بھارت میں اقلیتوں کو ہندو توا کے ظلم و ستم کا ایک عرصہ سے سامنا ہے۔ بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتیں جبرواستعدادکی بدولت مایوسی کا شکار ہیں۔ بھارتی حکومت اور ہندو توا نواز جماعتیں اسلامو فوبیا کا شکار ہیں۔لو جہاد(Love Jihad) بھی ایک اسلامو فوبیا سازشی نظریہ ہے جس کو ہندوتوا نظریے یعنی ہندو انتہاپسندی کے حامیوں نے ایجاد کیا۔ ہندو انتہا پسندوں کا دعویٰ ہے کہ مسلمان ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہندو عورتوں کو محبت کے نام پر پھنساتے ہیں اور پھر انہیں اپنے منصوبے کے تحت مسلمان کرتے ہیںا ور اس طرح بھارت میں ہندوئوں کو اقلیت میں بدلنا چاہتے ہیں۔
''لو جہاد'' کا یہ مفروضہ 2006ء میں تعلیمی اور سماجی لحاظ سے ایک ترقی یافتہ بھارتی صوبہ کیرالا سے شروع ہوا اور بعد میں یہ وبا پڑوسی صوبے کرناٹک تک جا پہنچی۔ اس کی شہرت یا بدنامی میں اس وقت اضافہ دیکھنے میں آیا جب2009ء میں کرناٹک کی ہائی کورٹ نے دونوں صوبوں کی پولیس سے رپورٹ طلب کی۔ پولیس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ محبت کا جھانسہ دے کر مسلمان بنانے کا کوئی واقعہ ان کی جانکاری میں نہیں ہے۔ تاہم25 جون 2014ء کو وزیر اعلیٰ اومن چاندی نے اسمبلی میں انکشاف کیا کہ ان کے صوبے میں 2006ء اور2014ء کے درمیان 2667 ہندو خواتین نے اسلام قبول کیا لیکن وہ بھی اس امر کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے کہ پولیس تفتیش سے یہی بات سامنے آئی ہے کہ ان خواتین کو کسی نے بھی زبردستی یا کسی دبائو یا لالچ دے کر تبدیلی ٔ مذہب پر مجبور نہیں کیا۔ اس واقعے کا تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تبدیلیٔ مذہب کو سخت بنانے کے ساتھ ساتھ اب ہندو قوم پرست بی جے پی کی قیادت والے صوبے یکے بعد دیگرے بین المذہبی شادیوں کو روکنے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔ خاص طور پر اگر لڑکا مسلمان اور لڑکی ہندو ہو۔ اترپردیش کی حکومت نے ایک آرڈیننس منظور کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے محض 48 گھنٹوں کے اندر ہی اس کا اطلاق کرکے لکھنٔومیں ایک ایسی شادی کو رکوا کر ایک مسلم نوجوان کو جیل بھیج دیا۔ اس طرح کی بھونڈی حرکتوں کے ذریعے بین المذہبی شادیوں کو''لوجہاد'' کا نام دے کر مطعون کر دیا گیا ہے۔
ایک آدھ دہائی قبل کچھ اسی طرح کی کارروائیاں اسرائیل میں بھی کی گئیں جب اسرائیلی عربوں (یہ اصطلاح ان فلسطینیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن کے پاس اسرائیلی شہریت ہے اور مغربی کنارہ اور غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے برعکس وہ اسرائیل کو اپنا وطن تسلیم کرتے ہیں) کو بھی یہودی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے ا پ کو یہودی جتلا کر ان کے ساتھ شادیاں رچانے کے الزامات لگائے جاتے تھے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ بھارت جو کہ نام نہاد سیکولر ملک ہونے کا دعویدار ہے وہاں چونکہ رام مندر کی تعمیر ، کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن جیسے بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ متنازعہ امور پر عمل در آمد ہو چکا ہے، ہندو انتہا پسند تنظیمیں جو اعلیٰ ذاتوں کی نمائندہ ہیں ، کو مسلمانوں کو ہدف بنانے کے لیے ایک اور ایشو کی ضرورت ہے ، جس سے اکثریتی آبادی کی توجہ بنیادی ایشوز سے ہٹائی جائے اور منافرانہ ماحول گرم رکھ کر ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول قائم رکھا جائے۔ دراصل مظلوم اور کمزور طبقات میں سائنسی ترقی اور موبائل فون جیسی سائنسی ایجادات کی بدولت بڑھتی ہوئی سماجی بیداری کے باعث ہندو نیتائوں کی فکر مندی کو دوچند کر دیا ہے کیونکہ یہ پسے ہوئے طبقات اپنے سیاسی اور سماجی حقوق کی خاطر منظم ہو رہے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنے پس پردہ اہداف کے حصول کے لیے پسماندہ طبقات اور دلتوں کو نشانہ بنانے کی جرأت تو کر نہیں سکتے، اس لیے انتہا پسند ہندو تنظیمیں چونکہ مسلمانوں کو نرم چارہ تصور کرتی ہیں۔ اسی لیے آثار و قرائن گواہی دے رہے ہیں کہ ہندو انتہاپسندوں کاسازشی ٹولہ اس بہانے مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی سازش کر رہا ہے۔ ورنہ بی جے پی کے چوٹی کے مسلم رہنمائوں شاہنواز حسین، مختار عباس نقوی کی بیویاں ہندو ہیں۔ ایک اور لیڈر مرحوم سکندر بخت کی بیوی بھی ہندو تھی۔ ہندو سخت گیر لیڈر سبرامنیم سوامی کی صاحبزادی نامور صحافی سہاسنی حیدر نے سابق سیکریڑی خارجہ سلمان حیدر کے صاحبزادے کے ساتھ شادی کی ہے۔ کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی اہلیہ سکھ تھیں۔ ان کی ہمشیرہ سارہ کانگریسی لیڈر سچن پائلٹ سے بیاہی ہیں۔ بھارت کے مشہور فلمی ستاروں شاہ رخ خان اور عامر خان نے ہندو خاندانوں میں شادیاں کی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب شادیاں ''لو جہاد'' تحریک کے تحت ہوئی ہیں؟ ہر گز نہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ پورے بھارت میں ''لوجہاد'' کا شوشہ چھوڑ ا گیا ہے۔
حالانکہ بقول شخصے اگر بھارتمیں رہنے والے تمام 172 ملین مسلمان سارے کے سارے صرف ہندو لڑکیوں سے ہی شادیاں کرتے ہیں تب بھی 922 ملین ہندوئوں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ درا صل کرناٹک میں ''مورل پولیس'' کا کام کرنے سے لے کر اترپردیش کے مظفر نگر میں فسادات کی آگ بھڑکانے تک ''لو جہاد'' کا بے سریلا راگ چھیڑ کے ہندو انتہا پسند تنظیموں نے اپنے کئی مقاصد کی تکمیل کی ہے۔ 2013ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے پورے زور و شور سے اس فتنہ پرور شوشے کو آگ دکھائی تھی تو نتیجے کے طور پر اترپردیش کے مظفر نگر میں فسادات میں 62 لوگ نا حق مارے گئے اور اس کے مابعد اثرات کے طور پر پچاس ہزار سے زائد مسلمانوں کو وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ٹھیک اسی وقت جب مظفر نگر فسادات کی عبارت لکھی جارہی تھی یعنی ستمبر 2013ء میں آر ایس ایس نے کئی صحافیوں کو ایک عام سے دِکھنے والے عنوان ''کچھ حقائق: مسلم مردہندو عورت'' والا ایک ای میل بھیجا تھا۔ اس ای میل میں 73 نامی لوگوں کی فہرست بنائی گئی تھی جو مسلم تھے اور انہوں نے ہندو عورتوں سے شادی کی تھی۔ لیکن اس میں کہیں بھی ''لو جہاد'' کا کوئی ذکر نہ تھا۔
جس طرح 2013ء کے مظفر نگر فرقہ وارانہ فسادات سے پہلے عدم اعتماد کا بیج بو دیا گیا تھا اسی طرح کوال گائوں میں پہلے ایک جھگڑا کرایا جاتا ہے، پھر اس جھگڑے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت فرقہ وارانہ فسادات برپا کرائے گئے اور پھر ہندو انتہا پسندوں کے شکار لوگوں نے مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی اور علاقے کی مسجدوں کو جلا ڈالا۔ اس دوران ''جائو پاکستان ورنہ قبرستان'''' ہندو ایکتا زندہ باد'' اور '' ایک کے بدلے ایک سو'' کے مکروہ اور شر انگیز نعرے لگائے جاتے رہے۔
غور طلب نکتہ یہ ہے کہ ''لو جہاد'' کے نام پر یہ فتنہ انہی ریاستوں میں ہی کیوں زیادہ پھیلا ہے جہاں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کا ووٹ بینک ہے۔ لو جہاد کا استعمال سنگھ پریوار کی جانب سے سب سے پہلے ساحلی کرناٹک صوبے میں ہی کیا گیا جو تاریخی طور پر ہندوتوا کی تجربہ گاہ ہے۔ حقیقت میں اس نام نہاد فتنہ کا نام استعمال کرکے ہندوئوں اور مسلمانوں کی پولرائزیشن کی جا رہی تھی۔ سنگھ پریوار نے تب سے وقتاً فوقتاً اپنے فائدے کے لیے '' لوجہاد'' کا تزویراتی طریقے سے استعمال کیا ہے۔ حالانکہ ایک سیاسی تصور کے طور پر پہلے پہل یہ خیال جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ساحلی ریاست کرناٹک سے شروع ہوا۔ بلکہ یہ اس صوبے کے جنوبی ضلع کنڑا اور شمالی کیرل کے کچھ حصوں میں دائیں بازو کی تنظیم ہندوجن جاگرتی سمیتی کی مہم میں سامنے آیا۔ ہندوجن جاگرتی سمیتی مسلسل خود کو سناتن ادارے سے جوڑتی رہی ہے جو 2009ء کے گوا بم دھماکے جیسے کئی دہشت گردانہ معاملوں میں نامزد ہے۔ ہندوجن جاگرتی سمیتی ساحلی کرناٹک کے شہری علاقوں میں مختلف النوع ثقافتی پہرے داری کی مہم میں بھی متحرک رہی ہے۔ یہ تب شہ سرخیوں میں آئی جب اس کے کارکنوں نے بھارتی تہذیب کی مغربیت کے خلاف اپنی مہم کے تحت پارکوں ،کلبوں اور کالجوں میں جوڑوں پر حملہ کرنے کے کئی واقعات کو جنم دیا۔
سال 2007ء کے آتے آتے اسی تنظیم نے اپنی اس مہم کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دیا۔ اور اس کی خاطر بہت سی میٹنگز منعقد کیں اور اپنی تنظیم کو آگے بڑھاوا دینے کے لیے اس نے ''لو جہاد'' کی اختراع تراشی۔ اپنی ویب سائیٹ پر یہ انتہاپسند تنظیم مسلم نوجوانوں کو شکار پر نکلے '' سیکس وولف کے برابر'' قرار دیتی ہے۔ بنا کسی ثبوت کے یہ دعوٰی بھی کر دیا گیا کہ صرف کرناٹک صوبہ میں تیس ہزار ہندو عورتوں کو اسلام میں داخل کروایا جا چکا ہے۔ جبکہ جنوبی کنڑا میں ہر روز لگ بھگ تین عورتیں '' لو جہاد'' کا شکار ہور ہی ہیں۔ لیکن اپنے ان تمام دعوئوں کے حق میں کوئی ایک بھی ثبوت پیش نہ کر سکنے کے سبب ہندوجن جاگرتی سمیتی کی یہ مہم کچھ پروان نہ چڑھ سکی جس طرح ہندو انتہا پسند چاہ رہے تھے۔ لیکن سال2009ء میں کرناٹک ہائی کورٹ کے آرڈر نے اس اصطلاح کو قانونی جواز دینے کا ناپاک فریضہ سر انجام دیا جس میں ''لو جہاد مہم'' کو کرناٹک اور کیرل پولیس کے ذریعے مشترکہ جانچ کرانے کے لیے کہا گیا۔ یہ آرڈر ایک بالغ خاتون جس نے کورٹ میں خود کہا تھا کہ اس نے مسلم مرد سے شادی کی ہے اور اپنی خواہش پر اسلام قبول کیا ہے، کے گارجین کے ذریعے دائر کی گئی حبس بیجاکی عرضی کے جواب میں ہائی کورٹ نے یہ آرڈر جاری کیا تھا۔ جنوبی کرناٹک کے چماراج نگر کی اس خاتون کے بیان کے باوجود اسے کورٹ کے ذریعے جانچ رپورٹ کے آنے تک اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے کی ہدایت دی گئی۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن امر یہ تھا کہ ہائی کورٹ جیسی اعلیٰ عدالت نے اس عرضی کو ریاست بھر کی گمشدہ عورتوں کے معاملوں سے نتھی کرنا تھا۔ کورٹ نے قرار دیا کہ یہ گمشدہ عورتیں بھی ''لو جہاد'' کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اب اس صورت حال پر ماسوائے اس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے' کے مصداق اس سے بڑھ کر ناانصافی کی کیا صورت حال ہو سکتی ہے۔
خود بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی کے مطابق لو جہاد کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ اور یہ فقط ایک نظریہ ہے۔ نہ تو اس کی عکاسی بھارتی کی آبادی کے اعداد وشمار میں ہوتی ہے جہاں ہندو تقریباً 80 فیصد اور مسلمان 14فیصد ہیں۔ بھارت میں '' لو جہاد'' کا مسئلہ دن بدن زور پکڑ رہا ہے۔ شری رام سینا کے کارکن کھلے عام بھارتی مسلمانوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی ہزاروں ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں جن میں '' پاکستان جائو یا قبرستان جائو'' جیسے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ بھارت میں بین المذاہب شادیوں کو ہمیشہ ایک سماجی بدنامی کی وجہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اور تمام ہندو عقائد کے ماننے والوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایسا مانا جاتا ہے کہ ان معاملات میں اکثر خواتین مذہبی تبدیلی پر مجبور ہوتی ہیں۔علاوہ ازیں بھارتی غیر جانب دار حلقے ببانگ دہل اس امر کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں کہ ملک میں اسپیشل میرج ایکٹ موجود ہونے کے باوصف اس شدت پسندانہ رویے کے سامنے سب بے کار ہوتا نظر آتا ہے۔ان کے مطابق بات صرف ایک مذہب کو نشانہ بنانے کی ہے۔ یہ جینو سائیڈ نسل کشی کی تیاری ہے۔ بھارت میں جب سے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار آئی ہے اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر ہندو خواتین اور مسلم مردوں کے درمیان'' لو جہاد'' کے نام سے مشہور ایک خطرناک سیاسی فلیش پوائنٹ بن گیا ہے۔
تعارف:مضمون نگارمختلف قومی وملی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے