بھارت اپنی سکیورٹی فورسز کو جموں کشمیر اور دیگر کئی ریاستوں کے لوگوں پر اندھا دھند ظلم و ستم کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے لیکن یہ دو اعتبار سے انہی کے لیے مہلک ثابت ہو رہا ہے، ایک آزادی اور علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں، دوسرا بھارتی فوجی جوانوں کے حوصلے پست اور اعصاب اس قدر متاثر ہو تے جا رہے ہیں کہ انہیں خودکشی کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ مکمل طور پر اجنبی علاقوں میں مقامی آبادی کے خلاف سخت فرائض فوجیوں اور افسران کے ذہنوں کو بری طرح منتشر کرر ہے ہیں۔ وہ نفسیاتی مریض بن گئے ہیں اور اپنے ذہنی صدموں سے نجات کے لیے خودکشیاں کر رہے ہیں۔اعلیٰ حکام کا امتیازی رویہ خودکشی یا ملازمت چھوڑنے اور استعفیٰ دینے کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔
وہ اپنی حکومت کے حکم پر بے گناہوں کو شہید کرتے ہیں اور لوگوں کو بغیر کسی جرم کے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں لیکن وہ خود بھی انسان ہیں اور دوسرے انسانوں پر ان کے مظالم آخر کار انہیں پریشان اور مایوس کر دیتے ہیں۔2010ء سے 2019ء تک بھارتی فوج کے 895، فضائیہ کے 185 اور بحریہ کے 32اہلکاروں نے خودکشی کی۔ 2014ء سے اب تک بھارتی فوج میں 983، بحریہ میں 96 اور فضائیہ میں 246 خودکشیاں ہو چکی ہیں۔
یوں بھارتی فوج کو کشمیر جنگ میں بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے کیونکہ بھارت کو مالی اور جانی اعتبار سے مقبوضہ کشمیر کی جنگ میں شدید نقصان کا سامنا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری کردہ ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں جنوری 2007ء سے اب تک 586 بھارتی فوجیوں، نیم فوجی اور پولیس اہلکاروں نے خودکشی کی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معصوم کشمیریوں پر مظالم کا ارتکاب بھارتی فوجیوں کی نفسیات پر گہرے اثرات چھوڑ رہا ہے۔مایوس بھارتی فوج، نیم فوجی، پولیس اور اس کی ایجنسیاں پر عزم کشمیریوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔
یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج کے افسران اور جوان حواس باختہ ہوچکے ہیں۔بھارتی افواج میں اعلیٰ افسران کے امتیازی رویے کے باعث ہر تیسرے دن ایک افسر خودکشی کرتا ہے۔ مزید برآں، 47000 اہلکار یا تو رضاکارانہ طور پر ریٹائر ہو چکے ہیں یا اس رویے کی وجہ سے مستعفی ہو چکے ہیں۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اعلیٰ افسران بھی ظلم اور سخت ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے اور وہ بھی اپنی جانیں لے رہے ہیں۔
بھارتی افواج میں اخلاقی گراوٹ بھی انتہا درجے کی ہے ۔افسران ماتحت خواتین کو ہراساں کرتے ہیں ۔وہ خواتین افسران کو رات گئے پارٹیوں میں اپنے ساتھ شامل ہونے پر مجبور کرتے ہیں اور بعض اوقات تمام حدیں پار کر دیتے ہیں، ایسے کئی واقعات ہیں جن میں خواتین اہلکاروں نے اسی وجہ سے خودکشی کر لی۔ مثال کے طور پر 2006ء میں، لیفٹیننٹ سشمیتا نے اپنی بھرتی کے صرف 10 ماہ بعد خودکشی کر لی، دسمبر 2016 ء میں میجر انیتا کماری نے جموں میں سر میں گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
بھارتی حکومت کے نمائندے خودکشیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد تسلیم کرتے ہیں لیکن ان خودکشیوں کی وجوہات بتانے سے گریزاں ہیں کیونکہ اس سے جموں کشمیر اور دیگر ریاستوں میں ان کے ظلم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا پردہ فاش ہو جائے گا۔
جموں کشمیر بھارت کے لیے واحد دردسر نہیں ہے بلکہ کم از کم 12 دیگر ریاستیں ہیں جہاں بھارت کو آزادی اور علیحدگی کی تحریکوں کا سامنا ہے جن میں شمال مشرق کی سات ریاستیں یعنی آسام، منی پور، تریپورہ، میزورم، میگھالی، ناگا لینڈ شامل ہیں۔ چھتیس گڑھ میں نکسل بغاوت عروج پر ہے۔
سبیر بھومک کی تحقیق 2007 میں ایسٹ سائوتھ سینٹر واشنگٹن نے شائع کی تھی۔ جگدیپ ایس چیما اور پاہی سائکیا کی ایک تحقیقی کتاب شمال مشرقی بھارت میں علیحدگی پسند تحریکوں کا ایک جامع اور بصیرت انگیز تجزیہ پیش کرتی ہے کہ جموں و کشمیر، شمال مشرقی بھارت اور مغربی بنگال سمیت کئی ریاستوں میں بغاوتیں ہیں۔ انکی جڑیں نسلی اور ثقافتی تقاضوں کے ساتھ ساتھ تاریخی شکایات پر مبنی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خودکشیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ ممکنہ ادارہ جاتی خرابیاں اور کام کی جگہ پر بدسلوکی ہے جس کی وجہ سے تنا ئواور صدمے ہوتے ہیں جو بالآخر خودکشی کا باعث بنتے ہیں۔ماہرین کی طرف سے اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ فوجیوں میں خودکشی کا رجحان جنگی علاقوں میں بہت زیادہ تھا، خاص طور پر کشمیر میں جو کہ کمزور قیادت،اعلیٰ افسر کے غیر مہذب رویے اور ہنگامی حالات میں بھی طویل سفر کے لیے چھٹی سے انکار کی وجہ سے یہ رجحان ہے۔
ترک خبر رساں ایجنسی انادولو کے مطابق کشمیر کے علاقے میں ایک سابق فوجی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس معاملے میں بہت سے عوامل ملوث ہیں۔ایک طویل عرصے تک خاندانوں سے دوری ، پھر کام کا دبائو، غیر موافقت، لوگوں کے مختلف پس منظر، کم چھٹیوں کی پابندیاں یا ذاتی صحت جیسے کسی بھی بیماری میں مبتلا ہونا خودکشی کے رجحانات کو بڑھاوا دیتا ہے۔افسر نے کہا کہ خودکشیوں پر قابو پانے کے لیے ہمیں کونسلنگ، علاج معالجے یا علاج کی دیگر اقسام پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ادارہ جاتی ردعمل کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
کرنل کے سی ڈکشٹ نے 2009 کے ایک مطالعہ میں کشمیر کے علاقے میں کارروائیوں سے متعلق ایک دلچسپ مشاہدہ کیا ۔کرنل ڈکشٹ نے کہا کہ روایتی جنگ کی تربیت حاصل کرنے والے فوجی کم شدت والے تنازعات کی کارروائیوں میں نمایاں تنائو کا سامنا کرتے ہیں۔ اس طرح کی کارروائیوں میں، سیکورٹی فورسز کو ایک خفیہ دشمن (قابل اعتماد انٹیلی جنس کی عدم موجودگی میں)سے لڑنا پڑتا ہے اور انہیں مقامی آبادی کی فعال ناراضی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مقصد کا ابہام، نظر آنے والی کامیابی کا فقدان اور ہلاکتوں کی بلند شرح سکیورٹی فورسز کے حوصلے پست کرتی ہے۔
ایک اور مطالعہ سروس تھنک ٹینک یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوشن آف انڈیا (یو ایس آئی) کے ذریعہ 2019-2020 میں اسی طرح کے نتائج پر پہنچا۔اس کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں آپریشنل اور غیر آپریشنل تنائو کی وجہ سے فوج کے جوانوں کے اندرنفسیاتی مسائل میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
بھارت کو کشمیریوں کی زمینوں پر ناجائز قبضوں اور جموں کشمیر کی آبادی کے خلاف وحشیانہ طاقت کے استعمال کے نتائج سے سبق سیکھنا چاہیے۔ بھارت ان کی ہمت توڑنے میں مکمل طور پر ناکام رہا جبکہ اس کی اپنی فوج کو اپنے اندر سے مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت اپنی پالیسیوں کو درست کرے، کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دے جیسا کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں وعدہ کیا تھا۔ بھارت مقامی لوگوں کی مزاحمت کے خلاف کبھی نہیں جیت سکتا جو اپنی سرزمین پر بھارتی حکمرانی کبھی قبول نہیں کریں گے۔
مصنف انگریزی میگزین اور اردو اخبار کے ایڈیٹر ہیں اور ٹی وی پروگراموں میں حالات حاضرہ کے تجزیہ کار کے طور پر نظر آتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے