یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بھارت جو کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست ہونے کا دعویدار ہے، وہاں حالیہ برسوں میں مذہبی انتہا پسندی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اس انتہا پسندی کا سب سے زیادہ نشانہ اقلیتیں، بالخصوص بھارتی مسلمان بن رہے ہیں۔ ہندو انتہا پسند گروہ اور بعض سیاسی عناصر مذہب کی آڑ میں مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ان پر تشدد کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں۔ ان حملوں کی ایک نمایاں مثال گائے کے گوشت کے نام پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانا ہے، جو ایک خطرناک رجحان اختیار کر چکا ہے۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں گہری ہیں اور یہ ایک تاریخی پس منظر رکھتی ہیں۔ ہندو قوم پرست تنظیمیں جیسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی)اور بجرنگ دل ماضی میں بھی ہندو بالادستی کو فروغ دیتی رہی ہیں۔ تاہم، 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کی حکومت کے قیام کے بعد، یہ تنظیمیں انتہائی متحرک ہو گئیں اور مذہبی انتہا پسندی کو کھلے عام فروغ دیا جانے لگا۔
بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور مسلمانوں کے خلاف تشدد پر عالمی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اورایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے ان واقعات پر متعدد بار بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے بھی بھارت میں اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے بھارت کے جمہوریت اور سیکولرازم کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ گائے کے گوشت کے نام پر مسلمانوں پر تشدد صرف ایک بہانہ ہے، اصل مسئلہ ایک مخصوص نظریے کو مسلط کرنے کی کوشش ہے۔
یاد رہے کہ ہندو انتہا پسندوں کا یہ نظریہ ہے کہ بھارت صرف ہندوئوں کے لیے ہے اور مسلمانوں کو یا تو ہندو ثقافت اختیار کرنی چاہیے یا پھر ملک چھوڑ دینا چاہیے۔ یہی نظریہ مختلف مظالم، قوانین اور پالیسیوں کی بنیاد بنتا جا رہا ہے، جن میں اقلیتوں کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔مبصرین کے مطابق گائے کو ہندو مذہب میں مقدس مانا جاتا ہے اور اسی عقیدے کو بنیاد بنا کر ہندو انتہا پسند گروہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ بھارت میں کئی ریاستوں میں گائے کے ذیبحہ پر پابندی عائد کی جا چکی ہے اور جو لوگ گائے کے گوشت کے ساتھ پکڑے جاتے ہیں، انہیں سخت قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم، مسئلہ صرف قانون تک ہی محدود نہیں بلکہ ہندو شدت پسند گروہ مسلمانوں کو شک کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور متعدد مواقع پر قتل بھی کر چکے ہیں۔یہاں یہ امر بھی توجہ کا حامل ہے کہ 2015 میں دادری کے علاقے میں محمد اخلاق نامی مسلمان کو محض اس شک پر کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا تھا، ایک مشتعل ہجوم نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ اس کے بعد سے بھارت میں ہجومی تشدد (موب لنچنگ)کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مختلف بھارتی ریاستوں میں گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے، جن میں جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، راجستھان،ہریانہ اور اتر پردیش سرِفہرست ہیں۔
اسی تناظر میں2017میں راجستھان کے علاقے الوار میں پہلو خان نامی شخص کو گائے لے جانے کے جرم میں قتل کر دیا گیا۔ 2018ء میں جھارکھنڈ میں علیم الدین کو ہجوم نے تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔اسی طرح ہریانہ اور ملحقہ علاقے میں دو مسلمان نوجوانوں ناصر اوراس کے ساتھی کو گائے لے جانے کے الزام میں زندہ جلا دیا گیا۔ ان واقعات کے باوجود، ملزمان کو اکثر قانونی تحفظ دیا جاتا ہے اور وہ آزادانہ گھومتے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی حکومت کی خاموشی دراصل انتہا پسندوں کی حمایت کے مترادف ہے۔مبصرین کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے دوران مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی خود آر ایس ایس کے تربیت یافتہ کارکن رہے ہیں اور ان کی قیادت میں ہندو انتہا پسندی کو مزید تقویت ملی ہے۔ گائے رکھشا کے نام پر تشدد کے مرتکب افراد کو بی جے پی کے بعض رہنما کھلے عام حمایت فراہم کرتے ہیں، جو کہ اس معاملے کی سنگینی کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ اسی ضمن میں گائے کے گوشت کے نام پر ہونے والے تشدد نے بھارت میں مسلمانوں کے لیے خوف اور عدم تحفظ کی فضا پیدا کر دی ہے۔ کئی علاقوں میں مسلمان گوشت کھانے سے گریز کرنے لگے ہیں جبکہ بعض نے گوشت کی تجارت ترک کر دی ہے تاکہ اپنی جان بچا سکیں۔یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے لیے حالات کس قدر مشکل ہوتے جا رہے ہیں جہاں انہیں روزمرہ کی زندگی میں بھی اپنی مذہبی اور ثقافتی آزادی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور مسلمانوں کے خلاف تشدد پر عالمی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اورایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے ان واقعات پر متعدد بار بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے بھی بھارت میں اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے بھارت کے جمہوریت اور سیکولرازم کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ گائے کے گوشت کے نام پر مسلمانوں پر تشدد صرف ایک بہانہ ہے، اصل مسئلہ ایک مخصوص نظریے کو مسلط کرنے کی کوشش ہے۔ اگر بھارتی حکومت نے اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی تو مستقبل میں بھارت مزید مذہبی تفریق اور عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔اس حوالے سے بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کو بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف مزید موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹ کے مطابق مودی حکومت ایسے بھارتی مسلمانوں اور عیسائیوں کو خاص طور پر نشانہ بنا رہی ہے، جو حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہیں یا اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔ جمہوریت کا دعویدار مودی اور اس کی حکومت کسی دوسرے مذہب کو برداشت نہیں کرتی جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے گھروں اور معاش کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کر رہی ہے۔ا مریکی محکمہ خارجہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اپنی رپورٹ میں لکھا ہے،کہ ایسی مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بھارت میں حکومت یا اس کے ایجنٹ ماورائے عدالت قتل کرنے جیسے واقعات انجام دیتے رہے ہیں تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ کہتی ہیں کہ2014ء میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال کافی بگڑتی جا رہی ہے اور وہ اس پر تشویش کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مودی حکومت پر نکتہ چینی کرنے والے بھی یہ بارہا یہ کہتے رہے ہیں کہ ان کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی معاشرے کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کے عمل کو کافی فروغ دیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت مبینہ طور پر مسلم کمیونٹی کے ان افراد کو دانستہ طور پر نشانہ بنا رہی ہے، جو حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور ان کے گھروں اور معاش کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کر رہی ہے۔'' ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مودی حکومت پر نکتہ چینی کرنے والے بھی یہ بارہا کہتے رہے ہیں کہ ان کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت نے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی معاشرے کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کے عمل کو کافی فروغ دیا ہے بھارتی مبصرین کے مطابق، مسیحی برادریوں کو درپیش تشدد کی کارروائیاں تصادمی واقعات سے کہیں زیادہ کشیدگی کو ہوا دینے کے لیے ایک مشترکہ مہم کا حصہ ہیں تاکہ ان کی عبادت کی سرگرمیوں کو محدود کرنے والے نئے قوانین کا جواز پیش کیا جا سکے۔ جب سے ہندو قوم پرست بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے، ملک بھر میں عیسائی اور مسلم اقلیتوں کے خلاف ظلم و ستم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اور آج یہ عیسائیوں کے لیے دنیا کے بدترین ممالک میں سے ایک ہے۔عورتوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں۔ اسی طرح بھارت میں مذہبی ظلم و ستم اس وقت بلند ترین سطح پر ہے، سکھ اقلیت پر اس کی اپنی حکومت کی طرف سے حملے ہو رہے ہیں - انتہا پسند ہندو سکھوں کے خلاف پرتشدد مظاہروں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہندو اکثریت ہمیشہ سکھ اقلیت سے متصادم رہی ہے۔
