شمائل کو اپنے دوست یاسین کے پاس چترال آئے کافی دن گزرچکے تھے۔ اب وہ واپس جانے کے لیے تیار تھا کہ یاسین نے اسے بتایا کہ کل اس کے گھر میں مارخور کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب ہے، وہ اس میں ضرور شامل ہو۔
اگلے روز یاسین کے گھر بہت گہما گہمی تھی۔صحن میں ایک میز پر مارخور کی شکل کے بہت سے بیج رکھے ہوئے تھے۔ علاقے کی بزرگ شخصیت جنہیں سب ہی آغا جی کہتے تھے، سب سے مخاطب ہوئے۔’’ساتھیو!دنیا میں مارخوروں کی تعداد 25 سو سے بھی کم رہ گئی ہے جس میں گلگت بلتستان، چترال اور کشمیر کے مارخور بھی شامل ہیں۔ان کی تعداد میں حیرت انگیز کمی کی بڑی وجہ غیر قانونی شکار ہے۔چنانچہ آج ہم یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ ہم اپنے قومی جانور کی حفاظت کو یقینی بنائیں تاکہ ہمارا قیمتی ورثہ یونہی قائم دائم رہے۔‘‘
مارخور کے بارے میں شمائل اور بھی معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ یاسین نےبولا،’’ آغاجی کی باتوں کو غور سے سنو، تمہیں تمہارے تمام سوالات کا جواب مل جائے گا۔‘‘
آغا جی کہنےلگے، ’’ آج 3 مارچ ... ورلڈ وائلڈ لائف ڈے ہے لہٰذا ہم نے سوچا کہ کیوں نہ آج جنگلی جانوروں کی ایسی انواع کے بارے میں شعور اجاگر کیا جائے جنہیں معدومی کا خطرہ ہے۔مارخور جنگلی حیات کا اہم حصہ ہے اور قومی جانور ہونے کے ناتے اس کی حفاظت ہماری اولین ذمہ داری ہے۔‘‘
آغا جی ذرا رُکے اور شمائل کو متوجہ کرکے بولے، ’’بیٹا!مارخور کا لفظ دو الفاظ یعنی مار اور خور کا مجموعہ ہے۔مار فارسی کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں (سانپ)۔ خور پشتو زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں کھانے والا۔ اس طرح مارخورکا مطلب ہے سانپ کھانے والا(جانور)۔ویسے یہ ایک علامتی بات ہے۔ درحقیقت یہ بہت پیارا اور شفیق جانور ہے جو اپنے لوگوں سے بہت پیار کرتا ہے۔یہ سبزی خور جانوروں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اورپہاڑوںپر موجود قیمتی درختوں صنوبراور شاہ بلوط کے پتے اور جڑی بوٹیاں بڑی رغبت سے کھاتا ہے البتہ اپنی منرلز کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے یہ چٹانوں کو چاٹتا ہے۔ دوسری طرف یہ سانپ کو اپنا اور انسانوں کا دشمن سمجھتا ہے۔ جب بھی اسے دیکھتا ہے تو اس پر جھپٹ کر اسے ختم کر دیتا ہے۔ اسے مارخور کہنے کی ایک وجہ ایک مقامی روایت ہے جس کے مطابق وہاں کے لوگوں کاماننا ہے کہ اسے مارخور اس کے بل دار سینگوں کی وجہ سے کہا جاتا ہےجو کسی سانپ کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ ‘‘
شمائل کے لیے یہ باتیں حیرت انگیز تھیں۔آغا جی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولے،’’مارخور کی کل چھ اقسام ہیں جن میں سے تین استور،سلیمان اور کشمیر،پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔استورمارخو رچترال، گلگت بلتستان اور ہنزہ میں دیکھنے کو ملتا ہےجبکہ سلیمان مارخور پہاڑی سلسلے کوہ سلیمان میں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔کشمیر مارخو ر کا مسکن ہمارا علاقہ چترال ہے۔انہی میں سے کچھ اقسام خیبر پختونخوااور بلوچستان میں بھی پائی جاتی ہیں۔پاکستان کے علاوہ یہ نایاب جانور وسط ایشیا،افغانستان،اُزبکستان اور تاجکستان میں بھی پایا جاتا ہے۔‘‘
شمائل یہ تمام معلومات غور سے سن رہا تھا۔اس نے اچانک سوال کیا ، ’’اگر آپ کا مشن نایاب جانوروں کو بچانا ہے تویہاں رکھی مارخور کی کھوپڑی کہاں سےآئی؟‘‘اس کاسوال دلچسپ تھا۔آغا جی مسکرائے اور بولے،’’بیٹا! جو تم سمجھ رہے ہو ایسی بات نہیں۔ دراصل مقامی لوگ درختوں کی شاخیں اور لکڑیاں چننے کے لیے جب جنگل کا رُخ کرتے ہیں تو کبھی کبھار انہیں کوئی مارخورمردہ حالت میںمل جاتا ہے ۔وہ اس کے سینگ اور کھال کو محفوظ کرکے اپنے گھر کی زینت بنا لیتے ہیں۔ مارخور کایہ سر میرے دادانے محفوظ کیا تھا اور یہ تب سے ہمارے پاس موجودہے۔‘‘
آغا جی نے اپنی بات ختم کی اور شمائل کو چاندی سے بنا ایک چھوٹا سا مارخورتحفے میں دے دیا جس کے ساتھ ایک روایتی چترالی ٹوپی بھی تھی۔ شمائل نے مسکرا کر ان کاشکریہ ادا کیا۔ اب وہ حسین یادوں کے ساتھ اپنے گھر جانے کو تیار تھا۔
تبصرے