پہن لو جلدی سے یہ جراب
امی کا موڈ ہے آج خراب
مہرین نے کمرے میں داخل ہوتےہی یہ شعرکہا تو شہرین چڑ کر بولی،’’کیاتم اپنی اس فضول شاعری کے علاوہ کوئی اور بات نہیں کرسکتی؟‘‘ مہرین اور شہرین دونوں جڑواں بہنیں تھیں ۔ سارا دن دونوں کی نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔
’’اچھا یہ تو بتائو کہ آج امّی کا موڈ کیوںخراب ہے ؟‘‘ان کو بحث کرتے دیکھ کر سب سے چھوٹی بہن نوین کہنے لگی،’’ کیک کا وہ فلیور نہیں آرہا جو وہ چاہتی ہیں۔اُس نے پلیٹ سے کیک کا ایک ٹکڑااُٹھا کر منہ میں ڈالا اور کہنے لگی، ’’ویسے یہ بہت مزے کا بنا ہے ۔‘‘
’’اکیلی کھا رہی ہو۔ ہمیں بھی ٹیسٹ کراؤ۔‘‘،دونوں بڑی بہنیں آگے بڑھیں اور کیک کا ایک ایک ٹکڑا اُٹھاکر منہ میں ڈال لیا۔
’’واقعی! یہ بہت مزیدار ہے۔‘‘ شہرین بولی۔ ’’مزیدار تو بہت ہے پر جو فلیور امی بنانا چاہتی تھیں، یہ ویسا نہیں بنا۔‘‘ نوین نے جواب دیا ۔
’’ اب تو اُنہیں ایسا لگنے لگاہے کہ نانی اماں کی طرح اُنہیں بھی بھولنے کی عادت ہوگئی ہے۔‘‘ نوین کیک کھاتے ہوئے بولی۔
’’ ہرگز نہیں!امّی کوبھولنے کی بیماری نہیں ہوسکتی کیونکہ انہیں ہمارے بچپن کی ہر شرارت اچھی طرح یاد ہے۔‘‘ مہرین نے کہا۔
’’ بس کوئی خاص چیز ہے جو وہ کیک میں ڈالنا بھول گئی ہیں۔‘‘
مہرین، شہرین اور نوین کی امی بہت عرصے سے گھر میں ایک بیکری چلا رہی تھیں۔اُن کے بنائے ہوئے کیک، پیسٹریوں اوربسکٹ کے شہر بھر میں چرچے تھے۔ ہر مہینے کافی اچھی سیل ہوجاتی تھی۔اُن کی امی کے بنائے ہوئے نئے نئے کیک گاہکوں کو بہت پسند آتےتھے۔چند دنوں سے وہ ایک ایسے فلیور کا کیک بنانا چاہ رہی تھیںجو بچپن میں اُن کی امّی اُن کے لیے بناتی تھیں مگر کافی کوشش کے بعد بھی وہ ویسا کیک بنانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
امّی ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی تھیں۔اسی دوران مہرین، شہرین اور نوین تینوں امّی کے اردگرد آکر بیٹھ گئیں۔
دیکھو! میں نے کھائی کھیر
دیکھو! پھر سے آئی کھیر
مہرین نے کھیر کی پلیٹ لہرا کر ایک بار پھر شعرکہا تو شہرین کہنے لگی،’’ سب اشعار ہیں تمہارے فضول ۔‘‘
سب اشعار ہیں میرے بکواس
شہرین نے کھانی ہے اب گھاس
مہرین نے شعر کا مصرعہ مکمل کیاتو امّی ہنس دیں۔ ’’یہ کیسی شعرو شاعری ہے؟کسی شاعر نے تمہاری یہ فضول باتیں سن لیں تو وہ آگ بگولا ہوجائے گا۔‘‘
’’اچھاامّی جان، یہ کھیر تو چکھیں، بہت مزے کی ہے۔ یہ ابھی ابھی ساتھ والے گھر سے آئی ہے۔‘‘ نویں نے کھیر کا چمچ امّی کے مُنہ میں ڈالاتو امّی کا دھیان بٹ گیالیکن مسئلہ جوں کا توں تھا کہ آخر ان کی پسند کا کیک کیسے بنے۔
’’لگتا ہے کہ آج کل امی کچھ پریشان ہیں۔ اس کا کچھ تو حل ہونا چاہیے۔‘‘ مہرین بولی،’’ میرے خیال میں مسلسل کام کرنے کے بعد اب انہیں کچھ دن آرام کرنا چاہیے ۔‘‘ شہرین نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’ہاں! انہوں نے ہمارے لیے بہت محنت کی ہے۔‘‘ مہرین بولی۔
آؤ کھائیں ہم بریانی
ملنے آ رہی ہیں نانی
’’ہیں! سچی ، وہ کب آرہی ہیں؟‘‘
’’ہاں!بس کچھ ہی دیر میں پہنچنے والی ہیں اورکافی دنوں کے لیے آرہی ہیں۔‘‘ نوین نے بتایا۔
’’ میرے پاس ایک پلان ہے جو نانی اماں کو شامل کرکے مکمل کیا جاسکتا ہے۔‘‘ مہرین نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
نانی اماں کے آنےپر سب خوش تھے۔ ان کے گھر پہنچ جانے کے بعد تینوں بچیوں نے ان کے ساتھ مل کر ایک پلان بنایا کہ امّی کو کچھ دن کے لیے بریک دی جائے۔وہ کچھ دن کے لیے گائوں چلی جائیں۔
امّی نے جب ان کا پلان سنا توکہنے لگیں،’’میں ٹھیک ہوں۔ اگر میں چلی گئی تو یہاں کی ساری ذمہ داریاں کون دیکھے گا؟‘‘وہ بضد تھیں لیکن مان گئیں ۔
امّی کے روانہ ہوتے ہی تینوں بہنیں کچن میں گھس گئیں۔ وہ ہر روز ایک کیک بناتیں، اسے چکھتیں، مگر کیک میں کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی تھی۔وہ امّی کے واپس آنے سے پہلے ان کاپسندیدہ کیک بنا کر انہیں سرپرائز دینا چاہتی تھیں۔
امّی کےواپس آنے میںایک دن باقی تھا، وہ ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی تھیں۔آج انہو ں نے کیک بنایا تو مہرین کہنے لگی، ’’ذرا یہ نانی کو توچکھاؤ۔‘‘
’’وہ بیمار ہیں ۔ ان کی یادداشت بھی کمزور ہو گئی ہے۔‘‘ نوین نے یاد دلایا۔
’’پھر بھی انہیں یہ چکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ شہرین یہ کہتے ہوئے کیک کا ایک ٹکڑا لے کر اُن کے پاس پہنچ گئی ۔
’’یہ بہت مزیدارہے! ‘‘ نانی اماں نےکہا۔
’’کیا اِس میں کچھ کمی ہے؟‘‘ شہرین نے پوچھا تو وہ کہنے لگیں، ’’یہ کافی بہتر بنا ہے مگر اس میں ابھی بھی کچھ کمی ہے۔اگر یہ دو پائونڈ کا ہے تو میرے خیال میںاِس میںچار ٹیبل سپون مایونیز اور ایک ٹی سپون دار چینی پاؤڈر ملانے سے یہ بالکل ویسا بن جائے گا جیسا تمہاری امی چاہتی ہیں۔‘‘
ان کی بات سن کر شہرین کچن کی طرف بھاگی۔ اسے دیکھ کر اس کی بہنیں بھی وہاں آ گئیں اور وہ سب مل کر اس کمی کو پورا کرنے میں لگ گئیں۔تھوڑی دیر کی محنت کے بعد امی کی پسند کا کیک تیار تھا ۔
اگلے دن ان کی امّی واپس آگئیں تو ان کے سامنے میز پر چائے کے ساتھ ایک کیک بھی سجا تھا۔انہوں نے کیک کا ایک ٹکرا منہ میں ڈالا تو حیران رہ گئیں۔ ’’یہ کیسے ہوا؟ ‘‘
’’ہم سب بہت دنوںسے مل کر کوشش کر رہی تھیں اور کل جب ہم نے اپنا کیک نانی اماں کو چکھایا تو انہیں یاد آگیا کہ اس میں کیا کمی ہے۔‘‘
یہ سن کر امی کے چہرےپر مسکراہٹ تھی کیونکہ آج ان کی تربیت کام آئی تھی۔ تینوں بہنوں نے اپنی امّی سے سیکھا تھا کہ کوشش کرتے رہنا چاہیے ، چاہے وقتی طور پر ناکامی ہی کیوں نہ ہو۔ ناکامی سے گھبرا کر کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔ ثابت قدم رہنا، منزل تک پہنچنے کی کنجی ہے، چاہے اس میںکچھ زیادہ وقت ہی کیوں نہ لگ جائے۔ انہوں نے اپنی کوشش سے امّی کے چہرے پر خوشی کے رنگ بکھیر دیے تھے جس کاعکس اُن کے چہروںپر بھی عیاں تھا۔بقول اقبال :
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اِسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
تبصرے