بنگلہ دیش میں بھارت نواز حکومت کا زوال اور شیخ حسینہ واجد کا اقتدار سے علیحدہ ہونا جنوبی ایشیا میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران حسینہ واجد کی حکومت نے بھارت کو بنگلہ دیش کی داخلی و خارجی پالیسیوں پر حد سے زیادہ اثر و رسوخ فراہم کیا، جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی خودمختاری اور آزادانہ فیصلے خطرے میں پڑ گئے۔ اس دوران پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات بھی مسلسل سرد مہری کا شکار رہے۔ تاہم، اب جبکہ ایک نئی سیاسی حقیقت سامنے آ رہی ہے، پاکستان کے پاس ایک سنہری موقع ہے کہ وہ سفارتی، تجارتی، دفاعی اور سیکیورٹی تعاون کے ذریعے بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تعلقات کو ازسرِ نو ترتیب دے اور خطے میں ایک نیا جیو پولیٹیکل توازن قائم کرے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کی تاریخ پیچیدہ اور اتار چڑھائو کا شکار رہی ہے۔ 1971 کے سانحے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم تو ہوئے، مگر حقیقی گرم جوشی اختیار نہ کر سکے۔ 1974 میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا، لیکن اس کے بعد بھی بھارت کی مسلسل مداخلت کے باعث تعلقات میں کشیدگی برقرار رہی۔ شیخ حسینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد بنگلہ دیش میں پاکستان مخالف بیانیے کو ریاستی سطح پر فروغ دیا گیا، جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو پاکستان سے تعلق کے الزام میں پھانسیاں دی گئیں، اور بھارت کو تجارتی، دفاعی اور سیاسی طور پر بے پناہ مراعات دی گئیں۔ نتیجتا، بنگلہ دیش بھارت کا ایک اسٹریٹجک اتحادی بن کر ابھرا اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات مزید خراب ہو گئے۔
شیخ حسینہ واجد کے 15 سالہ دورِ حکومت میں بنگلہ دیش میں بھارت نواز پالیسیوں کو فروغ اور پاکستان مخالف بیانیے کو تقویت دی گئی۔ 2010 میں حسینہ واجد کی حکومت نے ایک متنازع "وار کرائمز ٹربیونل" قائم کیا، جس کے تحت ان تمام افراد کو نشانہ بنایا گیا جو 1971 میں متحدہ پاکستان کے حامی تھے۔ اس ٹربیونل کے ذریعے جماعت اسلامی کے کئی سینئر رہنمائوں، بشمول عبدالقادر ملا، مطیع الرحمن نظامی، علی احسن مجاہد، اور صلاح الدین قادر چودھری کو پھانسی دی گئی۔ ان رہنماں پر پاکستان سے تعلق اور جنگی جرائم کے الزامات لگائے گئے، حالانکہ ان مقدمات کو عالمی سطح پر غیر منصفانہ اور جانبدار قرار دیا گیا۔ ان پھانسیوں کا مقصد بنگلہ دیش سے پاکستان نواز سوچ کو مکمل طور پر ختم کرنا تھا، اور بھارت نے ان عدالتی کارروائیوں میں بھرپور مداخلت کی۔
اپوزیشن جماعتوں، خاص طور پر بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) اور جماعت اسلامی پر سخت دبا ڈالا گیا۔ اپوزیشن رہنمائوں کو جیل میں ڈالا گیا، ان کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگائی گئیں اور میڈیا پر کریک ڈائون کیا گیا تاکہ کسی بھی پاکستان نواز آواز کو دبایا جا سکے۔ مساجد اور دینی مدارس کو بھی سخت حکومتی کنٹرول میں رکھا گیا تاکہ مذہبی حلقوں کو سیاست سے دور رکھا جائے۔ اس دوران طلبہ تنظیموں اور صحافیوں پر بھی سختی کی گئی، تاکہ 1971 کے واقعات کے حوالے سے کسی بھی متبادل بیانیے کو سامنے آنے سے روکا جا سکے۔
حسینہ واجد نے اپنے دور میں پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جہاں ایک جانب پاکستان جانب جھکاو والے بیانیہ کو دبایا گیا ،وہیں پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینے کے لیے 1971 کی جنگ کی متنازعہ کہانیوں کو سرکاری سطح پر فروغ دیتے ہوئے بیانیہ سازی کی گئی۔ 2016میں پاکستانی ہائی کمیشن کے متعدد سفارتکاروں کو جھوٹے الزامات لگا کر ملک بدر کیا گیا، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات مزید خراب کیے جا سکیں۔پاکستانی مصنوعات پر غیر اعلانیہ پابندیاں لگائی گئیں اور عوام میں پاکستان مخالف بیانیے کو پروان چڑھایا گیا۔ اس کے برعکس، بھارت کے ساتھ تعلقات کو غیر معمولی حد تک مضبوط کیا گیا، جس میں بھارت کو بنگلہ دیش کے دفاع، معیشت، سفارت کاری اور انٹیلی جنس کے معاملات میں حد سے زیادہ اثر و رسوخ دیا گیا۔ 2017 میں بنگلہ دیش نے بھارت کے ساتھ 500 ملین ڈالر کا دفاعی معاہدہ کیا، جس کے تحت بنگلہ دیش کی فوج کو بھارتی اسلحے اور تربیت پر انحصار کرنا پڑا، جبکہ پاکستان یا چین سے دفاعی تعاون کے امکانات محدود کر دیئے گئے۔ اسی طرح، بھارت نے بنگلہ دیش کو بی آر آئی (Belt and Road Initiative) کے تحت چین کے ساتھ بڑے اقتصادی منصوبے کرنے سے روکنے کی کوشش کی، حالانکہ چین بنگلہ دیش کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن چکا تھا۔اسی طرح بھارت کو تجارتی، اقتصادی اور سکیورٹی کے شعبوں میں بڑی مراعات دی گئیں، جبکہ بنگلہ دیشی مارکیٹ کو بھارتی کمپنیوں کے لیے کھول دیا گیا، جس سے مقامی صنعتیں شدید متاثر ہوئیں۔
بھارت کے ساتھ تعلقات میں اضافے کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ شیخ حسینہ نے بھارت کو بنگلہ دیش کے زمینی اور آبی راستوں کے استعمال کی مکمل آزادی دے دی۔ اس کے نتیجے میں بھارت نے "تیستا ڈیل" جیسے پانی کے معاہدوں میں بنگلہ دیش کو شدید نقصان پہنچایا اور یکطرفہ طور پر زیادہ پانی حاصل کیا۔ اس کے علاوہ، بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کو بنگلہ دیش میں آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی گئی، جس نے بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات پر گہرے اثرات ڈالے۔ دفاعی معاہدوں کے ذریعے بھارتی فوج اور انٹیلی جنس اداروں کو مزید اختیارات حاصل ہو گئے، جس سے بنگلہ دیش کی خودمختاری کو نقصان پہنچا۔
حسینہ واجد کی پاکستان مخالف پالیسیوں کا ایک اور مظہر مسئلہ کشمیر پر بھارت کی غیر مشروط حمایت تھی۔ جب بھی پاکستان نے کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی، شیخ حسینہ کی حکومت نے ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیا اور او آئی سی میں پاکستان کے موقف کی مخالفت کی یا خاموشی اختیار کی۔
الغرض بھارت گزشتہ کئی دہائیوں سے بنگلہ دیش کی خارجہ، دفاعی اور اقتصادی پالیسیوں پر اثرانداز رہا۔جہاں بنگلہ دیش کو چین کے خلاف اپنے جیو پولیٹیکل عزائم کے لیے ایک تابع ریاست کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، وہیں اسلام آباد اور ڈھاکہ کے درمیان کسی بھی قسم کی قربت کو روکنے کے لیے سفارتی سطح پر رکاوٹیں کھڑی کیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی "را" نے بنگلہ دیش کے میڈیا، تھنک ٹینکس، اور حکومتی اداروں میں اثر و رسوخ بڑھا کر پاکستان مخالف بیانیے کو فروغ دیا، جبکہ بھارت نواز جماعتوں اور رہنمائوں کو سیاسی و مالی مدد فراہم کی۔ تاہم، عوامی سطح پر بڑھتے ہوئے عدم اطمینان، بھارت کی مسلسل مداخلت، اور بنگلہ دیش کی خودمختاری کو محدود کرنے کی سازشوں نے بھارتی عزائم کو بے نقاب کر دیا۔
جب عوام سڑکوں پر نکلے تو "بھارت کا تسلط نامنظور"اور "بنگلہ دیش بھارت کی کالونی نہیں" جیسے نعرے بلند ہوئے۔ کئی شہروں میں پاکستان کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات کی بحالی کے مطالبات بھی سامنے آئے، کیونکہ عوام نے محسوس کیا کہ بھارت کے بجائے پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات ان کے قومی مفادات کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ نوجوانوں اور اسلامی حلقوں نے بھی پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے حق میں آواز بلند کی، جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے بھارت کے بجائے چین، ترکی اور پاکستان کے ساتھ قریبی روابط کی وکالت شروع کر دی۔
حسینہ واجد کی بے دخلی کی تحریک میں عوام کا پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا مطالبہ ایک اہم پہلو رہا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کی جانب سے جو بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے نالاں تھے۔ ان تحریکوں میں مختلف مطالبات شامل ہیں، جن میں پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بحالی، کشمیر کے مسئلے پر دونوں ممالک کی مشترکہ حمایت اور جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے مشترکہ اقدامات کی تجویز دی جا رہی ہیں۔ عوامی سطح پر یہ مطالبات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے کچھ حلقے پاکستان کے ساتھ اپنے روابط میں مزید بہتری چاہتے ہیں۔
یہ مطالبات عام طور پر اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں پاکستان کے ساتھ تعلقات میں تاریخی پیچیدگیاں ہونے کے باوجود عوام کے ایک حصے میں دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت اور تعاون کی خواہش ہے۔ تحریک میں بعض نعرے ایسے تھے جو پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اچھے تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے تھے، جیسے:
"Pakistan and Bangladesh, Together for Peace!"
"Let the past be the past, build a future of cooperation!"
اب جب کہ حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی ہو چکی ہے، پاکستان کے لیے ایک نیا سفارتی موقع پیدا ہو گیا ہے۔ اگر پاکستان دانشمندانہ حکمت عملی اختیار کرے تو وہ بنگلہ دیش کے ساتھ تجارتی، سفارتی اور دفاعی تعلقات کو مضبوط بنا کر جنوبی ایشیا میں بھارت کے اثر و رسوخ کو کم کر سکتا ہے اور ایک نیا جیو پولیٹیکل توازن قائم کر سکتا ہے۔
حال ہی میں سفارتی، دفاعی اور اقتصادی سطح پر پاکستان اور بنگلہ دیش کا باہمی تعاون بڑھ رہا ہے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش کے عبوری وزیرِاعظم محمد یونس کی ملاقاتوں میں باہمی تجارت، اقتصادی تعاون اور ثقافتی تبادلے کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔
دفاعی سطح پر بنگلہ دیش کے عسکری حکام نے پاکستان کا دورہ کیا، جہاں لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم کامرول حسن نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی، جس میں علاقائی سکیورٹی، دفاعی تعاون اور انسداد دہشت گردی کے لیے مشترکہ کوششوں پر بات چیت ہوئی۔ اسی دوران، بنگلہ دیش کے نیول چیف ایڈمرل محمد نازمل حسن نے پاکستان نیوی ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا اور نیول چیف ایڈمرل نوید اشرف سے ملاقات کی، جہاں نیول افسران کی تربیت، مشترکہ مشقوں اور بحری سکیورٹی تعاون پر گفتگو ہوئی۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان فوجی اور بحری تعلقات میں بہتری آئی ہے، جس سے خطے میں استحکام کو فروغ ملے گا۔اس کے علاوہ، بنگلہ دیش کی شرکت کے ساتھ AMAN-25 نیول مشقوں کا انعقاد ہوا، جس کا مقصد بحرِہند میں سیکیورٹی اور استحکام کو فروغ دینا ہے۔
جہاں سفارتی و دفاعی تعلقات میں گرمجوشی دیکھنے میں آئیہے، وہیں اقتصادی میدان میں بھی نمایاں بہتری دیکھی جا رہی ہے۔ حال ہی میں پاکستان سے بنگلہ دیش کو پہلا تجارتی کارگو روانہ کیا گیا، جو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی بحالی کی علامت ہے۔ اس پیش رفت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے جلد پاکستان کے وزیر خزانہ کابنگلہ دیش کا دورہ متوقع ہے، جہاں اقتصادی تعاون کے نئے مواقع اور ممکنہ معاہدوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ یہ تمام اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں، جہاں باہمی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعاون کو وسعت دی جا رہی ہے، جو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
معاشی و تجارتی میدان میں بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے پاس بے شمار مواقع موجود ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش اگر تجارتی معاہدے (Free Trade Agreement - FTA) کرتے ہیں تو دونوں ممالک کے لیے نئی منڈیاں کھل سکتی ہیں۔ پاکستان اپنی ٹیکسٹائل انڈسٹری، چاول، ادویات اور زرعی مصنوعات کو بنگلہ دیش میں فروغ دے سکتا ہے، جبکہ بنگلہ دیش پاکستانی منڈی میں اپنی گارمنٹس، جوتے اور دیگر اشیا کی برآمدات بڑھا سکتا ہے۔ سی پیک کے ذریعے بنگلہ دیش کو وسطی ایشیا، ترکی اور یورپ تک رسائی دی جا سکتی ہے، جو دونوں ممالک کے لیے معاشی فوائد کا باعث بنے گی۔
دفاعی و سکیورٹی معاملات میں پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ ایک مضبوط تعاون قائم کر سکتا ہے۔پاکستان، ترکی اور بنگلہ دیش کے درمیان دفاعی معاہدے کیے جا سکتے ہیں، جن کے تحت نہ صرف مشترکہ فوجی مشقیں کی جائیں بلکہ دفاعی پیداوار اور انٹیلی جنس شیئرنگ کو بھی فروغ دیا جائے۔ اس سے بنگلہ دیش کو بھارت کی یکطرفہ اجارہ داری سے نکلنے میں مدد ملے گی اور جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بہتر ہوگا۔
ثقافتی و عوامی سطح پر بھی پاکستان کو اپنی پالیسی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی اور بنگلہ دیشی عوام کے درمیان مذہبی، ثقافتی اور تاریخی رشتے آج بھی موجود ہیں۔ پاکستان کو تعلیمی تعاون کے فروغ کے لیے بنگلہ دیشی طلبہ کے لیے اسکالرشپس میں اضافہ کرنا چاہیے، تاکہ نوجوان نسل میں پاکستان کے بارے میں مثبت تاثر پیدا ہو۔ میڈیا کے شعبے میں بھی مشترکہ منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں، جن میں ڈاکومینٹریز، فلمز اور ٹی وی شوز شامل ہوں تاکہ دونوں اقوام کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے۔
اس وقت جنوبی ایشیا میں بھارت، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل "کواڈ" الائنس خطے میں ایک نئی سرد جنگ کی بنیاد رکھ چکا ہے، جو پاکستان، چین اور دیگر ممالک کے مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان، ترکی، ایران،سعودی عرب، آذربائیجان اور بنگلہ دیش پر مشتمل ایک "مشترکہ سکیورٹی الائنس" تشکیل دیا جا سکتا ہے، جو نہ صرف خطے میں بھارت کی بالادستی کو چیلنج کرے گا بلکہ مسلم ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو بھی فروغ دے گا۔ بنگلہ دیش کی اس الائنس میں شمولیت اس کے لیے بھی فائدہ مند ہوگی، کیونکہ اس سے اسے بھارت کی مسلسل مداخلت سے نجات حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
پاکستان کو بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے فوری اور موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعلیٰ سطحی سفارتی وفود کو ڈھاکہ بھیجا جائے، تجارتی اور دفاعی معاہدوں پر کام کیا جائے، اور عوامی سطح پر تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے میڈیا و تعلیمی تعاون کو فروغ دیا جائے۔ اگر پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھا سکے تو جنوبی ایشیا میں ایک نئی جیو پولیٹیکل حقیقت جنم لے سکتی ہے، جو نہ صرف پاکستان اور بنگلہ دیش کو قریب تر بلکہ بھارت کے عزائم کو خاک میں ملا دے گی اور پوری مسلم دنیا کے لیے سودمند ثابت ہوگی۔
تعارف:مضمون نگار علاقائی اور بین الاقوامی امور پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے