' کی صدائیں بلند کرتے ہوئے ہزاروں میل کی مسافتیں طے کرتے ہوئے لُٹے پُٹے قافلوں کی صورت میں اپنے دیس پاکستان پہنچے۔قیام پاکستان کی تاریخ پہ بہت کچھ لکھا جا چکااور بہت کچھ پڑھا جاچکا۔جہاں اک نئی مملکت ِ خداداد نے ترقی کی منازل تیزی سے طے کیں وہیں اس کو درپیش چیلنجز میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔ہمارے پیارے وطن کو درپیش ان تمام چیلنجز کو سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ بغیر ان خطرات کو سمجھے ہمیں ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریاں سمجھنا بہت مشکل ہوگا۔
ملک کو درپیش بڑے مسائل اور خطرات میں مشرقی اور مغربی سرحدوں پر منڈ لاتے دائمی خطرات،ففتھ جنریشن وارفیئر، فتنہ الخوارج اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیاں، شدت پسندی اور عدم برداشت کی فضائ، نوجوانوں میں نفرت اور مایوسی،اقتصادی دبائو اور فیک نیوز کے زہریلے اثرات قابلِ ذکر چیلنجز ہیں۔ ان خطرات کے علاوہ بدلتے موسمی حالات،تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی،تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے رجحانات اور مسلسل اخلاقی قدروں کی تنزلی ان مسائل میں شامل ہیں جنہیں فوراً سے پہلے حل کرنا بے حد ضروری ہے۔
ہماری نوجوان نسل کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک منفی سوچ سے بار بار مایوسی اور نا اُمیدی کا درس دیا جارہاہے کہ پاکستان نے ہمیں دیا ہی کیا ہے؟ ذرا نظر دوڑائیں ہمارا پیارا وطن دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جہاں قدرتی وسائل کی بھر مار ہے۔چار موسم،خوبصورت وادیاں،اونچے پہاڑ، سرسبز لہلہاتے میدان،بل کھاتے دریا،گہرا سمندر، دور تک پھیلے ریگستان،پہاڑوں میں چھپے خزانے،الغرض کون سی ایسی نعمت ہے جو ہمیں میسر نہیں؟۔
قدرت کی ان گنت نعمتوں پہ شکر ادا کرنے کے بجائے ہم اگر مایوس ہوکر یہ سوچیں کہ ہمیں ہمارے ملک نے دیا ہی کیا ہے تو یہ کفرانِ نعمت ہے۔پاکستان نے ہمیں آزاد فضا میں ترقی کے یکساں مواقع دیے ہیں۔ہمارا تعلیمی نظام اور جدید طرزِ تعلیم، تحقیق کے لیے سازگار ماحول اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس تعلیمی ادارے ہمارے نوجوانوں کو ہر وہ سہولت فراہم کرتے ہیں جن کا دوسرے ترقی پذیر ممالک سوچ بھی نہیں سکتے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر سطح پر سوچیںکہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے؟ہم ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنا کیا کردار انجام دے رہے ہیں؟کیا ہم اپنی افواج کے ہاتھ مضبوط کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جو دن رات ہمیں سرحدوں پہ درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے پورے جوش و جذبے اور جذبہ شوق شہادت سے اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہی ہیں؟کیا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہم اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار ادا کرنے کے لیے برسر پیکا رہیں۔کیا شدت پسندی اور عدم برداشت کی فضا ختم کرنے کے لیے ہم نے اپنے تئیں کوششیں کی ہیں؟ جواب یقیناً منفی ہے کیونکہ ہم نے اپنی ذمہ داریاں مسلسل دوسروں کے کندھوں پہ ڈال رکھی ہیں۔ہم سب اس ذہنی کیفیت کا شکار ہیں کہ جس میں ہمیں یہ لگتا ہے کہ اگر ایک برے کام کو ہونے سے ہم نے نہ روکا تو ہماری جگہ یہ اہم فریضہ کوئی اور ادا کردے گا۔
یاد رکھیے پاکستان کی ترقی کی راہ پہ درپیش مسائل سے نکلنے کا واحد حل ہم سب کا متحد ہوکر اپنے حصے کا کردار ادا کرنے میں ہے۔انفرادی قوت ہی اجتماعی قوت کی عکاسی کرتی ہے اور اسی بات کا اشارہ اقبال اپنے اس شعر میں بارہا دہراتے نظر آتے ہیں۔
فرد قائم رابط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
قائد کے سنہری اقوال اور ''اتحاد ایمان تنظیم ''کادرس آج بھی ہم سب کے لیے مشعل ِراہ ہے۔''کام ،کام اور صرف کام'' کی روشن عبارت آج بھی ہماری راہ دیکھتی ہے۔ہمیں ایک نئے آغاز کی ضرورت ہے۔منزل کی جانب سمت کا تعین ہوچکا ،زادِ راہ کی کوئی قلت نہیں ،وسائل کی کوئی کمی نہیں۔بس خود پہ اعتماد رکھنا ہے ،اپنی صلاحیتوں پہ بھروسہ کرنا ہے اور نا امید ی کو چھوڑ کر اللہ کریم پہ توکل کرنا ہے۔مایوسی کے بادل خود ہی چھٹ جائیں گے۔عدم برداشت خود بخود باہمی اخوت اور یگانگت میں بدل جائے گی اور ہم ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پاکستان کو ترقی کی ان منازل تک لے جائیں گے کہ اقوام ِ عالم دنگ رہ جائیں گی۔
ففتھ جنریشن وار ،فتنہ الخوارج اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ہمیں اپنی آنکھوں کو کھولنا ہوگا۔اردگرد وقوع پذیرہونے والی ہر صورتحال پہ نظر رکھنا ہوگی۔اپنے گلی ، محلے،سکول، کالج اور یونیورسٹیز میں لوگوں کی آگاہی کے لیے مہمات چلانا ہوں گی۔تاکہ یہ عناصر ہمارے درمیان رہ کر ہمیں نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ جیسے ہی ہمیں کسی مشکوک کارروائی کا علم ہو ہم ایک منظم اور متحد ٹیم کی مانند اس کو نہ صرف بروقت رپورٹ کر سکیں بلکہ ایسے عناصر پر کڑی نظر رکھیں کہ یہ اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
فیک نیوز کے سدِ باب کے لیے ہمیں نہ صرف فتنہ اور شر پھیلانے والے سوشل میڈیا صارفین کے ہر وار کو سمجھنا ہوگا بلکہ متعلقہ اداروں کی مدد بھی کرنا ہوگی۔اپنی انفرادی حیثیت میں ہمیں نہ صرف ہر مایوس اور گمراہ کن خبر کو رپورٹ کرنا ہوگا بلکہ اس سوچی سمجھی سازش کے خلاف ایک آہنی اور سیسہ پلائی دیوار کی مانند سینہ سپر کھڑابھی ہونا ہوگاتاکہ مایوسی اور ناامیدی کو اپنی صفوں میں پھیلنے سے روکا جاسکے۔
یاد رکھیے اگر یہ سفر آسان نہیں تو ناممکن بھی نہیں ہے۔ جستجو،لگن،یقین محکم اور مسلسل کاوشوں کے ذریعے روشن مستقبل کی راہیں کھلیں گی۔پاکستان کی اصل طاقت عوام ہیں ۔ ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں اپنے ملک کی ازسر نو تعمیر و ترقی پہ وقف کرنا ہوں گی۔اختلافات سے بالاتر ، خوشحال مضبوط،مستحکم اور پُر امن پاکستان کے لیے مایوسی،منفی سوچ، عدم برداشت اور انتہا پسندی جیسی مہلک بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔اپنی سوچ کو حب الوطنی کی اس معراج پہ گامزن کرنا ہوگا کہ جہاں ہر لمحہ ہمارے دل و دماغ میں ایک ہی سوال ابھرتا دکھائی دے کہ ''ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟''
اِسی سوال میں ترقی کا وہ راز پوشیدہ ہے جو آج 85ویں یوم پاکستان پر وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔آج کے دن ہمیں قائد کے اقوال کی روشنی میں اپنے انفرادی اور اجتماعی کردار کو نکھارنے کی ضرورت ہے جس کا اظہار اکتوبر 1947میں قائداعظم محمد علی جناح نے ان الفاظ میں کیا تھا۔
''ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے ،اتنی ہی زیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم بن کر ابھریں گے''۔
زبان ،رنگ و نسل،قبیلے،سوچ،صوبے اور مذہب کی ہر تفریق سے بالا تر اس ملک ِ عزیز میں بسنے والے ہم سب لوگوں کا آپس میں ایک مضبوط رشتہ ہے جو ہمیں ایک تسبیح کے دانوں کی طرح خوبصورتی اور پاکیزگی سے جوڑے ہوئے ہے۔ہمیں اس رشتے کی قدر کرنا ہوگی۔آپس میں بھائی چارے اور افہام و تفہیم کی فضا پیدا کر کے دلوں کو جوڑنا ہوگا۔یہی اس 85ویں یوم پاکستان کا پیغام بھی ہے اور ہر مشکل اور تکلیف سے نکلنے کا واحد حل بھی۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمارا پیارا دیس ہمیشہ شادو آباد رہے اور ہم سب مل کر یکجان ہوکر اس کی ترقی میں اپنا کردار خلوص نیت اور ایمانداری کے جذبوں سے سرشار ہوکر انجام دیں تاکہ جب اگلے یوم پاکستان پہ ہم خود سے یہ سوال دوبارہ کریں کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے؟ تو ہمارا سینہ فخر سے چوڑا ہو اور ہم سراٹھا کر یہ کہنے کے قابل ہوں۔
زبان، رنگ و نسل، قوم کے سوالوں پر
میرا جواب ہر اک بار صرف ''پاکستان''
تبصرے