1984میں آپریشن بلیو سٹار، جب بھارتی حکومت نے فوج کو گولڈن ٹیمپل پر حملہ کرنے کا حکم دیا، اندرا گاندھی کے قتل کا باعث بنا۔ یہ قتل بھارتی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا، کیونکہ اس کے نتیجے میں 1984 کے سکھ مخالف فسادات ہوئے، جنہیں سکھ مخالف بیان بازی پر اکسانے میں حکومت کی شمولیت سے جوابدہی لینے کے لیے آسانی سے "فساد" کا لیبل لگا دیا گیا۔ بھارت کی سکھ مخالف پالیسیوں اور مذہبی تعصب نے سکھ اقلیت کو اپنے علیحدہ وطن، خالصتان کے لیے جدوجہد کرنے پر اکسایا ہے۔ حال ہی میں برطانیہ کینیڈا میں مقیم بھارتی سکھوں کی ایک بھاری اکثریت نے ریفرنڈم کے نتیجے میں خالصتان کے حق میں ووٹ دیا۔ خالصتان ریفرنڈم نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو سکھوں کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کرنے اور بھارت کو سکھوں کو ان کا پیدائشی حق آزادی دینے کے لیے تیار رہنے کا سخت پیغام بھیجا ہے ۔
بھارت کی دیگر ممالک میں تخریب کاری اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ عالمی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے نئے انکشافات ہوئے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را ''کئی ممالک میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔ بھارت کے دہشت گردانہ منصوبے نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہیں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ کے قتل نے بھارت کا دہشت گرد چہرہ پوری دنیا میں بے نقاب کردیا ہے۔ مودی نے آزاد خالصتان کا نعرہ لگانے والے ہردیپ سنگھ نجر کی آواز کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ اس سارے واقعے کے بعد مودی نے ایک بار پھر سکھ رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کو امریکہ میں قتل کرنے کی سازش کی جو بے نقاب ہو گئی۔ بھارت نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے بلکہ وہ دیگر ممالک میں بھی بے دریغ دہشت گردی کررہا ہے جو بین الاقوامی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ عالمی برادری بھارت پر پابندیاں عائد کرے تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر اس طرح کی سفاکانہ اور ظالمانہ کاروائیوں سے گریز کرے اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر بھی ظلم و ستم بند کرے۔ پاکستان میں بھارت ہمیشہ دہشت گردی میں ملوث رہا ہے۔ حالیہ جعفر ایکسپریس دہشتگردی کے ڈانڈے بھارت سے جا ملتے ہیں۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہا ہے، اور اس کے ناقابلِ تردید شواہد وقتا فوقتا سامنے آتے رہے ہیں۔ماضی قریب میں گلزار امام شمبے ،نجیب اللہ عرف درویش، عبدالرشید عرف خدائے داد سمیت بلوچ علیحدگی پسند دہشگردگروہوں کے کمانڈر قومی دھارے میں شامل ہو کر نہ صرف اپنی سابقہ سرگرمیوں سے تائب ہوئے بلکہ یہ اعتراف بھی کیا کہ بھارت انہیں فنڈنگ فراہم کرتا تھا، انہیں ہتھیار دیتا تھا اور افغانستان میں موجود بھارتی ایجنٹوں کے ذریعے انہیں عسکری تربیت دی جاتی تھی۔پاکستان میں بھارتی مداخلت کاسب سے بڑا ثبوت بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو ہے، جسے بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ کلبھوشن نے اپنے اعترافی بیان میں تسلیم کیا کہ وہ'' را'' کے لیے کام کر رہا تھا اور اس کا مشن بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو مدد فراہم کرنا تھا۔ پاکستان پہلے بھی عالمی برادری کو آگاہ کر چکا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کو مالی و عسکری مدد فراہم کر رہا ہے۔بھارت کو لگام دی جائے۔
تعارف:مضمون نگار قومی و بین الاقوامی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے