جہاں دنیا بھر کے لوگ آپس میں گپ شپ کرتے ہیں، وہاں سائنس کے مطابق صرف انسان ہی نہیں بلکہ چرند پرنداورپودےبھی ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں۔یہی صورت حال محتشم کے دسترخوان پر بھی پیش آئی۔
فروٹ چاٹ میں موجود کیلے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ایک دوسرے سے کہنے لگے ، ’’ ارے بھئی! تھوڑی جگہ بناؤ، تھوڑا فاصلہ پیدا کرو۔‘‘
انار کے سُرخ سُرخ دانے بھی ان کی حمایت کرنے لگے، ’’ہاں ہاں! تھوڑا تو فاصلہ رکھو۔‘‘
’’طرح طرح کے فروٹ کی وجہ سے ہمارا قدرتی لال رنگ ماند پڑ گیا ہے۔ تم کیلے تو ذرا سی دیر میں ہی کالے ہو جاتے ہو۔ابھی افطاری میں کتنا وقت ہے مگر تم لوگ ابھی سے اپنی خوبصورتی کھو بیٹھے ہو۔‘‘
ابھی یہ بات جاری تھی کہ سیب کے ٹکڑوں نے بھی اس میں حصہ لیتے ہوئے کہا، ’’ دوستو! ہمیشہ آپس میں ہی الجھتے رہتے ہو، اتنے بابرکت مہینے میں بھی تمہاری بحث جاری ہے۔ تھوڑی دیر میں ہم، لوگوں کی افطار ی کا سامان بن جائیں گے۔کیا سمجھے!‘‘
یہ سن کرامرود بولا،’’ ہاں! سمجھ گئے، ہمیں کاٹ کر اسی لیے پلیٹ میں رکھا گیا ہے کہ لوگ ہمارے ذائقوں کا مزہ لیں...‘‘
امرود کی اس بات سے ایک دوسری پلیٹ میں سویا ہوا موٹا پکوڑااُٹھ کر بولا، ’’ارے! تمہیں کیا ہوگیا ہے... اتنا شور؟ میری تو نیند ہی اُڑ گئی۔‘‘
پاس پلیٹ میں رکھی اسٹابری بولی، ’’ تم ہمیشہ سوتے رہنا۔ محتشم تمہاری طرف اشارہ کرکے اپنی امی سے کھانے کی فرمائش بھی کرچکا ہے۔‘‘
’’ تم ٹھیک کہتے ہو۔ مجھ پر تو بہت سے لوگوں نے نظریں گاڑ رکھی ہیں‘‘، پکوڑے نے منہ بسورا۔
’’اورمجھ پر بھی...‘‘، شربت کا گلاس چھلکا۔
ان تمام باتوں کے دوران مکمل خاموش رہنے والی کھجور نےچپ کا روزہ توڑا اور بولی، ’’دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ اللہ نے ہمیں افطاری کے دسترخوان پر سجایا ہے۔ہم سے لوگ اپنااپنا روزہ افطار کریں گے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے رکھا تھا۔یہ سن کر تمام فروٹس مطمئن ہوکر سر ہلانے لگے اور اس کے ساتھ ہی مغرب کی اذان کی آواز آئی۔ روزہ داروں نے اللہ کے حکم سے روزہ افطار کیا اور اللہ کی ان نعمتوں کا مقصد حیات بھی پورا ہوا۔
تبصرے